(پاکستان ایک نظر میں) - سمندر کنارے

سید عون عباس  جمعـء 14 نومبر 2014
اسد مجھ سےمسلسل کہہ رہا تھا ان فالتو کی حرکات میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جوگیا اب وہ نہیں ملتا یہاں سےجلدی نکل چلو۔ فوٹو فائل

اسد مجھ سےمسلسل کہہ رہا تھا ان فالتو کی حرکات میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جوگیا اب وہ نہیں ملتا یہاں سےجلدی نکل چلو۔ فوٹو فائل

یونیورسٹی میں آئے چند ہی دن گزرے تھے کہ دوستیاں بڑھنے لگیں اور سب کی آپس میں اچھی طرح جان پہچان بھی بن گئی تھی۔ جماعت کے ایک ساتھی جن کے ساتھ میری اچھی علیک سلیک تھی وہ اور میں کافی بے تکلف بھی تھے، ہم دونوں پڑھائی لکھائی میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے اور یونیورسٹی سے واپس گھر بھی ساتھ جاتے۔ میرے دوست کا نام اسد تھا۔ پہلے سیمسٹرکے امتحانات سے ہم فارغ ہوکر سب طالب علموں کی طرح ہم نے بھی ایک ہی بات دہرائی کہ ’’چلو بھئی سر سے کچھ تو بوجھ کم ہوا‘‘ ۔ اچانک اسد کے ذہن میں خیال آیا اور وہ کہنے لگا کہ یار اب تو امتحانات سے فارغ ہوگئے ہیں کیوں نہ کسی دن موقع نکال کر عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دینے چلیں؟ چونکہ میرے پاس بائیک ہے تو میں نے بھی حامی بھر لی اور آنے والے ہفتے کا دن طے کر کے ہم دونوں اپنے اپنے گھر چلے گئے۔

ہفتے کی صبح 8 بجے اسد میرے گھر آگیا، میں بھی ناشتہ پانی کر کے تیار بیٹھا تھا ،اسد کے آتے ہی بس بائیک کو کک لگائی اور چل دئیے۔ مزار پہنچ کر حاضری دی اور واپس چلے دیئے، سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اسد نے مجھے سے کہا کہ اب یہاں تک آئے ہی گئے ہیں تو کیوں نہ سمندر کی سیر کر لی جائے۔ میں نے حامی بھر لی اور ہم سی وی یوکی طرف روانہ ہوگئے۔ صبح کا موسم نہایت خوشگوار تھا اور سمندر کی لہروں سے آنے والی آوازیں مزید لطف دوبالا کر رہی تھیں۔ میں اور اسد سمندر کے کنارے کھڑے موسم سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ دو چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر تقریبا آٹھ سے نو سال ہوگی ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بھائی آپ گھوڑے پر سواری کروگے؟ پہلے تو میں ان کو دیکھ کر ہنسنے لگا، پھر اسد نے کہا بیٹا تمہارے پاس تو کوئی گھوڑا نہیں ہے پھر کیسے؟اسد کا یہ کہنا تھا کہ ان میں سے ایک بچے نے سیٹی بجائی اور دور کھڑے دو گھوڑے بھاگتے ہوئے ہمارے سامنے آکھڑے ہوگئے۔

ہمارے نہ ماننے پر بچے ضد کرنے لگے تو میں نے پوچھا کہ ٹھیک ہے بھئی بیٹھ جاتے ہیں پر یہ تو بتاو پیسے کتنے لوگے؟بچے نے کہا بس بھیا 10 روپے۔ میں نے دل میں کہا چلو 10 روپے زیادہ نہیں۔ ایک گھوڑے پر میں اور دوسرے پر اسد بیٹھ گیا۔ بچوں نے ہمیں خوب گھڑ سواری کروائی مگر جب ہمیں سواری کر تے ہوئے 15 منٹ سے زیادہ ہوگئے تومیں نے بچے سے کہا کہ روک دو۔ جس پر اس نے کہا کوئی بات نہیں۔ آپ بیٹھو اور مزے لو۔ اسی وقت میرے دل میں خیال آیا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ تقریبا20 منٹ کے بعد دونوں بچوں نے گھوڑے روکے۔ اب جب میں نے اپنی جیب سے نکال کر دونوں بچوں کو دس دس روپے دئیے تو ان دونوں کے تیور بدل گئے ،اور انہوں نے پیسے زمین پر پھینک دئیے۔ جب میں نے پوچھا یہ کیا کیا؟ تو ان میں سے ایک بولا یہ کیا بکواس ہے ایک سواری کے 840 روپے ہوئے اور دونوں کے 1680 روپے۔

یہ سن کہ پہلے تو مجھے ہنسی آئی اور میں نے کہا بیٹا تم پاگل ہو گئے ہوکیا؟ اسد نے زمین سے پیسے اٹھائے اور اپنی جیب میں ڈال لئے، ہم نے سوچا اب گھر چلا جائے کہ اچانک ایک نوجوان لڑکا جو تقریبا 22 سے 23 سال کا تھا اس نے آتے ہی اسد کا گریبان پکڑا اور اپنے پورے بازوکی قوت سے ایک عدد مکا اس کی گردن پر رسید کیا۔ ہم نے سوچا یہاں سے بھاگا جائے مگر ہر طرف انہی کے لوگ پھیلے تھے، اگر کوئی بھٹا بیچ رہا تھا تو وہ بھی ان کا آدمی، کوئی اونٹ والا تھا تو وہ بھی، اگر کوئی لوگوں کی تصویریں کھینچ رہا تھا تو وہ بھی ان ہی کا آدمی۔ بس پھر تو جیسے پاؤں کی نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ میرا تو حلق خشک ہوگیا تھا اور دونوں ہونٹ چپک گئے۔ ایسی حالت میں ہم نے کہا بھائی ہم تو سمندر دیکھنے آئے تھے اور ان بچوں نے ہمیں دس روپے کہہ کر بٹھا یا اور اب 1680 روپے مانگ رہے ہیں چونکہ وہ لڑکا انہی بچوں کا ساتھی تھا، اس نے ہماری ایک نہ سنی اور ہماری جیبوں سے تلاشی کے بعد تقریبا1500 روپے نکال لئے۔ اسد چونکہ نہایت کم گو ہے تو اس کو تو جیسے چپ سی لگ گئی ۔

میں نے اس لڑکے سے کہا کہ بھائی آپ ہم سے 100،100 روپے لے لو جو کہ کافی ہے، تو اس نے جواب میں کہا کہ شرافت سے نو دو گیارہوجاؤ ورنہ بہت برا ہوگا تم دونوں کے ساتھ۔ اس وقت میرا خون غصے سے کھول رہا تھا مگر اسد نے میرا ہاتھ پکڑا اور بائیک کی جانب کھینچتا ہوا لے گیا ، وہ بضد تھاکہ بس گھر چلو یہاں مزید رکنا صحیح نہیں ہے۔ میں پہلے تو خاموشی کے ساتھ بائیک پر بیٹھ گیا مگر دور سے جب میں نے دیکھا کہ جس لڑکے نے ہم سے 1500 روپے زبردستی لئے وہ ہنسی خوشی ساحل پر گھو م رہا ہے تو میں اسی لمحے بائیک سے اتر گیا میں نے اسد سے کہا کہ نہیں میں اپنے اور آپ کے پیسے ایسے ضائع ہونے نہیں دونگا ۔ پھر میں نے (15) یعنی پولیس کی مدد لینے کی سوچی اور اگلے ہی لمحے (15) پہ کال کر کے آپریٹر کو تمام واقعہ سنایا۔ کال موصول کر نے والے نے مجھ سے پوچھا کہ جناب جن لوگوں نے آپ سے پیسے لئے ہیں کیا وہ ابھی بھی ساحل پر موجود ہیں؟ میں نے نہایت ہی غصے میں جواب دیا جی ہاں وہ میرے سامنے موجود ہیں اس کے ساتھ ہی میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میں آپ کی مدد کا منتظر رہوں یا گھر چلا جاؤں؟ جس پر آپریٹرنے کہا، بس 5 منٹ انتظار کریں ابھی پولیس آپ تک پہنچتی ہے۔

اسد اس وقت بھی مجھ سے مسلسل کہہ رہا تھا ان فالتو کی حرکات میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو گیا اب وہ نہیں ملتا یہاں سے جلدی نکل چلو، مگر میں خاموش وہیں کھڑا رہا۔ 5 منٹ گزر ے، پھر10 منٹ، میرے لئے ایک ایک لمحہ ایک صدی کے برابر تھا، تقریبا13 منٹ کے بعد مجھے ایک کال آئی کہ جناب علی صاحب آپ کہاں کھڑے ہیں؟ میں نے جگہ بتائی اور کچھ دیر بعد وہاں بوٹ بیسن تھانے کی موبائل پہنچ گئی جس میں سے سب انسپکٹر صاحب نکلے میں نے ان کو پورا واقعہ سنایا جب پیچھے مڑکر دیکھا تو پولیس موبائل جا چکی تھی،جس پر میں شدید حیرت میں پڑ گیا اور میں نے سوال کیا جناب آپ اکیلے کیسے ان لوگوں کو سنبھالیں گے؟ جس پر سب انسپکٹر صاحب نے انتہائی شگفتہ انداز میں کہا کہ بیٹا یہ سوچنا میرا کام ہے، آپ کا نہیں، جس پر میں خاموش ہو گیا پھر انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ بس جس نے تم سے پیسے چھینے تم ان کے پاس جا کر کھڑے ہو جاو۔ میں پیچھے سے آکر اس کو پکڑلوں گا۔

جیسے ہی میں ان بچوں کے پاس جاکر کھڑا ہوا سب انسپکٹر صاحب بھاگتے ہوئے آئے اور ان دونوں بچوں کو پکڑ لیا اور مجھ سے سوال کیا اتنے ننھے ننھے بچو ں نے آپ کو لوٹ لیا؟ ساتھ ہی وہ طنزیہ ہنسی ہنسنے لگے۔ جس پر میں نے جواب دیا نہیں جناب اصل شخص جس نے ہمیں زدوکوب کیا وہ یہاں سے غائب ہے۔ اتنے میں ایک شخص اور روتا اور بھاگتا ہوا پولیس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جناب میں نے اس شخص سے 30 روپے کی تصویر کھینچوائی مگر تصویر کھینچنے کے بعد اس نے مجھ سے 500 روپے زبر دستی لے لئے اور مجھے بہت مارا جس کا ثبوت اس کے منہ سے نکلنے والا خون تھا۔ جس کودیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ صبح کے وقت یہاں سی وی یو پر یہ دھند ا اپنے عروج پر ہوتا ہے۔

پولیس والے بھائی ابھی ان بچوں کی خاطر تواضع کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں ان دونوں بچوں کا باپ آیا اور نہایت شرافت سے کہنے لگا، ارے بھائی پریشان مت ہوں، آپ پولیس والے سے میرے بچے چھڑوادو میں آپ کو آپ کے پیسے لوٹا دوں گا۔ میں نے صاف منع کر دیا اور کہا کہ نہیں آپ پہلے میرے پیسے دیں۔ جس پر اس شخص نے جیب سے 500 روپے کی گڈی نکالی اور ہمیں شرافت سے تین نوٹ دے دئیے۔ مگر پولیس والے صاحب نے ان بچوں کو چھوڑنے کے بجائے اس شخص کو بھی پکڑلیا جو ایک اچھا اقدام تھا۔ مجھے دل میں نہایت خوشی ہو رہی تھی کیوں کہ پیسے جانے کے بعد نا ممکن تھا وہ ہمیں واپس ملتے جو کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں مل چکے تھے۔

اتنے میں پولیس موبائل بھی آگئی۔ ہم نے وہاں سے نکلنے میں ہی فائدہ سوچا ، اسد اور میں نے سب انسپکٹر صاحب کا شکریہ ادا کر کے ان کو خدا حافظ کہا اور ہم بائیک پر سوار ہو کرسی وی یو نکل گئے۔ اس واقع سے یہ بات واضح ہوئی کہ صبح کے اوقات پر سمندر کے کنارے لوٹ مار کے یہ دھندے کھلے عام جاری و ساری ہیں۔ جس کا نشانہ معصوم عوام بن رہی ہے۔ ہاں ایک اور بات تمام پولیس آفسران بھی ایک جیسے نہیں ہو تے ، جس طرح پولیس نے ہماری مدد کی ،اس دن سے تو پولیس والوں کے لئے ہمارے دل میں ایک خا ص مقام بن گیا۔آخر کار تقریبا سوا 1 بجے ہم لوگ گھر پہنچے اور سکون کا سانس لے کر اللہ کا شکر ادا کیا جس نے ہماری جان و مال سب چیزوں کی حفاظت فرمائی اور ہمیں بخیریت گھر پہنچادیا۔

​ نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سید عون عباس

سید عون عباس

بلاگر نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ اس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل جا ری ہے۔ ریڈیو پاکستان، جامعہ کراچی کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہنے کے علاوہ مختلف اخبارات اور رسالوں میں تحقیقی علمی و ادبی تحریریں لکھتے ہیں۔ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے صحافی اور ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔