(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - جان لیوا فیشن

رفیق اللہ پراچہ  پير 17 نومبر 2014
آج کی نوجوان نسل محض ایک فیشن کے طور پر شیشے کے نام کا زہر اپنے رگوں میں گھول رہی ہے۔

آج کی نوجوان نسل محض ایک فیشن کے طور پر شیشے کے نام کا زہر اپنے رگوں میں گھول رہی ہے۔

شعبہ صحافت سے وابستہ ہونے کے ناطے انسان کی مصروفیت دوگنی ہوجاتی ہے،ہمہ وقت زندگی مصروف رہتی ہے۔ایک دن انتہائی مصروفیت سے فراغت نصیب ہوئی،تو سوچا کچھ وقت دوستوں اور یاروں کے ساتھ گزاروں،کیوں نہ ان سے ملوں،اسی طرح چار،پانچ دوستوں پر مشتمل ٹولے کا ملن ہوا۔انسان کی زندگی جب اس حد تک مصروف ہوجاتی ہے اور کبھی دوستوں سے ملنے کا شرف حاصل ہوجائے تو ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھونا ایک فطری عمل ہے،چونکہ ہمیں کافی عرصے بعد ملنا نصیب ہوا تھا ،ہم بھی یونہی باتیں کرتے رہیں ،گفتگو جاری تھی، تقریباََ تمام دوست ماضی کی خوشگوار یادوں کے سمندر میں ڈوبے تھے،کافی قہقہے لگے۔اسی دوران ایک دوست کہنے لگے چلو یاروں شیشہ پینے چلتے ہیں،میں ہکاّ بکاّ رہ گیا ، میرے خدایا یہ شیشہ کس بلا کا نام ہے؟کہنے لگے تمہیں شیشے کا نہیں معلوم،یہ تو آج کل فیشن ہے،اور یوں میری بے چینی بڑھنے لگی کہ آخر یہ شیشہ کیا ہے؟اسی طرح ہم باتیں کرتے کرتے ایک کیفے چل دیے ،میں نے نظر دوڑائی تو مجھے حقہ نظر آیا،جی ہاں یہ حقہ ہی ہے جسے آج نئی نسل شیشے کا نام دے رہی ہے۔چونکہ میں بلکل الگ مزاج کا انسان ہوں،اسی لئے میرے مزاج نے مجھے واپسی پر مجبور کر دیا،اور میری واپسی پر دوستوں کو بھی واپس آنا پڑا۔باخدا مجھے اس دن بہت اذیت پہنچی اور دن بھر سوچتا رہا کہ اے میرے خدایا یہ ہم کس دور سے گزر رہے ہیں ،آج اتنے شعور کے باوجود نت نئے فیشن اور بے باکی نے نسل نو کو تباہی کے دہانے پرپہنچایا ہے۔ نوجوان نسل کی اس بے باکی پر علامہ اقبال کاایک شعر یاد آیا ہے ؛

 نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی ، یہ بیداری، یہ آزادی ، یہ بے باکی

ہمارے ہاں کسی زمانے میں سگریٹ نوشی کو بہت بڑا جرم سمجھا جاتا تھا، مگر آج حالات یکسر طور پر بدل چکے ہیں،آج سگریٹ نوشی کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے،گویا سگریٹ کو زندگی کا ایک اہم جز سمجھا جاتا ہے۔سگریٹ کے ساتھ ساتھ شیشہ سموکنگ کا رحجان ہمارے ملک کے نوجوانوں میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے،جس نے نہ صرف ہمارے نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن (W.H.O) کے مطابق پاکستان میں 20 سے 25 ملین افراد تمبا کونوشی کرتے ہیں جن میں سے 36 فیصد لڑکے اور 9 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ہر سال 8ہزار افراد تمباکو نوشی کرنے کی وجہ سے بے شمار بیماریوں کا شکار ہوکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل محض ایک فیشن کے طور پر شیشے کے نام کا زہر اپنے رگوں میں گھول رہی ہے، لعنت ہو ایسے فیشن پر جو انسان کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ شیشہ ا سموکنگ میں روافز اضافہ ہمارے لئے قابل تشویش ہے،اس طرف حکام بالا کا نظر کرم لازمی ہے۔

حقہ پینے کی روایت آج سے تقریباً تین ہزارسال پرانی ہے،کہا جاتا ہے کہ اس زہر کا وباء بھارت کے ریاست راجھستان سے پوری دنیا میں پھیلا ہے،اور آپ سب لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ حقہ بنانے کے لئے تمباکو اور نیکوٹین کا استعمال کیا جاتا ہے ،لیکن اب اسکی جدید قسم شیشے میں تمباکوکی بو زائل کرنے کے لئے اس میں سوئیٹ فلیورز شامل کئے جاتے ہیں،گویا زہر سے نکلنے والے بو کو خوشبوں میں بدلا جاتا ہے۔پچھلے چند برسوں سے شیشہ نوشی کی وباء پاکستان کے ساتھ ترکی،بھارت،بنگلہ دیش اور چائنا میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پاکستان میں قانون کے مطابق 16 سال سے کم عمر نوجوان کو سگریٹ فروخت کرنے پر پابندی عائد ہے۔ آج ہمارا ملک اس قانون کے اطلاق سے محروم نظر آتا ہے،ایک طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی تو دوسری جانب عوام کی قانون کی خلاف ورزیوں نے آج وطن عزیز کو تباہی کے دہانے پر آن پہنچایا ہے۔ موجودہ دور میں کم عمر لڑکے اور لڑکیاں تفریحی مقامات، کالجوں،جامعات اور سڑکوں پر کھلے عام اسموکنگ کرتے نظر آتے ہیں،خواہ وہ حقے کی صورت میں ہو یا سگریٹ کی صورت میں۔ آج ہماری نوجوان نسل نے شیشے کو فیشن کے طور پر اپنایا ہے،کیونکہ وہ اس کے نقصانات سے لاعلم ہیں،اسی لاشعوری ہی کی وجہ سے آج ہماری نئی نسل اپنی زندگیوں کو اپنے ہاتھوں تباہ کر رہی ہے۔

شیشہ نوشی سے سانس لینے میں تکلیف پھیپڑوں کا کینسر، دل کی بیماریاں، دمہ،خوراک کی نالی کا کینسر اور نمونیہ جیسی بیماریاں لاحق ہوتی ہے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے ہاں شیشہ، سگریٹ کی طرح با آسانی چھوٹے بڑے ہوٹلوں، دوکانوں اور شیشہ کیفیز پر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے دستیاب ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سرعام شیشہ بیچنے والے ہوٹلز ،کیفیز اور دوکانوں پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائے،با الفاظ دیگر ہمیں مستقبل قریب میں ایک بھیانک حقیقت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ شیشہ نوشی کے تلخ حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے اسکولوں، کالجوں اور بلخصوص جامعات میں اس لعنت سے متعلق سیمینار منعقد کروائے جائے،الیکٹرانک میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ اس سے لاحق نقصانات سے متعلق شعوری پروگرامز نشر کرائے۔گذشتہ کی جانے والی تحقیقات کے مطابق شیشہ سگریٹ سے 7گناہ زیادہ نقصان دہ ہے،اسکا اندازہ ہم شیشہ پینے کے دورانیے سے با آسانی لگا سکتے ہیں،جو عموماً آدھے گھنٹے کا وقت صرف کرتا ہے،جبکہ ایک سگریٹ تقریباً 5منٹ میں ختم ہوجاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق شیشے میں سگریٹ سے 36فیصد زیادہ ٹار،1.7 فیصد زیادہ نیکوٹین،8.3 فیصد زیادہ کاربن مونوآکسائیڈ ہوتی ہے۔

مناسب حکومتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں شیشہ نوشی کا وباء دن بہ دن بڑھ رہی ہے،حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کے حل کیلئے انفرادی کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔کیونکہ سگریٹ اور شیشہ پینے سے نہ صرف پینے والا شخص متاثر ہوتا ہے بلکہ دوسرے لوگ بھی شدید متاثر ہوتے ہیں، سگریٹ اور شیشے سے نکلنے والا دھواں ماحول کو آلودہ کر رہا ہے،جس سے تازہ ہوا میں دن بہ دن کمی واقع ہو رہی ہے۔حکومت کی جانب سے سخت اقدامات اور انفرادی کاویشیں اگر رنگ لائی تو اس جان لیوافیشن کو ہم معاشرے سے ختم کر سکتے ہیں۔اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پختہ عزم اور ہمت سے کام لیا جائے تو اس لعنت سے ہمیں چھٹکارا مل سکتا ہے۔

اس سلسلے میں والدین کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے اور انہیں چاہیے کہ ان برے افعال سے متعلق کڑوے حقائق بیان کرکے سختی سے اپنے بچوں کو بچنے کی تلقین کریں۔ دوستوں نے میری باتیں سنی تو اس لمحے مجھ سے وعدہ کیا کہ آج کے بعد وہ خود بھی اس جان لیوا فیشن کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہیں گے اورور دوسرے لوگوں کو بھی تلقین کرینگے۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے آئیں آج ہم سب یہ عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعد ہم بھی اس جان لیوا فیشن سے بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔