(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - کیا ٹائم مشین بنانا ممکن ہے؟

محمد عثمان فاروق  ہفتہ 22 نومبر 2014
وقت کو آٓگے پیچھے کرنے یا پھر ٹھامنے کی اب تک کی تمام کاوشوں اور جدوجہد نے انسانوں کو محض نقصان کے سوا کچھ نہیں دیا۔ لہذا سائنسدانوں سے گزارش ہے کہ انسان قدرت سے پنجہ آزمائی کے بجائے فلاح کے پھیلاو پر توجہ دیں۔ فوٹو: اے ایف پی

وقت کو آٓگے پیچھے کرنے یا پھر ٹھامنے کی اب تک کی تمام کاوشوں اور جدوجہد نے انسانوں کو محض نقصان کے سوا کچھ نہیں دیا۔ لہذا سائنسدانوں سے گزارش ہے کہ انسان قدرت سے پنجہ آزمائی کے بجائے فلاح کے پھیلاو پر توجہ دیں۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ 28 اکتوبر 1943 کا دن تھا ۔ دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی ہٹلر کی جنگی کشتیوں نے اتحادی فوجوں کی ناک میں دم کررکھا تھا ۔اسوقت ہٹلر کی بحری قوت کو توڑنے کے لیے مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کے ساتھ فلاڈلفیا میں ایک نہایت خفیہ تجربہ کیا گیا جس کا مقصد پورے جنگی بحری جہاز کو نظروں سے اوجھل کردینا تھا ۔

البرٹ آئن سٹائن اسوقت اتحادی فوجوں کی بحریہ کے لیے کام کررہا تھا دنیا کی نظروں سے اس پراجیکٹ کو اوجھل رکھنے کے لیے یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ البرٹ آئن سٹائن نیوی کے لیے تارپیڈو بم اور انڈر واٹر باردوی سرنگیں بنانے کے پراجیکٹ پر کام کررہا ہے جبکہ حقیقت میں کچھ اور چل رہا تھا ۔ 28 اکتوبر 1943 کو فلا ڈلفیا میں یہ تجربہ جس جنگی بحری جہاز پر کیا جانے والا تھا اسکا نام USS Eldridge تھا۔ یہ ایک نارمل دن تھا ۔ بحری جہاز کے افسروں اور فوجیوں کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ ایک خوفناک سائنسی تجربے کا شکار ہونے والے ہیں ۔سائنسدانوں کی ایک ٹیم دور کچھ فاصلے پر دوربین لیے جہاز کو غور سے دیکھ رہی تھی۔تجربے کا آغاز ہوتا ہے ۔ جہاز کے چاروں طرف سے بڑی بڑی الیکڑک مشینوں کے ذریعے مخصوص فریکوئنسی پر طاقتور مقناطیسی لہریں پھینکی جاتی ہیں اور روشنی کا ایک جھمکا ہوتا ہے اور جہاز غائب ہو جاتا ہے۔

تجربے سے منسلک تمام سائنسدان خوشی سے اچھل پڑتے ہیں لیکن انکی خوشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی کیونکہ جہاز غائب تو کردیا لیکن جہاز کو واپس منظر عام پر لانے کے لیے جوسائنسی پروٹوکول ترتیب دیا گیا تھا وہ کام نہیں کررہا تھا ۔دس منٹ بعد جہاز خودبخود ظاہر ہوتا ہے لیکن جہاز پر موجود انسانوں کی حالت نہایت قابل رحم تھی۔ آدھے سے زیادہ لوگ جل چکے تھے ۔ چند لوگ ایسے بھی تھے جو جہاز کے اسٹیل میں زندہ دفن تھے اور بچھے کچھے لوگ پاگل ہو چکے تھے ۔اس پراجیکٹ کو فوری طور پر ٹاپ سیکرٹ قرار دے کر بند کردیا گیا۔اور تمام وہ ریکارڈ مٹادیا گیا جس کے مطابق یہ پتا چلتا ہو کہ امریکی بحری جہاز USS Eldridge  کبھی فلا ڈلفیا آیا یا اس پر کوئی تجربہ کیا گیا ۔

اس سائنسی تجربے کا شکار ہونے والے لوگوں کے لواحقین سے یہی کہا گیا کہ یہ جہاز جنگ کے دوران تباہ ہوگیا اور اس میں موجود تمام لوگ ہلاک ہوگئے ۔ یہ راز ہمیشہ راز رہتا اگر اس تجربے کے برسوں بعد میں Al-Bielek نامی سائنسدان جو اس تجربے سے منسلک تھا وہ اپنی زبان نہ کھولتا جس کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد صرف جہاز کو نظروں سے اوجھل کرنا  نہیں تھا بلکہ البرٹ آئن سٹائن طاقتور مقناطیسی لہروں کے ذریعے ’’ٹائم اینڈ سپیس‘‘ میں زبردست بگاڑ پیدا کرکے ’’ٹائم مشین ‘‘ بنانے کا تجربہ کررہا تھا ۔اس تجربے کا دوسرا عینی شاہد Carlos Allende تھا جو کہ اس ڈیک پر ملازم تھا جدھر یہ تجربہ ہونا تھا۔

اگرچہ امریکہ میں آج تک اس واقع پر کوئی تحقیقی کمیشن قائم نہیں ہوسکا کہ USS Eldridge اور اسکے عملے کو بنا بتائے ایک غیر انسانی سائنسی تجرنے کا شکار کیوں بنایا گیا لیکن آج اتنے برس گزرنے کے بعد اس تجربے سے جڑے بہت لوگ ہیں جو ہوش ربا تفصیلات بتاتے ہیں ۔ آج اگر انٹرنیٹ پر Philadelphia Experiment لکھ کر سرچ کریں تو اس کی تمام تفصیلات آسانی سے مل جائیں گی ۔

اسوقت بہرحال ہمارا موضوع یہ ہے کہ کیا اگر آئن سٹائن واقعی ’’ ٹائم مشین ‘‘ بنانے کا تجربہ کررہا تھا تو کیا ایسا ممکن ہے کہ سائنسی طور پر ایسی مشین ایجاد کرلی جائے جس کے ذریعے ہم ماضی یا مستقبل میں جا سکیں ۔ اس سوال کے جواب میں آئن سٹائن کی وہ مشہور مساوات آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا جسے e=mc2 کہا جاتا ہے جس کے مطابق جب کوئی جسم روشنی کی رفتار حاصل کرلیتا ہے تو وقت اسکے لیے رکنا شروع ہوجاتا ہے ۔

1991 میں امریکہ میں ہی ہونے والی ایک سائنسی تحقیق میں کہا گیا کہ سائنس کی ایک شاخ ’’کوانٹم ‘‘ کے مطابق ’’ٹائم مشین ‘‘ بنانا ممکن ہے ۔کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر لیوک بچر کا کہنا ہے کہ اگر ہم ’’ ٹائم اینڈ اسپیس ‘‘ میں ایک ’’ورم ہول ‘‘ پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اسکے ذریعے ماضی یا مستقبل میں جایا جا سکتا ہے ۔ اس بات کو سادہ زبان میں یوں سمجھ لیں کہ جو وقت گزر رہا ہے یا گزر چکا ہے یا مستقبل میں آئے گا اسے ’’ ٹائم اینڈسپیس‘‘کہا جاتا ہے ۔ اب ورم ہول کیا ہے ؟یہ وہ ٹنل ہے جو ’’ٹائم اینڈ اسپیس ‘‘ میں مقناطیسی لہروں کے ذریعے گڑبڑ پیدا کرکے وجود میں آتی ہے اسکو مزید سادہ زبان میں یوں سمجھ لیں آپ کاغذ کے ایک نہایت اوپر ایک نقطہ لگائیں اور ایک نہایت نیچے ایک نقطہ لگائیں ۔جو اوپر والا نقطہ ہے اسکو آپ 1885سمجھ لیں اور جو نیچے والا نقطہ ہے اسکو آپ 2014 سمجھ لیں ۔ان دونوں نقطوں کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ ’’ ٹائم اینڈاسپیس‘‘ ہے یعنی برسوں کا ’’وقت‘‘ ہے جو گزر چکا ہے۔

اب اگر کوئی2014 سے 1885 میں جانا چاہتا ہے تو وہ کیا کرے ؟ اگر آپ اس کاغذ کو درمیان سے پکڑ کر فولڈ کر دیں تو دونوں نقاط ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے مطلب 1885 جو ہے وہ 2014 کے قریب آجائے گا ۔یہ جو کاغذ کو درمیان سے فولڈ کیا ہے یہ وہ ’’گڑبڑ‘‘ ہے جو آپ نے ’’ٹائم اینڈ اسپیس ‘‘ میں پیدا کردی اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اسکا نتیجہ یہ ہواکہ 1885 اور 2014 کے درمیان ایک شارٹ کٹ راستہ بن گیا ۔یہ راستہ ’’ورم ہول ‘‘ ہے ۔

یہ دراصل ’’ٹائم مشین ‘‘ کا وہ کوانٹم اصول ہے جو حسابی کتابی انداز میں تو آسانی سے سمجھ آتا ہے لیکن فی الحال حقیقی زندگی میں اسکا اطلاق کافی مشکل نظر آرہا ہے ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں ایسے تجربات خفیہ طور پر کیے گئے جن کا مقصد ’’ ٹائم اینڈ اسپیس ‘‘ میں بگاڑ پیدا کرکے ’’ٹائم مشین ‘‘ بنانا تھا ۔Die Glockeہٹلرکا وہ خفیہ پراجیکٹ تھا جس کی اطلاع اتحادی سیکرٹ ایجنسیوں کو ملی تو البرٹ آئن سٹائن کو Philadelphia Experiment کرنا پڑا تھا ۔Die Glockeکے بارے میں پرلی بار انکشاف 2000 میں دوسری جنگ عظیم کے ملٹری رازوں سے پردہ اٹھانے والے پولش صحافی Igor Witkowski او ر بعد ازاں Nick Cook نے کیا ۔آج اگر انٹرنیٹ پر Die Glocke لکھ کر سرچ کریں تو اسکے بارے میں کافی تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں ۔ کہا جاتا ہے Die Glocke کا مقصد نازی فوجوں کی کسی بھی یونٹ کے گرد ایسا انرجی ببل پیدا کرنا تھا جو ’’ٹائم اینڈ اسپیس‘‘ کو خراب کردے اور نازی فوجی چندگھنٹے آگے مستقبل یا چند گھنٹے پیچھے ماضی میں جاسکیں ۔ Die Glocke کے لیے کسی خفیہ مقام پر زیرزمین بہت بڑی ٹنل بنائی گئی تھی جس میں ہٹلر کے خفیہ سائنسدان دن رات اس پر کام کرتے تھے ۔انکا مقصد Die Glocke کے ذریعے ایک سوملین واٹ بجلی کا ایسا مقناطیسی ببل پیدا کرنا تھا جو ’’ٹائم اینڈ اسپیس‘‘ میں مطلوبہ ’’گڑبڑ‘‘پیدا کرسکے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ مشین ابھی تکمیل کے مراحل میں تھی کہ اتحادی فوجوں نے جرمنی کا محاصرہ کرلیا ۔ہٹلر کو شکست ہوتی ہے مگر بھرپور تلاش کے باوجود ہٹلر کی گرفتاری عمل میں نہیں آتی ہے اور نہ اسکی لاش ملتی ہے ۔جس خفیہ مقام پر Die Glocke کو بنایا جارہا تھا وہ مقام تلاش کرلیا جاتا ہے مگر Die Glocke غائب ہوتی ہے ۔اور وہاں ٹوٹی ہوئی مشینوں اور سائنسدانوں کی گلی سڑی لاشوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔

اس واقعے کے بیس سال بعد دسمبر 1965 میں امریکی ریاست پنسلوینا میں آسمان سے آگ میں لپٹی ایک مشین ایک ویران علاقے میں گرتی ہے ۔آج بھی اگر انٹرنیٹ سے اس وقت کے پنسلویناکے دسمبر 1965 کے لوکل اخبارات نکالیں تو اس پراسرار حادثے کی خبریں مل جائیں گی ۔عینی شاہدین اس مشین کا جو حلیہ بتاتے ہیں وہ بالکل Die Glockeسے ملتا جلتا تھا انکے مطابق اس میں سے ایک جلی ہوئی لاش بھی نکلی تھی واقعے کے کچھ دیر بعد سی آئی اے نے اس علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور مشین کے ٹکڑے اور جلی ہوئی لاش ٹرک میں ڈال کر لے گئے ۔حیرت انگیزطور پر اس واقعے کو بھی ٹاپ سیکرٹ قرار دے کر اسکے بارے میں کوئی تفصیل منظر عام پر نہیں آنے دی گئی لیکن کڑیوں سے کڑیاں ملانے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ دارصل Die Glockeہی تھی جس کے ذریعے ہٹلر نے بیس سال مستقبل میں آنے کی کوشش کی لیکن ورم ہول کے اندر برقی لہروں کی شدت نے اسکو جلا کر خاکستر کردیا اور وہ اپنی مشین کے ساتھ تباہ ہوگیا ۔

 ہوسکتا ہے آج بھی کسی خفیہ جگہ پر ٹائم مشین بنانے کے تجربات کیے جارہے ہوں لیکن سائنس چاہے جتنی مرضی ترقی کرجائے ایک بات بہرحال عیاں ہے کہ انسان قدرت کے سامنے بے بس ہے لہذا انسان کو چاہیئے کہ سائنسی ایجادات کو دنیا کو برباد کرنے کی بجائے فلاح کے پھیلاو پر استعما ل کرے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔