تھر کے مسائل پر ایک سوچ

کرن زمان  جمعـء 21 نومبر 2014

ملک میں موجودہ بحران کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ آپ جس شعبے کو دیکھیں خواہ وہ سیاست ہو، ریاست ہو، معاشرہ ہو یا معاش، سب ہی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ہم بات شروع کرتے ہیں تھر کی موجودہ ہلاکتوں سے۔ ہمارے وزیراعلیٰ سندھ  غلط نہیں کہہ رہے کہ تھر میں اموات پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور یہ اموات غربت کا نتیجہ ہیں۔

پر جناب والا عرض یہ ہے کہ کیا آپ نے اس غربت اور اموات پر قابو پانے کے لیے کوئی اقدامات کیے۔ کیا آپ نے ان معصوم پھولوں کو مرجھانے سے بچانے کے لیے صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کیں۔ غربت سے زیادہ جہالت دور کرنے کے لیے آپ نے کیا تھر میں کوئی تعلیمی نظام وضع کیا۔کوئی اسکول، کوئی ڈسپنسری کوئی آگہی مہم چلانے کی کوشش کی۔کیا آپ نے کبھی تھر کے باسیوں کو کوئی ایسی چیز دینے کی کوشش کی جو دور جدید کی طرز پر ہو۔ چلیں دور جدید نہ بھی ہو کم از کم کسی کم ترقی یافتہ پاکستانی شہر کی طرح ہو ۔ ہم آپ سے نہیں مانگتے تھر کے لیے state of the artٹیکنالوجی اور طرزتعلیم مگر کچھ تو جناب!

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ کراچی کی صورتحال زیادہ ابتر ہے ۔ صحرائے تھر میں لوگ اگر غذائی قلت یا طبعی موت مر رہے ہیں تو کراچی میں تو معصوم جانیں بغیر کسی وجہ کے لقمہ اجل بن رہی ہیں ۔ ملک کا سب سے برا تجارتی شہر اور ملک کا معاشی حب بدامنی سے نڈھال ہے۔

مگر میرا سوال اب بھی صرف یہ ہے کہ چلیں کراچی کے لیے تو آپ یہ عذر پیش کردیتے ہیں کہ یہاں بہت سے stake holders ہیں جن کی وجہ سے آپ ایک موثر آپریشن اور ایکشن لینے سے قاصر ہیں، اگرچہ آپریشن جاری ہے اور لیاری سمیت شہر کے دور و نزدیک جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈائون ہورہا ہے، مگر تھر میں تو وزیراعلی صاحب ! صرف سائیں کی حکومت ہے اور بغیر کسی حریف کے ایک unopposed حکومت ہے ۔

میں یہ بات نہیں سمجھ پائی کہ ایسی کون سی نادیدہ قوتیں ہیں جن کا وزیراعلی صاحب اکثر ذکر کرتے ہیں اور انکو  زیر کرنے سے قاصر ہیں ۔ نہ وہاں بجلی ہے، نہ پینے کوصاف پانی ۔  تعلیم اور صحت تو محض خام خیالی لگتی ہے ۔ کہیں سے بھی اس بات کا تاثر نہیں ملتا کہ تھر کے لوگوں کا بھی اس ملک اور سندھ دھرتی سے کوئی رشتہ ہے ،ان کا بھی اس مملکت خداداد میں کچھ حقوق ہیں۔ کیا ارباب اختیار نے آج تک کبھی ان مجبور اور بے کس لوگوں کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ تھر میں ایک خاندان میں 16 بچے ہیں ایسی صورت میں میرا خیال ہے کہ صرف بحث اور الزام تراشیوں کے بجائے مسائل کی نشاندہی کر کے ان کا حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اتنا بڑا کنبہ ہونے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے اور یہ اس بات کی واضح نشاندہی ہوتی ہے کہ وہاں تعلیم کی کس قدر کمی ہے اور غربت کے ڈیرے کس قدر مضبوط ہیں۔ وہاں ماں باپ کو اتنے بچے ہونے کے بعد ان کی مائوں اور بچوں دونوں کی صحت کے خیال سے زیادہ انکو پالنے کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔ وہاں دو وقت کی روٹی میسر آجانا کسی آسائش سے کم نہیں ۔ غربت ، بے بسی ،کسمپرسی اور اداسی بال کھولے ان تھری عوام کی دیواروں پر سو رہی ہے۔

ہمارے میڈیا کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلاوجہ بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بجائے اگر وہ واقعی مسائل کی نشاندہی کرے اور ان کے حل کے لیے کوئی قابل عمل تجویز دے تو بہت حد تک چیزیں سلجھ جائیں۔ حقیقت پسندی اور معروضیت کے ساتھ مسائل کی ٹھوس طریقے سے غیر جذباتی انداز میں نشاندہی ہونی چاہیے ۔ میں سارا بوجھ قائم علی شاہ صاحب کے ناتواں اور عمررسیدہ کندھوں پر نہیں ڈالنا چاہتی ۔ کچھ تھر کے مظلوم عوام کو بھی سوچنا ہوگا ۔ بلاشبہ وہ افتادگان خاک کہے جاتے ہیں ۔ ان کی حالت قابل رحم ہے ، لیکن تھری عوام کو قدرت نے طاقت اور صلاحیت دی ہے ، وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

لیکن انھیں وہ سوچ کون دیگا؟۔ وہ شعور کہاں سے آ ئے گا؟ پہلے یہی تھر کے لوگ اپنی غربت سے لڑتے تھے اور اپنے روزگار کے سلسلے میں بدین اور تھوڑے معاشی لحاظ سے بہتر علاقوں میں خوشی خوشی جاتے تھے محنت مزدوری کرنے، مگر پچھلے کچھ عرصے میں وہاں امداد کے اسقدر انبار لگے ہیں کہ تھر کے مقامی لوگوں کو اس امداد کی لت لگ گئی ہے۔ انھیںامداد سے زیادہ آگہی کی ضرورت ہے ۔ یہ آگہی تعلیم کے فروغ سے آئیگی  محض باتوں سے آپ اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں کرسکتے۔

وزیراعلی ہونے کے ناطے ،  عوامی نمایندہ ہونے کے ناطے آپ پر فرض ہے کہ آپ عوام کے مسائل کو سلجھائیں ۔ تھر کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ، بات صرف کمٹمنٹ کی ہے، اس جذبہ کی جو سندھ حکومت کو تھر کی تقدیر بدلنے پر راغب کر سکتی ہے ۔ آپ احسان نہیں کرینگے یہ آپ کا فرض ہے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔