عامر کو نوجوان کرکٹرز کے لیے ’’مثال‘‘ نہ بنایا جائے

سلیم خالق  اتوار 23 نومبر 2014
بی سی بی کا کرپشن کو گوارا کرنے کا رویہ ساکھ کی تباہی ثابت ہوگا۔  فوٹو : فائل

بی سی بی کا کرپشن کو گوارا کرنے کا رویہ ساکھ کی تباہی ثابت ہوگا۔ فوٹو : فائل

’’او پتر ایتھے آ۔‘‘
’’آیا کپتان جی۔‘‘
’’یہ سلیم خالق ہیں ساڈھے دوست، کراچی سے آئے ہیں۔‘‘
’’یہ لڑکا محمد عامر ہے، بہت اچھا لیفٹ آرم پیسر۔‘‘

نوجوان بولر سے میرا یہ پہلا تعارف اگست 2007ء کے دورئہ انگلینڈ میں اس وقت کے ٹیم منیجر اظہر زیدی نے کرایا تھا، تب وہ 15 سال کا معصوم سا بچہ بولنگ کے سوا اور کچھ سوچتا ہی نہیں تھا، مجھے اب تک زیدی صاحب کی وہ سرگوشی یاد ہے کہ ’’غریب گھر کا بچہ ہے مگر دیکھ لینا ایک دن بہت بڑا بولر بنے گا، سامنے اس لیے نہیں کہہ رہا کہ کہیں ابھی سے دماغ خراب نہ ہو جائے۔‘‘

شان مسعود، احمد شہزاد، جنید خان اور عمر امین بھی اسی اسکواڈ کا حصہ تھے، اظہر زیدی نے بڑے بڑے کرکٹرز کو متعارف کرایا، مجھے ان کی جوہر شناس نگاہوں پر اعتماد تھا اور بعد میں عامر نے ان کی پیشگوئی درست بھی ثابت کر دی۔

اب نومبر 2011ء کا ذکر کروں، مقام وہی انگلینڈ، اس بار لندن کے کراؤن کورٹ میں عامر، آصف اور سلمان بٹ کے کیس کی سماعت دیکھی، جہاں سے تینوں کو جیل بھیج دیا گیا، یوں عامر نے جس ملک سے کرکٹ کیریئر شروع کیا وہیں اس میں فل اسٹاپ بھی لگا، صرف 4 برس میں انھوں نے عروج و زوال کا دور دیکھ لیا۔

میں 2010ء کے اس دورئہ انگلینڈ کے دوران بھی موجود تھا جس میں اسپاٹ فکسنگ کا وہ واقعہ پیش آیا جس نے پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا دیا،اس سے قبل اسی برس کا وہ آسٹریلوی ٹور جس دوران ’’بچہ‘‘ عامر اس لیے ساتھی پلیئرز سے لڑ پڑا کہ باؤنڈری کے قریب فیلڈنگ کروں گا کیونکہ وہاں موجود لڑکیوں سے سیٹنگ ہو چکی ہے، مجھے اس کی کوریج کا بھی موقع ملا، سڈنی پولیس میں ملازم میرے دوست رفیق چوہدری گواہ ہیں کہ ایک دن میں کسی کھلاڑی کے کمرے میں بیٹھا تھا تو اس نے عامر کے بارے میں چند ایسی باتیں بتائیں جنھیں سن کر بڑی حیرت ہوئی، اتفاق سے پیسر اسی وقت وہاں آ گیا تو میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’پاکستان میں بڑے بڑے کرکٹرز آئے جنھیں اب کوئی پہچانتا بھی نہیں، عزت ملی ہے تو اس کی قدر کرو کہیں سب کچھ کھو نہ جائے۔‘‘

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو بتاتا چلوں کہ اس پورے معاملے پر ہمیشہ میری نظر رہی، میں وہ وقت نہیں بھول سکتا جب میرے سامنے اسٹیڈیم کے باہر گرین شرٹس پہنے چند پاکستانیوں کو گوروں نے اسپاٹ فکسنگ پر گندی گندی گالیاں دیں اور وہ بیچارے بے بسی کے عالم میں غصے سے سرخ کھڑے رہے، ہماری ٹیم جہاں کھیلنے گئی اسے برا بھلا کہا گیا، کھلاڑی شکوک کی زد میں رہے، کسی کو خارش ہوئی اور اس نے کمر کھجائی تو کہا گیا کہ ’’اس نے بکی کو کوئی اشارہ کیا ہے۔‘‘

افسوس ہماری قوم کی یادداشت بڑی کمزور ہے، اب انہی اسپاٹ فکسرز کو پھر سے کرکٹ کھلانے کی باتیں ہو رہی ہیں خصوصاً حکام کا بس نہیں چل رہا کہ عامر کو یو اے ای میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہی میدان میں اتار دیں،رمیز راجہ پاکستانی کرکٹ کے ایک بے حد سلجھے ہوئے کردار ہیں، کھیل سے علیحدگی کے بعد وہ بورڈ سے وابستہ رہے اور اب کمنٹری کے سلسلے میں دنیا بھر کا دورہ کرتے ہیں، انھیں آئی سی سی تک میں ملازمت کی پیشکش ہوئی مگر قبول نہ کی، کمنٹری اب ان کا واحد شوق ہے اور دنیا بھر کے کرکٹرز انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، چونکہ ان کا سب سے ملنا جلنا رہتا اس لیے دنیا پاکستان کرکٹ کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔

انھیں زیادہ علم ہوتا ہے، رمیز کی ایک خوبی صاف گوئی ہے، جہاں دیگر سابق کرکٹرز مصلحتاً خاموش رہنا پسند کرتے ہیں وہیں وہ کھل کر اپنی رائے دے دیتے ہیں، اسی لیے بعض لوگ انھیں پسند نہیں کرتے، جب ’’بگ تھری‘‘ کا معاملہ آیا تو سب سے پہلے رمیز راجہ نے کہا کہ حمایت کر کے فوائد حاصل کر لینے چاہئیں، اس وقت انھیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، بعض لوگوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ان کے کمنٹری کی وجہ سے بھارت سے مفاد وابستہ ہیں اسی لیے ایسی بات کر رہے ہیں، بعد میں سب نے دیکھا کہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے کس طرح بھارت کی منت سماجت کر کے ساتھ جا ملے،اب رمیز نے عامر کو قومی ٹیم میں واپس نہ لانے کی بات کی تو اس میں وزن ہے۔

انھوں نے جو دلائل دیئے وہ اہمیت رکھتے ہیں، پی سی بی میں ذکا اشرف، نجم سیٹھی یا شہریارخان جو بھی چیئرمین آئے ان کے دل میں عامر کے لیے نرم گوشہ رہا، تینوں نے پیسر کی پابندی ختم کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، اس کی بظاہر وجہ تو کم عمر ہونا ہی نظر آتی ہے مگر وہ کیسے بھول گئے کہ عامر کی وجہ سے پاکستان کرکٹ کی کتنی بدنامی ہوئی، کئی برسوں بعد اب ٹیم دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوئی اسے پھر سے مشکلات کا شکارکرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ وہ لوگ جو عامر کو ٹیم میں لانے کی بات کرتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ کیا ان کے دفتر کا کوئی ملازم یا گھر میں کام کرنے والی ماسی بھی 100 روپے چراتے پکڑی جائے تو وہ اسے دوبارہ ملازم رکھ لیں گے؟ ایک عام آدمی رشوت لے یا کوئی اور غلط کام کرے وہ بھی غلط ہے لیکن ملک کی بدنامی کا باعث بننے والوں کو تو نشان عبرت بنا دینا چاہیے۔

عامر، سلمان اور آصف کی واپسی کے بارے میں ذرا ان برطانوی نژاد پاکستانیوں سے پوچھیں جن کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد گوروں نے جینا حرام کیا ہوا تھا وہ کبھی اجازت نہیں دیں گے، یقینا عامر کو دوسرا موقع ملنا چاہیے لیکن وہ قومی ٹیم کے لیے نہیں ہو، میں اس بات کے حق میں ہوں کہ انھوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی لہٰذا کرکٹ میں واپس آنے دیا جائے مگر قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع دینا درست نہیں ہوگا، پاکستانی قانون کے مطابق کوئی سزا یافتہ سرکاری ملازمت نہیں کر سکتا، پرائیویٹ ادارے بھی ایسے کسی شخص کو کام پر نہیں رکھ سکتے، مگر ہم قومی ٹیم میں شامل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

انھیں کوچنگ یا کوئی دوسری ملازمت دے دینی چاہیے جس سے گزر بسر چلتا رہے، ویسے بھی وہ خاصی بڑی رقم کما چکے اور لوگ کہتے ہیں کہ لاہور میں کئی پلاٹ بھی موجود ہیں، عامر کے حمایتی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں وہ کوئی نہ کوئی راہ نکال سکتے ہیں، بعض حلقوں کے مطابق بورڈ خود انھیں نیشنل بینک میں ملازمت دلانے کے لیے کوشش کر رہا ہے مگر جیل جانے کی وجہ سے راہ میں رکاوٹیں ہیں، پیسر کو ٹیم میں دوبارہ لانے کا مطلب ان نوجوان بولرز کے ساتھ ناانصافی ہو گی جو دن رات محنت کر کے قومی ٹیم کی نمائندگی کا خواب دیکھتے ہیں، عامر کو فرسٹ کلاس کرکٹ تک محدود رکھیں تاکہ دوسروں کو پیغام جائے کہ یہ کتنا باصلاحیت بولر ہے مگر چونکہ اسپاٹ فکسنگ کی اس لیے پاکستان کے لیے نہیں کھیل سکتا۔

عامر کے ملک کے لیے کھیلنے سے لوگ سوچیں گے کہ ’’ہم بھی فکسنگ کرتے ہیں، بعد بھی معصوم سا چہرہ بنا کر معافی مانگ لیں گے۔‘‘ یہ کہنا کہ نوجوان پیسر کو صرف ورغلایا گیا وہ دودھ کے دھلے تھے درست نہیں، 19 سال کی عمر میں ان کے جو کام تھے ذرا کسی ساتھی کھلاڑی سے پوچھیں وہی بتائے گا، ایسے میں عامر کو معصوم بچہ قرار دینا بچوں کی توہین ہے۔ لوگ اس کیس میں مارلون سموئلز کی مثال دیتے ہیں جو 2 برس کی پابندی مکمل کر کے کرکٹ میں واپس آ گئے مگر ان کا معاملہ مختلف تھا، سموئلز نے بھارتی بکی کو ٹیلیفون پر میچ کے بارے میں معلومات دی تھیں، وہ کسی ٹیسٹ میں جان بوجھ کر نوبال کرتے نہیں پکڑے گئے تھے۔

سب سے اہم بات یہ کہ سموئلز ویسٹ انڈین ہیں پاکستانی نہیں، ہمارے پیچھے تو ویسے ہی دنیا بھر کا میڈیا لگا رہتا ہے، عامر اگر ٹیم میں آئے اور غلطی سے بھی کوئی نوبال کردی تو سب شک کی نظر سے دیکھیں گے، کافی عرصے سے ٹیم پر کوئی الزام نہیں لگا ماحول خراب ہونے سے اسی کا خدشہ رہے گا، میں مانتا ہوں کہ دنیا کے یقینا کئی دیگر کرکٹرز بھی فکسنگ میں ملوث ہونے کے باوجود کرکٹ کھیل رہے ہوں گے لیکن یہ کوئی جواز نہیں کہ ’’چونکہ فلاں فلاں بھی چور ہے لہٰذا میں بھی چوری کرتا ہوں۔‘‘ بہت سے عامر کے حامی یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاستدان بھی تو اربوں روپے کی کرپشن کر کے کئی بار حکومت میں آ جاتے ہیں، ان سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کرکٹ کو سیاست کا اکھاڑہ نہ بنائیں اسے جتنا صاف رکھ سکتے ہیں رکھیں ورنہ جو ملکی سیاست کا حال ہے وہی ہو جائے گا۔

آئی سی سی اگر عامر کی دل کھول کر حمایت کر رہی ہے تو اس کی کئی وجوہات ہیں، اس نے پیسر کو ایک نمونہ بنا لیا، ہر بڑے ایونٹ سے قبل کھلاڑیوں کو جو اینٹی کرپشن ویڈیو دکھائی جاتی ہے اس میں عامر اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے دیگر کو فکسنگ کی باز رہنے کی ہدایت کرتے ہیں، مشترکہ سیشن کی صورت میں دیگر ممالک کے پلیئرز ہمارے کرکٹرز کو طنزیہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں، کئی تو شرمندگی کی وجہ سے سیشن ادھورا چھوڑ کر بھی جا چکے ہیں، عامر نے آئی سی سی کے سامنے اس واقعے کی تمام تفصیلات بیان کیں اور وعدہ معاف گواہ بنے، اگر ان کے لیے قانون تبدیل کر کے جلد فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کی اجازت دی جا رہی ہے تو اس سے کونسل کا مفاد وابستہ ہے، وہ اب دیگر کھلاڑیوں کو مثال دے گی کہ ’’ہمارے ساتھ عامر نے تعاون کیا تو دیکھو ہم نے بھی اسے صلہ دیا، لہٰذا تم بھی ایسا ہی کرنا۔‘‘

ہمیں اپنے ملک کا سوچنا چاہیے جہاں کئی باصلاحیت بولرز موجود ہیں، ماضی میں اگرکوئی کھلاڑی فکسنگ کر کے بچ نکلا تو اس کی مثال دے کر عامر کو واپس لانا بالکل مناسب نہیں، جس حد تک ممکن ہو بچنا چاہیے، کرپٹ سیاستدانوں یا کرکرکٹرز کی مثالیں دینا بند کریں، اگر اس منطق کو درست سمجھیں تو پھر سلیم ملک کو بورڈ کا چیئرمین اور سلمان بٹ کو کپتان بنا کر آصف اور دانش کنیریا کو بھی دوبارہ کھیلنے کا موقع دینا چاہیے۔

ماضی کے بعض ایسے کرکٹرز جو اب بڑے نیک و پرہیزگار بنے پھرتے ہیں انہی کی وجہ سے عامر جیسے نوجوانوں کو شہ ملی کہ جب یہ اتنے بڑے اسٹارز فکسنگ کے باوجود کھیلتے رہے اور اب بھی ’’ہیرو‘‘ ہیں تو میں بھی کیوں نہ فکسنگ کر کے رقم کما لوں، اب اگر عامر کو لایا گیا تو کل پھر کوئی 19 سال کا لڑکا راتوں رات امیر بننے کے لیے غلط لوگوں کے چنگل میں پڑ جائے گا، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ایک عامر کا کیریئر بچانا ہے یا دیگر کئی لڑکوں کو عامر بننے سے بچانا مناسب ہوگا، یاد رکھیں کسی انفرادی شخصیت سے زیادہ اہمیت ملک کی ہوتی ہے، بڑے بڑے کرکٹرز آئے اور گئے لیکن پاکستانی ٹیم اپنی جگہ موجود ہے،اب بھی اس کے مفاد کا سوچیں، اسی میں ہماری بھلائی ہے۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔