30 نومبر کو کیا ہوگا؟ عوام کی نظریں ڈی چوک پر لگ گئیں

ارشاد انصاری  بدھ 26 نومبر 2014
 30 نومبر کو اگر کہیں شرپسندی کا خدشہ پیدا ہوتا ہے تو اس سے نمٹا جائے گا لیکن تمام ترکوشش کی جائے گی کہ مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔  فوٹو: فائل

30 نومبر کو اگر کہیں شرپسندی کا خدشہ پیدا ہوتا ہے تو اس سے نمٹا جائے گا لیکن تمام ترکوشش کی جائے گی کہ مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف 30 نومبر کو پھر سے اسلام آباد میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے، اس اعلان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے حوالے سے لاہور میں بلاول بھٹو کے بڑے جلسے کی تیاریاں ماند پڑ گئی ہیں۔

البتہ حکومت و تحریک انصاف اپنی اپنی حکمت عملی مرتب کر رہی ہے ۔ پی ٹی آئی 30 نومبر کو فیصلہ کُن جنگ قرار دے رہی ہے اور اس جنگ کو ہر حال میں جیتنے کا عزم رکھتی، جسکی تکمیل کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے قائد دو ٹوک الفاظ میں اعلان بھی کرچکے ہیں کہ اگر30 نومبر کو ریاستی طاقت کا استعمال ہوا تو اس کا مقابلہ کیا جائے گا اس کیلئے تحریک انصاف کی طرف سے عوامی تحریک کو بھی شرکت کی دعوت دی جاچکی ہے۔

تاہم عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری طبیعت کی ناسازی کے باعث شائد اس جوش و جذ بے کے ساتھ تحریک انصاف کی 30 نومبر کی کال پر لبیک نہ کہہ سکیں جس جوش اور جذبے کا مظاہرہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے 14 اگست کو اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہا تھا۔ تاہم طاہر القادری نے اس بارے پارٹی قیادت سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب حکومت بھی 30 نومبر کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی مرتب کر رہی ہے اور حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اطلاعات ہیں کہ 30 نومبر کو بعض تشدد پسند قوتوں کی طرف سے لاشیں گرا کر ملک میں بد امنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے ناکام بنانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔ بعض حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کسی کو بھی لاشوں کی سیاست کا موقع نہ دینے کیلئے پولیس کو غیر مسلح کئے جانے کا امکان ہے۔

پولیس کے پاس صرف چھڑیاں ہونگی یا آنسو گیس کے شیل ہوںگے۔ تاہم رینجرز اور دوسرے امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کے حکام سکیورٹی بیک اپ کیلئے موجود ہوںگے۔ اگر کہیں شرپسندی کا خدشہ پیدا ہوتا ہے تو اس سے نمٹا جائے گا لیکن تمام ترکوشش کی جائے گی کہ مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل نہ ہونے دیا جائے جس کیلئے ابھی سے انتظامیہ کی جانب سے ریڈ زون کو سیل کرنا شروع کردیا گیا ہے اوراگلے دو دنوں میں اسلام آباد کو سیل کئے جانے کا امکان ہے جس سے جڑواں شہروں کی عوام میں بے چینی پھیل رہی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ یہ ایک سیاسی سرگرمی ہے جو کسی بھی جماعت کا بنیادی حق ہے مگر گھیراؤ، جلاؤ اور لوگوں کو پولیس اور امن و امان قائم کرنیوالے اداروں کے ساتھ معرکہ آرائی و تشدد پر اکسانے کی جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ کسی طور بھی سیاست کے زمرے میں نہیں آتیں اور یہی رویہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف کو عوامی مقبولیت تو مل گئی ہے لیکن اس عوامی قوت کو ابھی تک مُنظم سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا اورآج تک تحریک ہی چلی آرہی ہے۔

اس تحریک کے گزشتہ ساڑھے تین ماہ سے حکومت کے خلاف جاری احتجاج کی وجہ سے اہم ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے مفادات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ حکومتی دعوٰی ہے کہ ملکی معیشت کو سات سو ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا ہے جسے حکومت مخالف تسلیم نہیں کرتے تھے مگر اب غیر جانبدار غیرملکی میڈیا بھی موجودہ سیاسی صورتحال کو ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ قرار دے رہا ہے۔

265 ملین پاونڈ کا تعمیراتی منصوبہ اگست کے وسط میں جب عمران خان اورطاہر القادری نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کئے اس وقت سے نہ صرف سست روی کا شکار ہے بلکہ پورے نظام حکومت میں بھی احتجاجی سیاست کی وجہ سے خلل پڑا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے سامنے موجود ان مظاہرین کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی مجروح ہوا ہے۔ اس سیاسی صورتحال کے باعث چین کے صدر سمیت دیگر اہم شخصیات پاکستان کے دورے ملتوی کر چکی ہیں اور اب بھی چین کے سفیر اور امریکہ کے سفیر نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سے ملاقاتیں کی ہیں۔

اگرچہ کہا جارہا ہے کہ ان ملاقاتوں میں ملک کی موجودہ صورتحال اور الیکشن میں دھاندلی بارے آگاہ کیا گیا ہے مگر یہ ایک ایٹمی طاقت کے حامل خود مختار و آزاد ملک کی عوام کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ حالات کو اس نہج تک پہنچنے ہی نہ دے ۔ یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے بہت پہلے حل ہوجانا چاہیے تھا مگرایسا نہیں ہوسکا، باوجود اس کے کہ حکومت دھرنا سیاست کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔ البتہ حکومت پر دباؤ کی وجہ سے اب عوام کو کچھ ریلیف بھی ملنا شروع ہوا ہے۔

گزشتہ ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے اور یکم دسمبر سے مزید پانچ روپے فی لیٹر تک کمی متوقع ہے جبکہ چند روز قبل بجلی کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے تعینات کردہ نئے وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ نے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کیا اوروزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے توانائی سے متعلقہ اجلاس میں وزیراعظم سے کہا کہ حکومتی وژن کے مطابق بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے بجلی کی قیمتوں میں کمی بھی ضروری ہے۔

اجلاس میں موجود وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا۔ شاہد خاقان عباسی چونکہ انجینئر ہیں لہٰذا انہوں نے تکنیکی لحاظ سے بریفنگ دی اور سیکرٹری پانی و بجلی اور ان کی ٹیم کی جانب سے مرتب کردہ جامع حکمت عملی سے اتفاق کیا اور اسی حکمت عملی کے تحت پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی کی گئی اور فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس کو بند کیا گیا۔

اگرچہ اس اقدام سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں ایک گھنٹے کا اضافہ ہوا مگر کم ازکم پندرہ ارب روپے کی بچت ہوئی اور سرکلر ڈیبٹ میں کمی واقع ہوئی۔ مارچ میں ایل این جی کی درآمد سے انرجی مکس میں مزید بہتری آئے گی اور درآمدی ایل این جی بجلی کی پیداوار کیلئے پاور سیکٹر کو دی جائے گی اور اگر اضافی ہوئی تو اس کے بعد دوسرے شعبوں کو فراہم کی جائے گی۔

مگر پاور سیکٹر کو قدرتی گیس میں تبدیل کرکے فراہم کی جانے والی ایل این جی سے بجلی کی پیداواری لاگت میں سو فیصد سے بھی زائد کمی واقع ہوگی اور مہنگے فیول سے 28 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیدا کی جانیوالی بجلی کی لاگت 12 روپے فی یونٹ ہو جائے گی جبکہ اس سے قومی خزانے کو سالانہ 200 ارب روپے سے زائد کی بچت ہوگی اور سرکلر ڈیبٹ سے نجات مل سکے گی۔

مگر یہ اقدام دھرنا سیاست سے پہلے اٹھا لئے جاتے تو شائددھرنا سیاست کو پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ اب تمام حکومتی مشینری متحرک دکھائی دیتی ہے اورملکی زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر تک لے جانے کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر کو مستحکم بنانے کیلئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بین الاقوامی مارکیٹ میں سکوک بانڈز جاری کرنے کیلئے روڈ شوزکی قیادت کر رہے ہیں ۔ اگرچہ سکوک بانڈز کا ہدف پچاس کروڑ ڈالر ہے لیکن اگر سکوک بانڈز کے ذریعے حکومت کو ا یک ارب ڈالر یا اس سے زائد حاصل ہو جاتے ہیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ اس سے پاکستان میں ڈٓالر کی قیمت نیچے لانے میں مدد ملے گی۔

وزیراعظم چین، لندن اور جرمنی سمیت دیگر غیر ملکی دوروں کے بعد سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کیلئے نیپال پہنچ چُکے ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف سارک کانفرنس سے خطاب کریں گے اور خطے میں امن کے قیام، ترقی و خوشحالی کیلئے’’ویژن‘‘ پیش کریں گے۔ نیپال کے وزیراعظم سے ملاقات کے علاوہ ان کی دیگر سربراہان سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں، کانفرنس میں شرکت کے علاوہ وہ نیپال کے سربراہ حکومت کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں شرکت بھی کریں گے۔

وزیر اعظم نواز شریف پاکستان کے واحد سربراہ حکومت ہیں جو سب سے زیادہ (چھٹی دفعہ) سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اگرچہ کھٹمنڈو (نیپال) میں ہونے والی اٹھارویں سارک کانفرنس کا بنیادی نکتہ’’ امن اور خوشحالی‘‘ کیلئے باہمی ملاپ ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ فورم پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے ملاپ کا ذریعہ بن سکے گا یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔