پٹرول بحران ......ذمے دار کون

ایڈیٹوریل  منگل 20 جنوری 2015
پٹرول پمپ مالکان نے مافیا کے ساتھ ملی بھگت کر کے پٹرول بلیک کر کے7 روز میں کروڑوں روپے کما لیے۔  فوٹو:آئی این پی

پٹرول پمپ مالکان نے مافیا کے ساتھ ملی بھگت کر کے پٹرول بلیک کر کے7 روز میں کروڑوں روپے کما لیے۔ فوٹو:آئی این پی

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور سمیت پنجاب بھر میں آٹھویں روز بھی پٹرول کی شدید قلت برقرار رہی، شہری پٹرول کی تلاش میں خوار ہوتے رہے، جب کہ سپلائی میں کمی کی افواہ پر کراچی میں پٹرول پمپوں پر بھی قطاریں لگ گئیں، کئی پمپس بند کیے گئے، لیکن بعدازاں صورتحال معمول پر آگئی۔ اسلام آباد، راولپنڈی اور گردونواح میں پیر کو بھی شہری پٹرول کے حصول کے لیے سرگرداں رہے۔

پٹرول کی قلت کے باعث سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم رہی اور مارکیٹوں میں اشیائے خورونوش کی سپلائی کا عمل بھی متاثر ہوا ہے۔ اقتصادی ماہرین، سیاسی اور شہری حلقوں نے پٹرول بحران کو گڈ گورننس کے فقدان اور بد انتظامی و نااہلی کا افسوسناک واقعہ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی اہم شخصیات پٹرول بحران پر الزامات ، جوابی رد عمل اور وضاحتیں پیش کررہی ہیں اور کوئی بھی اس بحران کی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

عوام اور ملکی معیشت کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ معاشی اور کاروباری استحکام اور عوام کو ملنے والا معاشی ریلیف ہے جس کے لیے عوام کی آنکھیں ترس گئی ہیں۔ اس وقت مناظرے یا نکتہ چینی کا لاحاصل  پنڈورا بکس نہیں کھلنا چاہیے ، حکومت بحران کے ذمے داروں کا فوری تعین کرے اور حقیقت بلا تاخیر عوام کے سامنے لے آئے تاکہ اصل صورت حال سامنے آ سکے۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پٹرول کی قلت کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس لیے انھیں مشکل میں ڈالنے والے کسی ذمے دار کو معاف نہیں کریں گے۔اگلے روز پٹرول بحران سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال ناقابل برداشت ہے اور اس کا ہر صورت میں ازالہ کیا جائے۔  اجلاس کے دوران وزیراعظم کو پٹرول بحران پر بریفنگ دی گئی۔

وزیراعظم نے مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ہدایت کی۔پنجاب بھر میں گزشتہ روز بھی90 فیصد پمپ بند رہے، صرف 10 فیصد پمپوں پر مخصوص اوقات میں سیل جاری رہی اور وہاں گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور پیدل افراد کی کئی کئی میل لمبی قطاریں لگی رہیں۔ خواتین بھی قطاروں میں لگ کر پٹرول کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ پٹرول پمپ مالکان نے مافیا کے ساتھ ملی بھگت کر کے پٹرول بلیک کر کے7 روز میں کروڑوں روپے کما لیے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق خام تیل سے لدے ہوئے دو جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوگئے، ایک جہاز22ہزار میٹرک ٹن پٹرول لے کر آج کراچی پہنچے گا، پنجاب کے لیے پٹرول کی ترسیل بڑھا دی گئی۔

پی ایس او ذرایع نے بتایا کہ پنجاب کو80 لاکھ لیٹر پٹرول سپلائی کررہے ہیں۔ کراچی سے40ہزار ٹن درآمدی پٹرول 500 ٹینکرز کے ذریعے پنجاب بھیجا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پٹرول کا بحران حکومت کے خلاف سازش ہے جب کہ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وہ پٹرول کے موجودہ بحران کی ذمے داری لینے اور استعفے دینے کو تیار ہیں ۔ ادھر ملک میں جاری پٹرول بحران پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث کے لیے تحاریک التوا جمع کرادی گئیں ۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک التواء جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ پٹرول بحران کی ذمے دار پٹرولیم، خزانہ اور پانی و بجلی کی وزارتیں ہیں ۔

ارباب اختیار پٹرول بحران کے اسباب اور اس کے پیچھے سازش پر مبنی محرکات کا ضرور پتا چلائے تاہم بنیادی ٹاسک طرز حکمرانی میں پڑنے والے دراڑ کا فوری ازالہ ہونا چاہیے جب کہ ساتھ ہی پٹرولیم نظام کے اچانک بریک ڈاؤن کے پس پردہ گھناؤنے مقاصد اور اس میں ملوث پٹرول مافیا کو گرفت میں لانے کا ہے ۔ اگر مفاد پرست عناصر پٹرول جیسے منی بحران لاتے رہے تو انتظامی افراتفری سے وہ قوتیں فائدہ اٹھائیں گی جو ملک میں انارکی کا ہولناک منظر نامہ ابھرتے دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔ ان کے مذموم عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونے چاہئیں۔پٹرول کے بحران سے ایک جانب حکومت کی ساکھ متاثرہوئی ہے تو دوسری جانب عوام خوار ہوئے ہیں لیکن یہ بحران کیوں پیدا ہوا اور اس کی ذمے داری کس پرعائد کی جائے اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق پٹرول بحران میں کمی کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں ۔پنجاب کے مختلف شہروں میں اگلے روز بھی پٹرول پمپوں پر قطاریں تو موجود رہیں تاہم یہ قطاریں اتنی طویل نہیں تھیں جتنی دو تین روز پہلے طویل تھیں۔ حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے تین چار روز میں صورت حال مزید بہتر ہو جائے گی تاہم سوچنے والی بات یہ ہے کہ پٹرول کا بحران تو آخر کار ختم ہو جائے لیکن یہ کیوں پیدا ہوا اس کا شاید کبھی پتہ نہ چل سکے۔ وزیرخزانہ نے واضح کر دیا کہ ان کی وزارت کا اس بحران سے کوئی تعلق نہیں ۔

وفاقی وزیر پٹرولیم بھی یہ ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں ۔ایسا شاید پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔بہر حال پٹرول کے بحران سے حکومت سبق بھی سیکھ سکتی ہے۔ وہ اس بحران کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔پنجاب میں سی این جی کی بندش کے باعث بھی پٹرول کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہر روز نئی موٹرسائیکلیں اور کاریں بھی مارکیٹ میں آ رہی ہیں ۔یوں دیکھا جائے تو پٹرول کی طلب میں یومیہ اضافہ ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔