پاکستان نے تلخ یادیں چھوڑ کر امید کا دامن تھام لیا

اسپورٹس ڈیسک / اے ایف پی  جمعرات 5 فروری 2015
یونس، آفریدی، وہاب اور احمدکی میڈیا سیشن میں شرکت متوقع، پیرکو بنگلہ دیش سے وارم اپ میچ ہوگا،شائقین نے کپتان اورآفریدی سے امیدیں باندھ لیں ۔ فوٹو : اے ایف پی

یونس، آفریدی، وہاب اور احمدکی میڈیا سیشن میں شرکت متوقع، پیرکو بنگلہ دیش سے وارم اپ میچ ہوگا،شائقین نے کپتان اورآفریدی سے امیدیں باندھ لیں ۔ فوٹو : اے ایف پی

سڈنی / کراچی: امید کا دامن تھامے پاکستانی ٹیم آسٹریلیا پہنچ گئی، پلیئرز ورلڈ کپ مشن سے قبل ملنے والی ناکامیوں کی تلخ یادیں نیوزی لینڈ چھوڑ آئے، جمعرات سے بھرپور پریکٹس کا سلسلہ شروع ہوگا، اتوار کو کپتان مصباح الحق پریس کانفرنس کریں گے۔

اسی سہ پہر یونس خان، شاہد آفریدی، وہاب ریاض اور احمد شہزاد کی میڈیا سیشن میں شرکت متوقع ہے، پیر کو سڈنی کے اولمپک پارک میں بنگلہ دیش سے وارم اپ میچ ہوگا۔ دوسری جانب شائقین نے مصباح الحق اور شاہد آفریدی سے بڑی توقعات وابستہ کرلیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ میں2 وارم اپ اور اتنے ہی ون ڈے میچز ہارنے کے بعد اپنی اگلی منزل آسٹریلیا پہنچ چکی ہے جہاں پر باقاعدہ پریکٹس سیشنز کا آغاز جمعرات سے ہوگا۔

کیویز کے ہاتھوں ناکامیوں کی داستان کو ان کے ملک میں ہی چھوڑ دیا گیا، امید کا دامن تھامنے کھلاڑی اصل آزمائش یعنی مشن ورلڈ کپ کیلیے نئے سرے سے صف آرا ہونے کو تیار ہیں۔ اتوار کوکپتان مصباح الحق پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے جبکہ اسی روز میڈیا سیشن میں یونس خان، شاہد آفریدی،وہاب ریاض اور احمد شہزادکے شریک ہونے کی توقع ہے۔ پیر کو پاکستان کا پہلا وارم اپ میچ بنگلہ دیش سے سڈنی کے اولمپک پارک اوول میں ہونا ہے، ڈے اینڈ نائٹ مقابلہ پاکستانی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 8 بجے شروع ہوگا۔ دوسرے وارم اپ میچ میں گرین شرٹس سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں بدھ کے روز انگلینڈ سے ٹکرائیںگے، یہ بھی ڈے اینڈ نائٹ مقابلہ ہے۔

ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم اپنے سفر کا آغاز ایڈیلیڈ اوول میں بھارت کے خلاف 15 فروری کو شیڈول میچ سے کرے گی۔ دریں اثنا شائقین کی زیادہ توقعات مصباح الحق اور شاہد آفریدی سے وابستہ ہیں، دونوں اپنے مزاج میں پانی اور آگ کی طرح ہیں، مصباح جتنے پُرسکون آفریدی اتنا ہی جارحانہ مزاج رکھتے ہیں۔ کپتان وکٹ پر سیٹ ہونے میں وقت لیتے اور اس کے بعد کھیلنا شروع کرتے ہیں، 2 بڑے ایونٹس میں شکست کی براہ راست ذمہ داری ان پر ڈالی جاتی ہے۔

انھوں نے2007 کے ورلڈ ٹوئنٹی 20 فائنل میں بھارت کے خلاف کامیابی کی دہلیز پر پہنچ کر غلط شاٹ سے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا تھا۔ اسی طرح 2011 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں سست بیٹنگ سے پاکستانی فتح کے امکان کو موہالی کی پچ میں دفن کیا تھا، مصباح نے 76 بالز پر 56 رنز بنائے تھے۔ حال ہی میں یو اے ای میں سیریز کے دوران ابوظبی میں ٹیکسی چلانے والے کمال خان کا کہنا تھا کہ’’ اگر مصباح میری کیب میں کبھی بیٹھے تو میں اس سے ضرور پوچھوں گا کہ وہ اتنی سست بیٹنگ کیوں کرتے ہیں، یہاں پر انھیں اس طرح بے لطف بیٹنگ کی وجہ سے پسند نہیں کیا جاتا جبکہ آفریدی اپنے جارحانہ چوکوں چھکوں کی وجہ سے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں‘‘۔

پاکستان کے سابق کپتان رمیز راجہ کہتے ہیں کہ ’’ ایک بار میں نے آفریدی سے پچ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم کہ وکٹ کیسی ہے مگر گیند میرے بیٹ پر آرہی اور میں اس سے لطف اندوز ہورہا ہوں‘‘۔ ایک اور سابق کپتان محمد یوسف کا کہنا ہے کہ بطور قائد مصباح بہت زیادہ ہی دفاعی انداز اختیار کرلیتے ہیں جبکہ شاہد آفریدی کا انداز کچھ زیادہ ہی جارحانہ ہے۔ شائقین کو امید ہے کہ الگ الگ مزاج کے باوجود مشترکہ طور پر دونوں ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔