محبت کا ڈیجیٹل دور

محمد عثمان جامعی  اتوار 8 فروری 2015
ماضی میں پہلے یہ وعدے ہوتے تھے کہ ’’پیلے میری سیٹنگ ہوجائے فر تیری وی کرادوں گا‘‘، مگر اب تو دور ڈیجیٹیل محبت کا ہوگیا ہے، 26، 25 حسینوں کو ایک ہی وقت میں ’’ہائے‘‘ کا پیغام بھیجا، جہاں جہاں سے جواب آیا بس وہاں وہاں محبت شروع۔ فوٹو: فائل

ماضی میں پہلے یہ وعدے ہوتے تھے کہ ’’پیلے میری سیٹنگ ہوجائے فر تیری وی کرادوں گا‘‘، مگر اب تو دور ڈیجیٹیل محبت کا ہوگیا ہے، 26، 25 حسینوں کو ایک ہی وقت میں ’’ہائے‘‘ کا پیغام بھیجا، جہاں جہاں سے جواب آیا بس وہاں وہاں محبت شروع۔ فوٹو: فائل

کبھی میرتقی میر چاند میں اپنی محبوبہ کا چہرہ دیکھتے تھے، پھر وہ وقت آیا کہ نیل آرم اسٹرانگ کی محبوبہ نے اپنا سالم محبوب چاند پر چہل قدمی کرتے دیکھا۔ یہاں ایک وضاحت کردیں کہ جنابِ میر سے حُسن ظن رکھتے ہوئے ہم نے سمجھ لیا کہ وہ دمکتے مہتاب میں ’’حُسن زن‘‘ دیکھتے ہوں گے، ورنہ شعری اور تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ وہ صنفی امتیاز کے اُس خوف ناک دور میں بسر کرتے ہوئے بھی جنسی امتیاز کے قائل نہیں تھے، جس طرح صابروشاکر شریف آدمی پڑوسن خالہ سے اپنی بیوی کے اُمید سے ہونے کی خبر سُن کر کہتا ہے،’’لڑکا ہو یا لڑکی، سب اﷲ کی دین ہے‘‘ اسی طرح میرصاحب کا بھی ماننا تھا۔۔۔۔ لڑکا ہو یا لڑکی۔۔۔۔۔۔

خیر ہمارا موضوع میر صاحب نہیں، کہنا ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ بدلتے زمانے کے ساتھ محبت کی روایت میں کتنی تبدیلی آگئی۔ ایک دور تھا کہ محبوبہ سے دو باتیں کرنے کے لیے محلے کے اندھیرے کونے کھدرے، ویران گلیاں اور سنسان نکڑ ڈھونڈھے جاتے تھے اور وہاں بیٹھ کر بس دو باتیں ہی کی جاتی تھیں۔ ایک بار دیدار کے لیے کبھی کڑی دھوپ میں جب چیل انڈا چھوڑ دے اور سخت گیر اماں بٹیا چھوڑدیِں، گلی کا پھیرا لگایا جاتا، کبھی رات کے ویران پہر میں محبوبہ کے محلے کے کُتوں کے منہ لگا جاتا۔ ان وارداتوں کے دوران محبوبہ کے باپ بھائیوں سے کہیں زیادہ خطرہ پرچون والے خالو، معشوق کے پڑوسی اور محلے کے لڑکوں کا ہوتا جو علاقائی تعصب کی بنا پر دوسرے محلے کے باسی کے اپنی گلی کی لڑکی پر حق جتانے کو اپنی حق تلفی سمجھتے تھے۔ اسی لیے تعصب بُری چیز ہے۔

خط خصوصاً پیار کا پہلا خط لکھنے کے لیے کسی تجربہ کار عاشق کی مدد لی جاتی، جسے فلمی مکالمے اور بسوں پر درج اور ڈائجسٹوں میں ’’آپ کی پسند‘‘ کے زیرعنوان شائع ہونے والے شعر رٹے ہوتے، جن میں سے اپنے وقت کا مقبول ترین شعر تھا؎

شیشی بھری گلاب کی پتھر سے توڑ دوں
خط کا جواب نہ ملے، خط لکھنا چھوڑدوں

اس خط کے عوض لکھنے یا لکھنے میں مدد دینے والے کو سگریٹ یا پان کا ہدیہ کیا جاتا۔ بعض ناہنجار تو ’’پیلے میری سیٹنگ ہوجائے فر تیری وی کرادوں گا‘‘ کے وعدے پر کام نکلوالیتے تھے۔ پہلے کاپی کے کاغذ پر خط رف لکھا جاتا، پھر کہیں سے گلابی کاغذ کا اہتمام کرکے اسے کسی سستے سینٹ کی ’’ناک پھاڑ‘‘ خوش بو سے بسایا جاتا، کونے پر ڈرائنگ کی پوری صلاحیت آزما کر پھول اور خط کے آخر میں پان کا پتا، جسے عرف عام میں دل سمجھا اور قرار دیا جاتا ہے، بناکر اس میں تیر گھسایا جاتا، اور سرخ روشنائی سے خون نکالا جاتا۔ لیجیے صاحب! محبت نامہ تحریر کرنے کا مرحلہ مکمل ہوا، اب اصل مشکل یہ ہے کہ اسے محبوبہ کے ہاتھوں تک پہنچایا کیسے جائے۔ یہ مرحلہ کسی دوست کی محبوبہ، اپنی محبوبہ کی کسی باؤلی سی سہیلی یا کبھی کبھی تو خود محبوبہ کے بھولے بھالے چھوٹے بھائی کے ذریعے طے ہوتا۔ البتہ یہ دیکھ لیا جاتا تھا کہ بھائی اتنا بھی بھولا نہ ہو کہ پریم پتر باجی کے بجائے امی کو پہنچادے۔ یہ اس عمر کا بھائی ہوتا تھا جس میں اس وقت تک دیگر مردانہ صلاحیتوں کے ساتھ غیرت بھی نمودار نہ ہوئی ہو، اور بس میٹھی چھالیہ کی ایک پُڑیا یا دو ٹافیاں لے کر پیغام رساں بن جائے۔

مگر بھیا اتنی رازداری اور احتیاط کے باوجود پچھلی گلی کے ببن پنواڑی، صبح سے رات تک اپنے دروازے پر پردے کی طرح لٹکتی خالہ حمیدہ اور محلے کی ہر عمر کی زندہ عورت کو امید بھری نظروں سے تاڑنے کے بعد عورت ذات سے مایوس ہوکر پارسا بن جانے والے چچا لُڈن، پر اس عشق کے پردے اٹھ جاتے اور وہ سرگوشیوں میں بتاتے پھرتے کہ ’’اِس لمڈیا کا وِس لمڈے سے چکر چل ریا ہے۔‘‘

یہ زمانہ پرانا ہوا۔ اب ڈیجیٹل محبت کا دور ہے۔ فیس بُک پر بیس پچیس حسینوں کو ایک ہی وقت میں ’’ہائے‘‘ کا پیغام بھیجا، جہاں جہاں سے جواب آیا وہاں وہاں محبت شروع۔ بیتے زمانے میں معشوق کھڑکی، دروازے سے جھلکیاں دکھاتی تھی، چناں چہ عقد میں آنے تک اپنے پورے وجود کا آٹھ دس فی صد ہی سمجھ میں آتی تھی۔ اس مجبوری کے باعث محبوبہ کی مماثلت کسی اداکارہ میں تلاش کرکے کام چلانا پڑتا تھا۔ اب تو سوشل ویب سائٹس پر محبوبہ پوری تفصیلات اور جزیات کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ دور حاضر میں محبت نامہ لکھنے کے لیے کسی کے تجربے کو سہارا بنانے کی ضرورت نہیں، موبائل کمپنی کی فراہم کردہ میسیجز کی سروسز موجود ہیں ناں۔

ایک معشوق کے غم میں گھلنے، کُڑھنے، صحرا کو نکل جانے اور بھینس کے بجائے پہاڑ سے دودھ نکالنے کا زمانہ لد گیا۔ اب موبائل فون کے ان باکس یا فیس بک کے میسیج باکس میں ایک حسینہ کا ’’بائے‘‘ آتا ہے تو کسی دوسری مہ جبیں کا ’’ہائے‘‘ بھی ساتھ ہی وارد ہوجاتا ہے۔

تو بس یہ ثابت ہوا کہ ٹیکنالوجی زندگی کے دیگر شعبوں کے لیے ہی آسانیاں اور سہولتیں نہیں لائی، اس نے محبتوں کو بھی سہل اور آسان کردیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔