قلم کے ساتھ پستول بھی سنبھالیں۔۔۔؟

رضوان طاہر مبین  پير 23 فروری 2015
خواتین اساتذہ اور طالبات کو اسلحہ چلانے کی تربیت پر خواتین اساتذہ سے خصوصی گفتگو۔ فوٹو: فائل

خواتین اساتذہ اور طالبات کو اسلحہ چلانے کی تربیت پر خواتین اساتذہ سے خصوصی گفتگو۔ فوٹو: فائل

الفاظ کمزور ہوں گے، تو آواز اونچی ہوگی۔۔۔

دلیل بودی ہو گی، تو ہاتھا پائی کی نوبت آئے گی۔۔۔

جو گفتار سے شکست کھا جائے گا، تو دست وگریباں ہو گا۔۔۔

مکالمے کی بازی مات کھا کے جبر کا راستہ لیا جائے گا۔۔۔

’ہتھیار والے‘ کی بات ہلکی سمجھی جاتی ہے، تب ہی تو وہ بزور شمشیر اپنی طاقت کا سکہ جمانا چاہتا ہے۔۔۔ ویسے کیا ہی بات تھی نا اگر دنیا میں عملاً ایسا ہوتا کہ لوگ اپنی بات کے لیے دلائل اکٹھے کرتے، مکالمے کے ذریعے اپنا دفاع کرتے۔۔۔ سارے جھگڑے اور جنگیں ہی گفت وشنید کی بیٹھکوں میں برپا ہوتیں، کسی کا خون ہوتا اور نہ ہی کوئی گھائل۔۔۔ مگر کہاں۔۔۔! جب برداشت سے عاری عفریت کے منہ کو لہو لگ جائے، تو شاید نظر ثانی کی ضرورت پڑ جاتی ہے، اور ایسا ہی محسوس ہوا جب 16 دسمبر 2014ء کو شیطان صفت درندوں نے پشاور کی مادر علمی کو معصوم بچوں کے لہو سے رنگ ڈالا۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے 140 سے زائد طلبا کی زندگیاں بجھ گئیں۔۔۔ ’ہتیارے‘ تربیت یافتہ جدید اسلحوں سے لیس تھے۔۔۔ اور اساتذہ اور طلبا کا بھلا خوں ریزی اور مارکٹائی سے کیا واسطہ۔۔۔ سو، قاتل اپنے مذموم مقاصد میں کام یاب ہوئے۔۔۔ کتنی ہی ننھی کلیاں کچلی گئیں کہ شاید دنیا کے وحشی ترین درندے نے بھی پناہ مانگی ہوگی۔۔۔

سانحے کے بعد ملک بھر کے اسکولوں کے لیے حفاظتی انتظامات سخت کیے گئے۔۔۔ صلاح دی گئی کہ خدانخواستہ آیندہ ایسی کسی کٹھن گھڑی کے مقابلے کے لیے طلبا کو بھی تربیت دی جائے۔۔۔ چناں چہ کراچی میں بھی باقاعدہ دفاع کے لیے تربیت دینے کا آغاز ہوا، اور 18 فروری کو 42 اساتذہ اور 18 طالبات کو رزاق آباد پولیس اسٹیشن میں ابتدائی طبی امداد (فرسٹ ایڈ) سے لے کر مختلف ہتھیار چلانے تک کی عملی تربیت دی گئی۔ اس سے قبل پشاور میں بھی خواتین اساتذہ کو پستول چلانے کی عملی تربیت دینے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

ایک طرف ہم آئے دن دہشت گردانہ واقعات سے نبرد آزما ہیں۔۔۔ دہشت گرد گھروں، بازاروں، عبادت گاہوں سے لے کر نماز جنازہ تک میں اپنی آتشِ انتقام ٹھنڈا کرنے سے نہیں چُوکا۔۔۔ سانحۂ پشاور نے صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہی نہیں، بلکہ عام لوگوں کو بھی للکارا۔ اب جان ومال کے تحفظ کے لیے از سرنو حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے، اسی کے لیے سوچا گیا کہ اساتذہ اور طلبا کو بھی اسلحہ چلانے کی تربیت دی جائے۔۔۔ یہ نہایت سخت ترین فیصلہ ہے کہ جب مستقبل کے معماروں کو ہمیں پستول چلانا بھی سکھانا پڑ جائے۔۔۔ اہل علم تو مادر علمی کو کسی عبادت گاہ کی طرح مقدس گردانتے ہیں۔۔۔ جہاں شائستگی، اخلاق، تہذیب، آداب، دلیل و مکالمے کا دور دورہ ہونا چاہیے۔۔۔ اسلحے کی بات تو چھوڑیے، بلند آواز سے بات کرنا ہی کسی تعلیمی ادارے کا تقدس ملیا میٹ کرنے کو کافی ہے۔۔۔

استاد الاساتذہ ڈاکٹر طاہر مسعود (صدر شعبۂ ٔاِبلاغ عامہ، جامعہ کراچی) بتاتے ہیں کہ ایک مشرقی پاکستان کی ڈھاکا یونیورسٹی بھی تھی، جہاں محض پولیس کے اندر آنے پر وہاں کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمود حسین استعفا دے دیتے ہیں۔۔۔ کہ مادر علمی کی حرمت پامال ہوئی ہے! کیا زمانہ تھا کہ جامعہ کا وائس چانسلر یہ سوال کرتا ہے کہ ایک جامعہ میں پولیس کا کیا کام۔۔۔! وقت کا پہیا گھومتا ہے۔۔۔ لہو کے پیاسے شہر قائد پر اپنے پنجے اس طرح گاڑتے ہیں کہ 1989ء میں یہاں رینجرز کی آمد ہی جامعہ کراچی میں اُن کے بلاوے سے ہوتی ہے، وہ دن ہے اور آج کا دن، اس شہر اور جامعہ کراچی سے رینجرز واپس نہیں ہوسکی!

یہ الگ بات ہے کہ حالات بدستور خرابی کی طرف ہی گام زن ہیں۔ اب نئی صورت حال یہ ہے کہ اساتذہ اور طلبا کو باقاعدہ اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کی نوبت آگئی ہے۔ کیا واقعی یہ مسئلے کا حل ہے؟ کیا ضروری ہے کہ سماج کا بلند ترین رتبہ بھی اب قلم کے ساتھ ساتھ اسلحے سے رجوع کرے؟ کیا کسی سماج اور ریاست کے لیے یہ فیصلہ اتنا آسان ہے؟ کہیں یہ مختصر المدتی (Short Term) اور عاجلانہ فیصلہ تو نہیں؟ اس اقدام سے ہمارے مستقبل اور ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

خواتین اساتذہ اس حوالے سے کیاکہتی ہیں۔ان کی بات چیت قارئین کی نذر ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/Teacher-weapon2.jpg

٭ڈاکٹر رفیعہ تاج (سابق صدر، شعبۂ اِبلاغ عامہ، جامعہ کراچی)

ہم حالت جنگ میں ہیں، اس لیے خواتین اساتذہ اور طالبات ہی نہیں، بلکہ سب کے لیے شہری دفاع کی مکمل تربیت ضروری ہے، ساتھ ہی ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دی جانی چاہیے، تاکہ وقت پڑنے پر ہم اپنا دفاع کر سکیں، لیکن اسلحے کے حوالے سے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر پہلے کوئی واضح حکمت عملی طے کرنا ہو گی، کیوں کہ ایسے ہی تو طالبات کو اسلحہ نہیں تھمایا جا سکتا۔ طے کرنا ہوگا کہ اسکولوں میں اسلحہ کیسے رکھا جائے گا اور کس طرح کی نوبت آنے پر برتا جائے گا۔ اس کے لیے بھرپور تربیت دی جائے کہ انہیں کب، کہاں اور کیسے حالات میں استعمال کرنا ہے۔ صرف اسلحہ چلانے کی نہیں، بلکہ مکمل طور پر ابتدائی طبی امداد اور ایسے حالات میں بہتر حکمت عملی اختیار کرنے کی بھی تربیت دی جانا ضروری ہے۔

٭ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ (ڈائریکٹر ویمن اسٹڈیز، جامعہ کراچی)

اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن جب ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ نہیں دے پا رہی، تو پھر یہی حل تجویز کیا جاتا ہے کہ لوگ اب خود ہی اپنی جان کی حفاظت کریں اور اسلحہ چلانے کی تربیت بھی اسی کا ایک ذریعہ ہے۔ ریاستی اداروں کو دیکھنا ہوگا کہ ہم پر ایسے حالات کیوں آگئے ہیں، 1997ء کے زمانے تک بھی، میں اکیلی گاڑی چلاتے ہوئے بلاخوف کراچی سے ٹھٹھہ چلی جاتی تھی، جب کہ آج اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے کہ ہم اساتذہ اور طلبا کو مسلح کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

طلبا کو اسلحہ دینے سے متعلق بہت سوچنا پڑے گا، اگر انہیں اسلحہ چلانے کی تربیت یا اسلحہ دیا جا رہا ہے، تو یہ ممکن بنایا جائے کہ وہ کسی صورت، اس کا غلط استعمال نہ کریں۔ اگر یہ طریقہ ناگزیر ہی سمجھ لیا گیا ہے، تو میں سمجھتی ہوں کہ صرف اساتذہ کو دینا چاہیے، مگر پھر وہی بات آجاتی ہے کہ یہ حل نہیں ہے۔ دہشت گرد پوری تیاری کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے، بُلٹ پروف لباس اور خود کُش جیکٹ کے سامنے خواتین اساتذہ اور طالبات کس طرح مقابلہ کر پائیں گی؟ پھر کیا ہم کلاس لے رہے ہوں، تو اپنے پاس کارتوس بھری پستول لے کر بیٹھیں؟

٭ڈاکٹر فرح اقبال (استاد، شعبۂ نفسیات، جامعہ کراچی)

اسکول میں تو کتابیں ہوتی ہیں، وہاں ہتھیار رکھنا مسائل کا حل نہیں، بلکہ اندیشہ ہے کہ یہ طریقہ کار مسائل میں مزید اضافے کا سبب ہوگا۔ اسکول کے بڑے بچوں کی عمر بھی ناپختہ ہی ہوتی ہے، اگر ہم انہیں اسلحہ برتنا سکھا دیں گے، تو خودبخود ان کی نفسیات بدل جائے گی۔ جب وہ پستول چلانا سیکھ جائے گا، تو پھر اس کے رویوں اور عادات میں تغیر رونما ہوگا اور خدشہ ہے کہ پھر وہ جہاں برداشت اور درگزر سے کام لیتا تھا، وہاں بھی اپنی بات منوانے کے لیے زور آزمائی کرنے لگے۔ ہم چاہے صرف تربیت دیں اور اسلحہ نہ دیں، تب بھی پستول چلانے کے تجربے سے اس کے لیے ہتھیار اجنبی نہیں رہیں گے اور اس کا خوف نکل جائے گا، پھر وہ کہیں سے بھی اس کا بندوبست کر کے اسے استعمال کر سکتا ہے۔ خود کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

پھر جس طرح ہم ہر بچے کے رجحان مختلف شعبوں میں دیکھتے ہیں، اسی طرح ہر بچہ ہتھیار چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔۔۔ اس کے لیے تو بچے کے جذبات، احساسات اور رویوں کی کڑی جانچ اور چھان پھٹک کے بعد ہی تعین ہو سکتا ہے آیا اس کے اندر اتنی برداشت، سہار اور قوت فیصلہ موجود ہے کہ وہ اس بات کا تعین کر سکے کہ اسے کب، کہاں اور کس طرح ہتھیار استعمال کرنا ہے؟ الغرض یہ نہایت الجھا ہوا گمبھیر معاملہ ہے۔ آج اگر ہم نے خود ہی اپنے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانے ہیں، تو پھر تو واضح ہے کہ ہم دوبارہ پتھر کے اس تاریک دور کی طرف جا رہے ہیں، جہاں ہر آدمی اپنے دفاع کا خود ذمہ دار تھا۔

آج کے مہذب دور میں ہمیں ’’اسلحے سے پاک معاشرہ‘‘ قائم کرنا چاہیے۔ اُس تاریک معاشرے میں اور آج کے معاشرے میں یہی فرق ہے کہ وہاں انسان اپنے لیے سارے کام خود ہی کرتا تھا، جب کہ یہاں تمام ذمہ داریاں تقسیم ہیں۔ ہمارے تحفظ کی ذمہ داری اُن اداروں کی ہے جنہوں نے اس کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ یہ عام شہریوں کا کام نہیں ہے کہ وہ ہتھیار لے کر پھریں۔ البتہ سیلف ڈیفنس سکھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔ کسی بھی نا خوش گوار صورت حال میں بغیر ہتھیار کے اپنی حفاظت سکھائی جانی چاہیے۔۔۔ یعنی وہ گُر سیکھیں، جس سے محض اپنی حفاظت مقصود ہو گی، جب کہ بندوق کا استعمال تو کسی بے گناہ کی بھی جان لینے کا باعث بن سکتا ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/Teacher-weapon11.jpg

٭شمیمہ کامل (سینئر ٹیچر، جینکس سیکینڈری اسکول)

یہ نہایت غیر مناسب طریقہ ہے۔ اساتذہ اور طلبا قلم کے لیے ہوتے ہیں، نہ کہ بندوق کے لیے۔۔۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی کسی ہنگامی صورت حال میں انہیں اپنا تحفظ کرنا سکھائیں۔ اسکولوں کو جنگ کا محاذ نہ سمجھیں۔۔۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے اسکولوں میں دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا ہے یا تعلیم دینی ہے؟ اس طریقے سے براہ راست تعلیمی کارکردگی متاثر ہوگی اور ان کے وقت کا حرج ہوگا۔

ویسے بھی اسکول کے بچے اور اساتذہ تربیت یافتہ دہشت گردوں سے کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہم اس جہالت کے خلاف تعلیم کے محاذ سے روشنیاں پھیلانے کا ہی فریضہ اور زیادہ وسیع پیمانے پر کریں۔ اگر اسکول بھی ہتھیاروں میں لگ گئے تو میرے خیال میں یہ تو دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کی کام یابی ہے کہ ہم بھی اُن کی طرح (دفاع کے نام پر ہی سہی) ہتھیار سنبھالنے میں لگ جائیں۔

٭شگفتہ احمد (ایڈمنسٹریٹر، اسکول برائے جمعیت ایجوکیشنل بورڈ)

اپنے دفاع کے لیے تیاری مثبت سوچ ہے۔ تاہم اسے صرف اسکولوں سے منسلک نہ کیا جائے۔ ایک عورت اور لڑکی اسکول سے باہر بھی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس لیے سب ہی کو دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کی تربیت دی جائے۔ دوسری طرف اسلحہ چلانے کی تربیت دینے سے عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے، اسکولوں میں ایسی بات ہونے سے تعلیم کی طرف سے توجہ ہٹ رہی ہے۔ اسکولوں میں تو چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں۔ وہ کسی طرح بھی اسلحے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس کا بہتر اور مناسب حل یہ ہے کہ ریاست ہمارے اردگردکے ماحول کو محفوظ بنائے۔۔۔ اسکولوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستقبل کے معماروں کے اچھے برے کے تصورکو مضبوط کریں۔ اسلحہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔

٭مسز زیبا اسرار (ہیڈمسٹریس، دی ملینئم اکیڈمی)

18 برس کی عمر میں کوئی فرد ایک مکمل شہری بنتا ہے یا سرکاری زبان میں بالغ کہلاتا ہے اور تب ہی وہ کسی اسلحہ لائسنس کا اہل قرار پاتا ہے۔ ایسے میں یہ کیسی سوچ ہے کہ اسکول کے بچے جو اگر میٹرک میں بھی ہوں، تو عموماً 16 سال تک کے ہوتے ہیں۔۔۔ ہم پستول چلانے کی مشق کرائیں۔ وہ بھی ایسے معاشرے میں جہاں پہلے ہی اسلحے کی فراوانی ہے۔۔۔ یہ تو ہمارے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے سے ایسے ناسوروں کو نکال باہر کریں، ہر چیز کا حل اسلحہ نہیں ہے۔ اسکولوں پر حملوں کے خطرات کے پیش نظر طلبا کو تربیت دی جائے کہ خدانخواستہ ایسی کسی مشکل حالت میں ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ والدین کو بھی بچوں کو ایسی تربیت دیے جانے پر سخت اعتراضات ہو سکتے ہیں۔

قصہ ’’این سی سی‘‘ کا۔۔۔

خواتین اساتذہ اور طالبات کی ہتھیاروں سے نبردآزما ہونے کے ذکر پر تذکرہ ہوا ماضی کے نیشنل کیڈٹ کورس (NCC) کا۔ ڈاکٹر رفیعہ تاج نے بتایا کہ ماضی میں کالج کی طالبات کو باقاعدہ اس کی تربیت کرائی جاتی تھی۔ سیلف ڈیفنس کے بھی نمبر دیے جاتے تھے۔ میڈم شگفتہ احمد نے بھی اس کی افادیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے طالبات کو اپنے تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔

قلم کا محاذ کمزور نہ پڑے! ڈاکٹر رفیعہ

’’اساتذہ اور طالبات کو اسلحہ کی تربیت دیے جانے سے یہ مقصد نہیں لینا چاہیے کہ قلم کے شہ سوار اپنے بنیادی ہتھیار سے غفلت برتیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن ہم پر جس جس ذریعے سے حملہ آور ہے، ہم اُس، اُس سطح پر خود کو تیار رکھیں۔ ہمیں قلم کے محاذ پر بھی اُن سے لڑائی کرنی ہے اور کمزور نہیں پڑنا۔ موجودہ حالت کے تحت ہمیں دوسرے محاذ پر اترنا پڑ رہا ہے، تو وہ اپنی جگہ مگر قلم کی جنگ اپنی جگہ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔