بڑے شکار کا عادی آئرلینڈ بمقابلہ بلند حوصلہ پاکستان

فہد کیہر  اتوار 15 مارچ 2015
آئرلینڈ کے خلاف مقابلے میں بلے بازوں کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ بڑی اننگز کھیل کر ثابت کریں کہ پاکستان اب واقعی فتوحات کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

آئرلینڈ کے خلاف مقابلے میں بلے بازوں کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ بڑی اننگز کھیل کر ثابت کریں کہ پاکستان اب واقعی فتوحات کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

اگر پاکستان کرکٹ کے بدترین ایّام کی فہرست مرتب کی جائے تو شاید 17 مارچ 2007ء کا دن منحوس ترین ثابت ہوگا۔ اسی روز ’’سینٹ پیٹرکس ڈے‘‘ پر آئرلینڈ نے پاکستان کو شکست دے کر عالمی کپ سے باہر کیا تھا، اور’’مرے ہوئے کو سو درّے‘‘  کہ کوچ باب وولمر اس صدمے کو برداشت نہ کرسکے اور چل بسے۔ یوں ایک نوآموز ٹیم کے ہاتھوں قومی کرکٹ تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہوا اور اب 8 سال گزرنے کے بعد عالمی کپ 2015ء میں پاکستان کو داغ مٹانے کا موقع ملا ہے۔

پاکستان عالمی کپ 2007ء میں کنگسٹن، جمیکا میں ہونے والے مقابلے میں آئرلینڈ کے gخلاف صرف 132 رنز پر ڈھیر ہوا تھا اور پھر 3 وکٹوں سے ایسی شکست کھائی، جس کے قومی کرکٹ کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ چند کھلاڑیوں کے بین الاقوامی کیریئر کا خاتمہ ہوگیا، کئی دوبارہ سنبھل نہ پائے اور یہ بات ذہن سے اس طرح چپکی ہوئی ہے کہ اب جبکہ 8 سال بعد پاکستان کو ایک مرتبہ پھر وہی معرکہ درپیش ہے، تو سینئر بلے باز یونس خان کہتے ہیں کہ ہمیں باب وولمر کے لیے کچھ کر دکھانا ہوگا۔

عالمی کپ 2015ء کے لیے جب شیڈول کا اعلان ہوا تھا تو دیدۂ بینا رکھنے والی نگاہوں کو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ گروپ مرحلے کے آخری دن پاکستان اور آئرلینڈ کا مقابلہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ کیونکہ آئرلینڈ کی صلاحیتوں سے سبھی اچھی طرح واقف تھے، پھر اپنے پہلے ہی مقابلے میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر آئرش دستے نے ثابت بھی کیا کہ وہ ’’بڑے شکار‘‘ کھیلنے کا عادی ہے۔ ویسے اسی نتیجے کی وجہ سے عالمی کپ کا پول بی ’’گروپ آف ڈیتھ‘‘ بنا، جس کا توازن آئرلینڈ کی وجہ سے اس بری طرح بگڑا ہے کہ جب تمام میچز ختم ہوجائیں گے، تبھی صورتحال کچھ واضح ہوگی۔ پول  ’اے‘  میں تو ابھی سے واضح ہے کہ کون سی ٹیم کہاں، کب اور کون سا کوارٹر فائنل کھیلے گی لیکن  ’بی‘  میں پاک-آئرلینڈ مقابلے کے بعد کچھ دھند چھٹے گی۔

ایڈیلیڈ کے جس میدان پر پاکستان کو عالمی کپ 2015ء کے پہلے مقابلے میں روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی، وہیں اتوار کو اسے آئرلینڈ کا سامنا کرنا ہے۔ جیت کوارٹر فائنل میں پہنچائے گی اور شکست عالمی کپ کی دوڑ سے باہر بھی کرسکتی ہے۔ صورتحال ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ والی تو نہیں ہے، کیونکہ شکست کی صورت میں بھی معاملہ نیٹ رن ریٹ پر جائے گا۔ لیکن کیا پاکستان اس اہم مرحلے پر آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست سہہ پائے گا؟  اس کا جواب ہے’’ہر گز نہیں‘‘!

اگر عالمی کپ میں آئرلینڈ کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو وہ ملی جلی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف 300 رنز سے زیادہ کا ہدف باآسانی عبور کرنے کے بعد تو ایسا لگتا تھا کہ آئرلینڈ لوہے کا چنا ثابت ہوگا لیکن متحدہ عرب امارات اور زمبابوے کے خلاف مقابلوں میں سخت مشکلات، جنوبی افریقہ اور بھارت کے ہاتھوں کراری شکستوں نے ظاہر کردیا ہے کہ آئرش دیوار میں دراڑیں موجود ہیں، جنہیں زبردست دھکا لگانے کی ضرورت ہے۔

ویسے پاکستان اور آئرلینڈ کی اب تک کی کارکردگی پر کسی منچلے نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ اگر آئرلینڈ کے بلے بازوں اور پاکستان کے باؤلرز پر مشتمل ٹیم کو ورلڈ کپ میں کھلایا جائے تو بہت اچھے نتائج دے گی۔ یہ لطیفہ پاکستان کی بیٹنگ لائن کے لیے تازیانے سے کم نہیں ہے، جو افغانستان کے بعد عالمی کپ میں واحد ٹیم ہے جس کے کسی بلے باز نے ابھی تک سنچری نہیں بنائی۔ مزید اعدادوشمار بھی بلے باز کی حقیقت آشکار کرنے کے لیے کافی ہیں، جیسا کہ ٹیم صرف ایک بار 300 رنز کا ہندسہ عبور کر پائی ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف شاندار کامیابی بھی محض گیندبازوں کی مرہون منت تھی جنہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف صرف 222 رنز کا کامیابی سے دفاع کیا۔

اس لیے آئرلینڈ کے خلاف مقابلے میں پاکستانی بلے بازوں کے پاس آخری اور بہترین موقع ہے کہ وہ بڑی اننگز کھیلنے کے لیے جائیں اور ثابت کریں کہ پاکستان اب واقعی فتوحات کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ ویسے اس بات کے اعلان کے لیے ایڈیلیڈ سے بہتر کوئی مقام ہو نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں کوارٹر فائنل تک رسائی پانے کی صورت میں پاکستان کھیلے گا۔ اس لیے جارحانہ کھیل پیش کرنے کی ضرورت ہے، بالکل ویسا ہی کھیل جیسا کہ جنوبی افریقہ کے خلاف سرفراز احمد نے پیش کیا تھا۔ مڈل آرڈر میں عمر اکمل اور دیگر بلے بازوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور یہ بات سمجھنا ہوگی کہ 30 سے 40 رنز کی جدید کرکٹ میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انہیں لمبی باری کھیلنا ہوگی اور مصباح الحق کے ساتھ وکٹ پر جمنا ہوگا۔ فی الوقت تو حالت یہ ہے کہ جس روز مصباح نہیں چلتے اس روز ٹیم کی وہ درگت بنتی ہے جو ویسٹ انڈیز کے خلاف مقابلے میں دیکھی جاچکی ہے، جہاں پاکستان صرف 160 رنز پر ڈھیر ہوا۔

پاکستان کے لیے یہی وقت ہے گزشتہ مقابلے کی کارکردگی کو پس پشت ڈالنے کا، ویسٹ انڈیز کے خلاف اس شکست کو بھلانا ہوگا اور ساتھ ہی جنوبی افریقہ کے ساتھ مقابلے میں ملنے والی جیت کو بھی ذہن سے مٹانا ہوگا۔ بالکل تازہ اور نئے ذہن اور بھرپور کھیل پیش کرنے کے ارادے کے ساتھ میدان میں اتریں اور اگلے مرحلے میں جگہ پائیں۔ لگاتار چوتھا میچ جیت کر پاکستان کے کھلاڑیوں کے حوصلے اتنے بلند ہوں گے کہ وہ کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دینے کے لیے بھی کافی ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

فہد کیہر

فہد کیہر

کرکٹ کے کروڑوں پاکستانی دیوانوں میں سے ایک، اعزاز یافتہ بلاگر اور کرکٹ پر اولین پاکستانی بلاگ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ آپ سے ٹوئٹر پر @fkehar کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔