اس فعل کو اسلام کے ساتھ نہ جوڑو

محمد نعیم  اتوار 15 مارچ 2015
دہشت گرد پاکستان کو دنیا کی نظر میں ایک دہشت گرد اور اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کرکے کون سی خدمت کررہے ہیں؟ فوٹو: اے اپف پی

دہشت گرد پاکستان کو دنیا کی نظر میں ایک دہشت گرد اور اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کرکے کون سی خدمت کررہے ہیں؟ فوٹو: اے اپف پی

لاہور یوحنا آباد چرچ پر حملوں کی خبریں پڑھ اور دیکھ کر کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک معروف کالم نگارجو لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ دین کا علم بھی رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’رویے میرے حضور کے‘‘ میں پڑھے گئے اقتباسات میرے ذہن میں گردش کرنے لگ گئے۔

ویسے تو اس کتاب میں متعدد جگہ پرغیر مسلموں سے حسن سلوک کی جھلکیاں موجود ہیں لیکن اسلام میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے انہوں نے ایک تفصیلی باب باندھا ہے۔ جس کا عنوان انہوں نے ’’اقلیت نہیں ذمی‘‘ لکھا ہے۔ کتاب کے صفحہ نمبر ایک سو نو پر وہ لکھتے ہیں کہ اقلیت کے معنی تھوڑے لوگ ہیں۔ جبکہ اسلامی ممالک میں رہنے والوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیت نہیں بلکہ ذمی بولا ہے۔ ذمی کا مطلب ہے کہ اس کی جان، مال عزت و آبرو اور زندگی گزارنے کے لیے ماحول اور وسائل فراہم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

آگے انہوں نے ترمذی شریف کی ایک حدیث نقل کی ہے۔ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ یاد رکھو جو شخص مسلمان ریاست کے کسی ایسے غیر مسلم (اقلیتی فرد) کو قتل کرے، جس کا ریاست سے معاہدہ ہے اور اللہ اور اُس کے رسول نے اس کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، تو وہ اللہ کی ذمہ داری کی بے حرمتی کرتا ہے، ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا‘‘

میں اس مفید اسلامی معلومات کو دوبارہ پڑھنے کے بعد سوچ میں لگ گیا کہ پاکستان سمیت کسی بھی اسلامی ملک میں قانونی طور پر رہنے والے ہندو، پارسی، سکھ، عیسائی یا یہودی کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ ہو، اسلام اور شریعت ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ان پر حملہ کیا جائے۔

بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ عین حالت جنگ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں جوغیر مسلم لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک کار نہیں، ان کا قتل عام کرنے کے بجائے انہیں امان دی جائے۔

پھر یہ کون لوگ ہیں جن سے نہ پاکستان کی مساجد محفوظ ہیں نہ ہی چرچ۔ عوامی مقامات پراندھا دھند فائرنگ کرکے یا بم بلاسٹ کرکے یہ معصوم لوگوں کی جانیں کیوں لے رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں تو اس طرح قتل وغارت گری کی اجازت نہیں۔ پھر دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے پاکستان کو دنیا کی نظر میں ایک دہشت گرد اور اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کرکے اسلام اور پاکستان کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے؟

ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کا علم رکھنے والے علماء لوگوں کو صحیح تعلیمات سے آگاہ کریں۔ عوام ایسی مستند دینی کتب کا مطالعہ کریں۔ جن میں فرقہ واریت کے بجائے قرا?ن و سنت کی صحیح معلومات ہوں۔

اسلامی اسکالرز اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں واضح طور پر لوگوں کو آگاہ کریں۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتی جماعتیں ایسے سانحات کا تعلق اسلام کے ساتھ جوڑ کر اسلام سے نفرت کا اظہار نہ کریں بلکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اقلیتوں سے زیادہ مسلمان جاہلوں کے نشانے پر ہیں۔

اگر اقلیتی مذاہب کے افراد قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں گے تو انہیں اس بات کا علم ہوگا کہ اسلام تمام انسانیت کے لیے امن کا مذہب ہے اور اسلام سے بڑھ کر ان کے لیے تحفظ وحقوق کسی اور مذہب میں نہیں ہیں

کاش اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے بھی سنی سنائی پرعمل کرنے کے بجائے دین کا مطالعہ شروع کردیں تو ان کے لیے جنت کا راستہ بھی واضح ہوجائے گا اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی !

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

محمد نعیم

محمد نعیم

بلاگر کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہیں۔ کراچی اپ ڈیٹس میں بحیثیت سب ایڈیٹر کام کررہے ہیں اور بلاگز کے ذریعے تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ٹوئٹر پررابطہ naeemtabssum@

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔