کچھ بچوں کے ادب کے بارے میں

انتظار حسین  پير 30 مارچ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ہمارے یہاں لکھنے والوں کی برادری بھی تو خیر سے رنگا رنگ ہے انھیں کے بیچ ایک گروہ ان لکھنے والوں کا بھی ہے جو تخصیص کے ساتھ بچوں کے لیے لکھتے ہیں۔ انھیں سخت شکایت ہے کہ دیکھئے بچوں کی تعلیم و تربیت کتنا اہم مسئلہ ہے۔ ہم نے تو اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ لیکن یہ معاشرہ ناقدرہ ہے۔ اس سے بڑھ کر نا قدری کیا ہو گی۔ ہم نے بچوں کے لیے کتنا کچھ لکھ ڈالا ہے۔ لیکن کَس نہ می پُرسد کہ بھیا کیستی۔ ارے حکومت کو تو چاہیے تھا کہ اس کام کے لیے کوئی ادارہ قائم کرتی۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کی اس واسطے سے سرپرستی کی جاتی۔

اہل ہمت نے حکومت کی بے توجہی سے مایوس ہو کر خود ہی ایسے ادارے قائم کرنے کی ہمت کی ہے۔ ابھی ایک صاحب پچھلے ہفتے سیدھے نکل کر لاہور پہنچے۔ پھرتے پھراتے ہماری طرف بھی آ نکلے۔ کہتے تھے کہ ہم نے لیّہ میں بچوں کے ادب کے فروغ کے نقطہ نظر سے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے۔ یہ خاکسار ندیم اختر اس کا آرگنائزر ہے۔ یعنی منتظم اعلیٰ۔ سال کے سال ہم بچوں کے لیے لکھنے والوں کو جمع کرتے ہیں۔ اس مسئلہ پر بحث مباحثہ ہوتا ہے۔ ہم انھی کی تصانیف حاضرین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اب کے ہم یہ جلسہ لاہور میں کر رہے ہیں۔ ہمارے اس ادارے کا نام ہے کارواں ادب۔

ہم نے کہا کہ اس لمبی مسافت کا کیوں تردد کیا۔ لیّہ میں یہ جلسہ کرتے تو شاید بہتر ہوتا۔ بولے کہ لاہور‘ اسلام آباد‘ کراچی بڑے شہر ہیں مگر یہاں کے لوگ اونچا سنتے ہیں۔ لیّہ سے اٹھنے والی آواز ان کے کانوں تک کب پہنچتی ہے۔ سو ہم اپنی دکان کمر پر لاد کر خود ہی یہاں آن پہنچے ہیں۔

خیر انھوں نے بڑے اہتمام سے یہ تقریب اس شہر میں چلڈرن کمپلیکس میں منعقد کی بچوں کے کتنے لکھنے والوں کو جمع کیا انھوں نے اپنے اپنے تجربے سے اس مسئلہ پر بات کی۔ لیّہ سے آنے والے آرگنائزر یہ سوچ کر مطمئن ہو گئے کہ ان کی آواز لاہور والوں کے کانوں تک پہنچ گئی ہے۔ اصل میں لاہور کو اس باب میں جتنی تیزی ترکی دکھانی تھی وہ پیسہ اخبار اور دارالاشاعت پنجاب کے زمانے میں دکھا لی۔

یہ بیسویں صدی کے آغاز کا ذکر ہے۔ منشی محبوب عالم کی ادارت میں ’پیسہ اخبار‘ کے زیر اہتمام بچوں کا ایک رسالہ ’بچوں کا اخبار‘ کے نام سے جاری ہوا۔ جس نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ تھوڑے عرصے بعد رسالہ پھول جاری ہوا۔ وہ اس سے بڑھ کر مقبول ہوا۔ دارالاشاعت پنجاب کی طرف سے جاری ہوا اور اس کے ایڈیٹر ایسے لکھنے والے ہوئے جنہوں نے آگے چل کر ادیب کی حیثیت سے بہت نام پایا۔ مثلاً غلام عباس‘ احمد ندیم قاسمی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سرسید احمد خاں کی تحریک اپنا زور دکھا رہی تھی اور مولانا محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی نے محکمہ تعلیم پنجاب کی تحریک پر ابتدائی تعلیم کے حساب سے پورے پورے مجموعے مرتب کیے اور اسماعیل میرٹھی نے تو بچوں کے لیے شاعری ایسی کی کہ بچے ان کی مختلف نظموں پر فریفتہ ہو گئے۔ اب ذرا گائے پر اس شاعر کی نظم ملاحظہ کیجیے

رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی

کل جو گھاس چری تھی دن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں

دانہ دنکا بھوسی چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر

رب کی حمد و ثنا کر بھائی
جس نے ایسی گائے بنائی

ایک اور نظم کوا

کوے ہیں سب دیکھے بھالے
چونچ بھی کالی‘ پر بھی کالے

تاک رہا ہے کونا کُھدرا
کچھ دیکھا تو نیچے اُترا

آنکھ بچا کر جھٹ سے بھاگا
واہ رے تیری پُھرتی کاگا

اور سنئے‘ یہ دال کی فریاد ہے

ایک لڑکی بگھارتی ہے دال
دال کرتی ہے عرض یوں احوال

ایک دن تھا ہری بھری تھی میں
ساری آفات سے بری تھی میں

ایک ظالم سے واں پڑا پالا
جس نے چکی میں مجھ کو دَل ڈالا

اس کے بعد پھر کوئی دوسرا ایسا پیدا نہ ہوا کہ ایسی بھلی شاعری کرتا اور بچوں کے دل و دماغ میں اتر جاتا۔ ہمارے زمانے میں بس ایک ہی شاعر ایسا گزرا ہے جس کی ایک نظم بچوں میں بے تحاشا مقبول ہوئی۔ یہ ہے صوفی تبسم کی نظم ٹوٹ بٹوٹ۔

خیر یہ سب تو ٹھیک ہے۔ مگر وہ پریوں کی کہانیاں کہاں گئیں جو بچوں کے تخیل کو لے اڑتی تھیں۔ اور پھر شہزادیوں کی کہانیاں۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ کسی ملک میں تھا کوئی بادشاہ۔ اس کی ایک بیٹی تھی۔ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ اس کے حسن کی شہرت دور دور پہنچی۔ ایک پالتو طوطے نے اپنے مالک شہزادے سے اس کے حسن و جمال کی ایسی تعریف کی کہ شہزادہ بِلا دیکھے اس پر جی جان سے عاشق ہو گیا۔ اور پھر کسی راج ہنس کی کہانی کہ اڑتے اڑتے کسی محل کی فصیل پر جا اترا۔ شہزادی نے جو اسے دیکھا تو اس نے گلے میں پڑا موتیوں کا ہارا اتارا۔ ہار توڑ کر سارے موتی صحن میں بکھیر دیے۔ راج ہنس نے نیچے اتر کر وہ موتی چگ لیے اور شہزادی پر عاشق ہو گیا۔

یہ کہانیاں کون سناتا تھا۔ محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی ایسی کہانیوں کو کیوں سنانے لگے۔ یہ تو عقل کے خلاف باتیں تھیں۔ مگر گھر میں بیٹھی نانی اماں بچوں کو جمع کر لیتیں اور ایسی کہانیاں سناتیں۔ یہ کہانیاں بچوں کے تخیل کو لے اڑتیں۔ ارے اس عمر میں عقل تو ابھی کچی ہوتی ہے مگر تخیل بہت تیز ہوتا ہے۔ یہ کہانیاں بچوں کے تخیل کی آبیاری کرتی تھیں۔ تو ان کہانیوں کا اپنا جادو تھا اور اپنی افادیت تھی۔ مگر اب نانی اماں کہاں ہیں۔ آجکل کی نانی امائیں نانی امائیں نہیں ہیں۔ نہ ان کے بال سفید ہیں نہ ان کا منہ پوپلا ہے۔ وہ تو تیتریاں ہیں تیتریاں۔ پھر بچے کہاں جائیں۔ پریوں شہزادیوں کی کہانیاں کس سے سنیں۔ ہمارا عہد نانی اماں سے خالی ہے اور پریوں شہزادیوں کا جادو پھیکا پڑ چکا ہے۔ بچے کی تربیت میں اس کے تخیل کی آبیاری کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کی کتنی بڑی خامی ہے۔ آدمی کو خالی عقل کا پُتلا تو نہیں ہونا چاہیے۔ پڑھے لکھے نوجوان کو دیکھ کر یہ بھی تو اس کے سلسلہ میں پتہ چلنا چاہیے کہ

ہے پِر مرغِ تخیل کی رسائی تا کُجا

اگر یہ پتہ نہیں چلتا تو ایسا نوجوان نہ شاعر بن سکتا ہے‘ نہ آرٹسٹ نہ فلسفی۔ پس وہ پھر کاروباری آدمی ہی بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔