کیوں؟ آخر اپنا ہی وطن چھوڑنے پر مجبور کیوں؟

شاہد محمود  جمعرات 2 اپريل 2015
دھماکوں، بھتہ خوری، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے واقعات نے پاکستان کی اقتصادی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری کو سخت دھچکا پنہچایا ہے۔فوٹو اے ایف پی

دھماکوں، بھتہ خوری، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے واقعات نے پاکستان کی اقتصادی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری کو سخت دھچکا پنہچایا ہے۔فوٹو اے ایف پی

اپنا شہر اور ملک چھوڑنا آسان نہیں ہوتا، پھر بھی کئی پاکستانی ہر سال اپنا ملک چھوڑ کر، اپنے پیاروں سے ہزاروں میل دور غیر ممالک میں جا بستے ہیں۔ کچھ روزگار کیلئے جاتے ہیں تو کچھ حصول تعلیم کیلئے، کچھ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا جاتا ہے اور ان کیلئے ایسے حالات پیدا کردیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس اپنا ملک چھوڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں بچتا۔

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بیرون ممالک پناہ کے لئے 14 ہزار سے زیادہ درخواستیں پاکستان کی جانب سے موصول ہوئیں، یہ اب تک ایک سال میں پاکستان سے موصول ہونے والی سب سے زیادہ درخواستیں ہیں، اس کے ساتھ ہی پاکستان ان چھ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جہاں سے ایک سال میں سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں ہیں۔

افغانستان، شام اورعراق میں جاری جنگی تنازعات نے ان ممالک میں ایک ایسا خوفناک انسانی بحران پیدا کردیا ہے کہ اب کہیں بھی عام شہریوں کے جان و مال محفوظ نہیں، ان ممالک کے لوگ ہجرت پر مجبور کردیے گئے، اسی لئے لاکھوں شہریوں نے اپنی جان بچانے کیلئے ہمسایہ اور مغربی ممالک میں پناہ لی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسی کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ کے متلاشی ہیں۔ 2013 میں ایسا کیا ہوا کہ 14 ہزار سے زیادہ پاکستانی اپنا وطن چھوڑنا چاہتے ہیں؟ ان میں کچھ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو پاکستان میں ایک اچھی زندگی گزار رہے ہوں مگر مزید اچھے مستقبل کی خاطر ملک چھوڑنا چاہتے ہوں۔ یورپین ممالک ایسے پناہ گزینوں کو معاشی تارکین وطن کہتے ہیں اور ان کیلئے پناہ کا حصول آسان نہیں ہوتا، پناہ کی درخواستوں کی جانچ کا عمل انتہائی پیچیدہ اور تکلیف دہ حد تک طویل ہے۔ اس پورے عمل میں کئی کئی ماہ یا پھر سال بھی لگ جاتے ہیں۔

کئی پناہ گزین  پہلے غیر قانونی طریقہ سے غیر ممالک میں جاتے ہیں اور پھر وہاں پناہ کی درخواست دیتے ہیں، ان کو کافی طویل اور کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کچھ کو الگ سے کیمپوں میں بھی رکھا جاتا ہے، اکثر مغربی ممالک میں ان کو کام کرنے کی اس وقت تک اجازت نہیں ملتی جب تک ان کی جائز پناہ گزین کی حیثیت طے نہیں ہوجاتی۔ اس دوران ان کو حکومت کی طرف سے معمولی سی رقم ملتی ہے جس سے وہ بمشکل اپنے روز مرہ کے اخراجات پورے کرپاتے ہیں.

حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک جاری دہشت گردی نے پاکستان کے سماجی، سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو سخت نقصان پنہچایا ہے۔ بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور انتہا پسندوں سے متاثرہ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں میں کے دلوں میں خوف گھر کرچکا ہے۔ مگر ملک کے مختلف دیگر حصوں میں بھی عدم تحفظ کے نتیجے میں ایک عام احساس پایا جاتا ہے کہ وہ یہاں ’’محفوظ‘‘ نہیں ہیں۔

دھماکوں، بھتہ خوری، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے واقعات نے پاکستان کی اقتصادی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری کو سخت دھچکا پنہچایا ہے۔ جس کے نتیجے میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ لہذا جب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار ملنا مشکل ہوا تو انہوں نے بیرون ملک جانے کو ترجیح دینا شروع کردی۔

جب سے دہشتگردی نے ریاست کی عملداری کو کمزور کیا ہے عام  شہریوں، خاص طور پر اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ بڑھا ہے۔ سب سے زیادہ عدم تحفظ  مذہبی اقلیتوں میں پایا جاتا ہے، ان کو اپنے مذہبی عقائد یا کسی مخصوص فرقے یا جماعت سے تعلق کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، ساتھ ہی انتہا پسندوں کی طرف سے ان پہ تبدیل مذہب کیلئے دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے۔

ایسی کئی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں پاکستانیوں نے غیر ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی ہیں۔ یہ کتنا بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پاکستانی بہن بھائی اپنے ہی ملک میں خوف اور گھٹن  کی زندگی جی رہے ہیں اور اب ان میں عدم تحفظ  کا احساس اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی وطن کو ہمیشہ کیلئے خیر آباد کہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو بلا تفریق چاہے وہ کسی بھی فرقے یا جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، مکمل حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کی تحفظ کو یقینی بنائے۔ ہمیں بھی ایک اچھے پاکستانی شہری کی حیثیت سے عدم تشدد اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ملک میں صرف کرپشن اور لوٹ مار کرنے والا طبقہ ہی باقی رہ جائے گا، اور آکر میں یہ لوگ میں ایک دوسرے کو نوچ کر کھا لیں گے۔

کیا مسائل سے پریشان ہوکر دیگر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنی چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔