دو سو چھیالیس کے تین لاکھ

وسعت اللہ خان  منگل 21 اپريل 2015

حالانکہ کسی انتخابی حلقے کا ضمنی انتخاب پارلیمانی نظام میں ایک معمول کی مشق ہے مگر بھلا ہو الیکٹرونک میڈیا کی چوبیس گھنٹے کی نشریاتی بھوک کا جو کسی ایک حلقے کے ضمنی انتخاب کو مظلوم ناظر کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے پر قادر ہے اور کسی بھی صوبے ( بلوچستان ) کے پورے انتخابی عمل کو ایک یونین کونسل کے انتخاب کے برابر اہمیت نہ دینے پر بھی قادر۔چونکہ مختلف چینلز پر ہر طرح کے افلاطونی ماہرین اور ارستوئی اینکرز کی اٹائیں سٹائیں دیکھ سن کے میرا بھی فشارِ خون کبھی چھت تو کبھی پاتال چھونے لگتا ہے اور چونکہ کچھ دوست مجھے میڈیائی فیشن فالو نہ کرنے کے طعنے بھی دینے لگے ہیں لہذا آج میں بھی بادلِ نخواستہ دل پے پتھر رکھ کے این اے دو سو چھیالیس کی قلمی ورزش کرنا چاہتا ہوں۔

اگر تئیس تاریخ کو پولنگ بخیر و خوبی ہوگئی تو این اے دو سو چھیالیس اس بار بھی متحدہ قومی موومنٹ آسانی سے جیت جائے گی۔ پہلے اگر دھاندلی سے جیتتی تھی تو اس بار بغیر دھاندلی جیت جائے گی۔وجوہات درجِ ذیل ہیں۔

این اے دو سو چھیالیس لیاقت آباد اور فیڈرل بی ایریا کے ان علاقوں پر مشتمل ہے جہاں کی نوے فیصد آبادی نیم متوسط اور نیم غریب اردو بولنے والوں پر مشتمل ہے  اور کچھ آبادی گجراتی میمن کمیونٹی ، اسماعلیوں اور بوہریوں کی بھی ہے۔یہ علاقہ انیس سو چونسٹھ کے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کا گڑھ تھا۔جب ایوب خان نے صدارتی انتخاب جیسے کیسے جیت لیا تو اس کے بعد ان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان کا مسلح جلوسِ فتح  بھی اس علاقے سے گذرا۔یوں کراچی نے پہلی بار نسلی کشیدگی کا تلخ مزہ اپنی زبان پر محسوس کیا۔

انیس سو بہتر میں جب سندھی کو صوبے کی سطح پر سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کے خلاف سب سے تشدد آمیز مظاہرے کراچی کے اسی علاقے میں ہوئے۔جو لوگ پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہوئے ان کو شہدائے اردو قرار دیا گیا اور ان کی قبریں لیاقت آباد سپر مارکیٹ کے سامنے موجود ہیں۔

اور جب انیس سو اسی کے عشرے میں شیعہ سنی فسادات کی لہر آئی تو یہی علاقے  سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور لیاقت آباد میں لگ بھگ سو شیعہ خاندان بے گھر ہوئے۔تاہم اس کے بعد سے یہاں عمومی سطح پر کوئی فرقہ وارانہ جھگڑا نہیں ہوا۔جس کا ایک بڑا سبب مہاجر قومی موومنٹ کی سیکولر آیڈیالوجی بتائی جاتی ہے۔

اگرچہ اس حلقے میں سنی بریلویوں کی اچھی خاصی تعداد ہے مگر سن پچاسی تک یہ علاقہ جماعتِ اسلامی کا سیاسی گڑھ بنا رہا۔ سن ستر کے پہلے عام انتخابات میں یہاں سے ( این ڈبلیو ایک سو بتیس ) جماعتِ اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور احمد پیپلز پارٹی کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے جیتے۔جب سن ستتر میں پورے پاکستان سے بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد کو صرف بتیس سیٹیں ملیں تو ان بتیس سیٹوں میں اس علاقے سے پروفیسر غفور احمد کی نشست ( این اے ایک سو چھیاسی ) بھی شامل تھی۔

انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں اس حلقے سے جماعتِ اسلامی کے ہی مظفر ہاشمی کامیاب ہوئے۔اور پھر یہاں کا ووٹ بینک ایم کیو ایم کی جانب شفٹ ہوتا چلا گیا۔ تب سے اب تک جماعتِ اسلامی دوسرے نمبر پر ہی رہی۔

انیس سو اٹھاسی اور نوے کے انتخابات میں اس علاقے سے ( این اے ایک سو ستاسی ) ایم کیو ایم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق جیتے۔انیس سو ترانوے میں کراچی آپریشن کے سبب چونکہ ایم کیو ایم نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا لہذا جماعتِ اسلامی کے حافظ محمد تقی کامیاب ہوگئے۔انیس سو ستانوے کے عام انتخابات کے وقت چونکہ عمران فاروق روپوش تھے اس لیے ان کے والد فاروق احمد اس نشست پر کامیاب ہوئے۔سن دو ہزار کے بلدیاتی انتخابات کا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تو اس علاقے کی تیرہ یونین کونسلوں میں سے نو یونین کونسلوں میں جماعتِ اسلامی جیت گئی۔

نئی حلقہ بندیوں کے بعد سن دو ہزار دو کے انتخابات میں اس نشست سے ( این اے دو سو چھیالیس ) سے ایم کیو ایم کے جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ پولیس افسر بلوچ امیدوار حاجی عزیز اللہ بروہی کامیاب ہوئے۔تاہم حاجی عزیز اللہ بروہی کی نشست خالی ہونے کے بعد دو ہزار چار کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے سندھی نژاد امیدوار نثار پنہور کامیاب ہوئے۔

سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں یہ نشست ایم کیو ایم کے امیدوار سفیان یوسف نے اور دو ہزار تیرہ میں نبیل گبول نے جیتی اور اب ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے درمیان سہہ طرفہ مقابلہ ہے۔ راشد نسیم اس حلقے سے دو ہزار دو کے بعد سے ہر انتخاب میں جماعتِ اسلامی کی جانب سے مسلسل امیدوار رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف اس حلقے سے دوسری بار انتخاب لڑ رہی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انیس سو اٹھاسی کے بعد سے اب تک ایم کیو ایم نے ہر وہ انتخاب جیتا جس کا اس نے بائیکاٹ نہیں کیا۔جب کہ اس حلقے میں جماعتِ اسلامی کا تیس تا چالیس ہزار ووٹوں کا ووٹ بینک نہ کم ہوتا ہے نہ بڑھتا ہے۔دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں بھی اس حلقے میں تحریکِ انصاف کے بجائے جماعتِ اسلامی ہی دوسرے نمبر پر آتی اگر امیرِ جماعتِ اسلامی منور حسن پولنگ کے دن اچانک انتخابی بائیکاٹ نہ کردیتے۔

اس حلقے میں تحریکِ انصاف کی گنجائش اس لیے نہیں بنتی کیونکہ نچلی سطح تک اس کا تنظیمی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔جب کہ ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی اس حلقے کے تجربہ کار نباض اور کھلاڑی ہیں۔خصوصاً ایم کیو ایم کا ہیڈ کوارٹر ( نائن زیرو ) یہاں ہونے کے سبب پارٹی کے لیے اس علاقے کی وہی تاریخی و سیاسی اہمیت ہے جیسے نوڈیرو پیپلز پارٹی کے لیے ، گوالمنڈی مسلم لیگ این کے لیے ، ولی باغ عوامی نیشنل پارٹی کے لیے اور ڈیرہ اسماعیل خان فضل الرحمان برادران کے لیے۔

ہاں اس علاقے میں ایم کیو ایم کو جتنے ترقیاتی کام کرنے چاہیے تھے وہ نہیں ہوئے۔ہاں اس علاقے میں ایم کیو ایم کی تائید سے قبضہ مافیا نے بہت گل کھلائے۔ہاں اس علاقے میں ایم کیو ایم کے علاوہ کسی بھی جماعت کو آزادی سے کام کرنے یا اپنی مہم چلانے میں گھبراہٹ ، خوف اور دقت ہوتی ہے۔مگر یہاں ایم کیو ایم اگر زوال پذیر ہوئی تو اپنی وجہ سے ہی ہوگی۔

ایسا نہیں کہ یہاں کا ووٹر اپنے ردِعمل  کا اظہار نہیں کرتا۔یہاں رجسٹرڈ تین لاکھ ووٹوں میں سے کبھی بھی ایک لاکھ نوے ہزار سے زائد ووٹروں نے اپنا حق استعمال نہیں کیا۔اگر ایم کیو ایم کو دو ہزار آٹھ میں اس علاقے سے ایک لاکھ چھیاسی ہزار اور دو ہزار تیرہ میں ایک لاکھ سینتیس ہزار ووٹ پڑے ہیں تو دو ہزار دو میں تریپن ہزار ووٹ بھی پڑے ہیں۔

مگر جب جب ایسا لگتا ہے کہ ووٹر ایم کیو ایم سے بیزار ہے یا ووٹ بینک کم ہورہا ہے تب تب کوئی نہ کوئی آپریشن شروع ہوجاتا ہے اور بیزار ووٹر دوبارہ ایم کیو ایم کی جانب پلٹ جاتا ہے۔ موجودہ ضمنی انتخاب بھی کچھ ایسی ہی فضا میں ہورہے ہیں۔ عام ووٹر میں یہ تاثر بڑھا ہے کہ تحریکِ انصاف کو بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹی مدد حاصل ہے۔لیکن اگر یہ فائٹ سہہ طرفہ کے بجائے دو طرفہ ہوتی اور تحریکِ انصاف جماعتِ اسلامی کے امیدوار کی حمائت کردیتی تو مقابلہ دلچسپ ضرور ہوسکتا تھا۔

( جہاں تک تحریکِ انصاف کی ضمنی انتخابی کارکردگی کا سوال ہے تو دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف اپنی جیتی ہوئی این اے ون ( پشاور ) اور این اے اکہتر ( میانوالی ) ضمنی انتخاب میں ہار چکی ہے۔

ہری پور کی این اے انیس پر ری پولنگ میں ہار چکی ہے۔صرف مولانا فضل الرحمان کی خالی کردہ نشست این اے پچیس ( ڈی آئی خان۔ٹانک) جیت سکی اور جاوید ہاشمی کی چھوڑی اسلام آباد کی سیٹ برقرار رکھ پائی مگر ملتان کی جاوید ہاشمی کی خالی سیٹ پر ایک آزاد امیدوار کی حمایت پر تکیہ کیا)۔

میں تو بس یہ سوچ رہا ہوں کہ تئیس اپریل کی شب جب یہ میلہ ختم ہوجائے گا تو اگلے دن میڈیا کیا بیچے گا۔مگر اس میں سوچنا کیا ؟ میڈیا تو میرا شدو ٹھیلے والا ہے۔ایک دن اس کا ٹھیلہ کیلوں سے لدا ہوتا ہے تو دوسرے دن شرطیہ مٹھے خربوزوں سے۔آج اس کے ٹھیلے پر تربوزوں کا پہاڑ بنا ہوا تھا۔

’’بابوجی لے جاؤ ،  اج ہندوانے دی ریٹنگ سب توں زیادہ اے۔باہروں جنا سبز اندروں اوناں ای لال سوآ۔پینتی روپے کلو پینتی روپے کلو ، سوہنیاں واسطے مخت۔۔۔۔۔۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔