کیا بھٹو مزید زندہ رہے گا؟

 پير 27 اپريل 2015
بلاول کے بغیر بات نہیں بنے گی، اگر اب پیپلز پارٹی نے یہ نہ کیا تو پھر لوگ پوچھیں گے کہ کیا بھٹو مزید زندہ رہے گا؟

بلاول کے بغیر بات نہیں بنے گی، اگر اب پیپلز پارٹی نے یہ نہ کیا تو پھر لوگ پوچھیں گے کہ کیا بھٹو مزید زندہ رہے گا؟

وہ بھی ایک وقت تھا، جب پیپلزپارٹی جہاں چاہتی ہزاروں کیا لاکھوں لوگ بھی باآسانی جمع کرلیتی تھی، جس کی وجہ عوام کی خدمت نہیں بلکہ بھٹو خاندان سے جیالوں کی دیوانہ وار محبت تھی۔

بھٹو کے نام پر بننے والی پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کے جانے کے بعد کسی حد تک دھچکا ضرور لگا مگر اُس کی بیٹی نے اپنی محنت سے نا صرف پارٹی کو ٹوٹنے سے بچایا بلکہ ایک بار پھر مضبوط سے مضبوط بنایا۔ لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا، کہ جس بیٹی کے کاندھوں پر پوری پارٹی کا وزن تھا اُس کو دہشتگردوں نے نشانہ بناڈالا، اور اگر یہ کہا جائے کہ دہشتگردوں نے محض بے نظیر بھٹو کو نشانہ نہیں بلکہ پوری پارٹی کو نشانہ بنایا ہے تو یہ ہر گز غلط نہ ہوگا۔

آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھلا ایسا کیوں ہوا؟ تو ایسا اس لیے ہوا کہ بینظیر کی دنیا سے رخصتی کے بعد یہ اُمید تھی کہ پارٹی کے کسی سینیئر ممبر کو پارٹی کی بھاگ دوڑ کی ذمہ داری دی جائے گی مگر بادشاہت پر مبنی جماعتوں میں ایسا کہا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی قیادت کا قرعہ نکلا آصف علی ذرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے نام۔

اگرچہ 2008 کے انتخابات نے محترمہ کے المناک حادثے کے بعد عوام نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دے کر ایوانوں تک پہنچایا مگر ایوان میں پہنچنے کے بعد یہ عوامی جماعت عوام سے بالکل اِس طرح دور ہوئی کہ جس طرح بلی کو دیکھ کر چوہا دور بھاگ جاتا ہے۔ اِس نااہلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس پارٹی کو ملک بھر کی پارٹی کہا جاتا تھا وہ سمٹ کر محض ایک صوبے کی پارٹی بن گئی۔

گزشتہ روز پیپلز پارٹی نے کراچی کے ککری گراونڈ میں جلسہ کرکے عوام میں زندہ ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی، مقررین میں بھی ہلکی ہلکی زندگی کی رمق نظر آئی۔ لیکن اس جلسہ سے ایک دن قبل ہونے والے کنٹونمنٹ کے انتخابات تو پیپلز پارٹی کی آخری سسکیوں کا پتہ دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی وقت میں ملک کی سب سے بڑی اور پاپولر مانی جانے والی جماعت دوبارہ سانسیں لے سکے گی؟ اس سوال کا جواب ذرا ٹھہر کے دیتے ہیں، پہلے یہ تو دیکھیں ان کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں کس نے کیا پایا؟ کیا کھویا؟ اور مستقبل قریب میں آنیوالے بلدیاتی انتخابات میں کیا ہوگا؟ تھوڑا سا جائزہ تو بنتا ہے ناں!

اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر کے 18 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ ان انتخابات میں کل 18 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سب سے زیادہ 67 نشستیں حاصل کیں جبکہ اس کے 128 امیدوار میدان میں تھے۔ کامیابی کا تناسب ففٹی ففٹی رہا۔ پاکستان تحریک انصاف 43 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی ہے جبکہ اس کے سب سے زیادہ امیدوار میدان میں تھے۔ ان کی تعداد 137 تھی۔ تحریک انصاف کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ ایم کیوایم 18 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس کے امیدواروں کی تعداد 27 تھی سب سے زیادہ کامیابی کا تناسب ایم کیو ایم کا ہے۔ 57 آزاد امیدوار بھی کامیاب قرار دیے گئے ہیں۔ جن کے امیدواروں کی تعداد 610 تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے 89 امیدواروں میں سے صرف 7 کامیاب ہوسکے، جماعتِ اسلامی کے 74 امیدواروں میں سے سات کامیاب ہوئے ہیں، جس کی کامیابی کا تناسب پیپلز پارٹی سے قدرے بہتر ہے، اے این پی کے 13 امیدواروں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا جن میں سے محض دو کامیاب ہوسکے ہیں۔

یہاں ستتر سالہ پرانی جماعت اسلامی کا 7 نشستیں حاصل کرنا ہرگز قابل اطمینان نہیں لیکن این اے 246 کے دھچکے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں کے لئے ھوا کا تازہ جھونکا ضرور ہے۔ اس انتخابی معرکے میں جمعیت علمائے اسلام نظر نہیں آئی، لاہور میں دھرنا باز پارٹی پاکستان عوامی تحریک کو تو عوام نے ایسے مسترد کیا ہے کہ ان کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئیں ہیں۔ باقی چھوٹی بڑی دینی جماعتوں کا تو نام و نشان بھی کسی حلقے میں نظر نہیں آیا۔

ان نتائج کے بعد تمام دینی جماعتوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر غلطی کہاں اورکس میں ہے کیونکہ اسلام کے نام پر تخلیق پانے والے (جیسے کہ ان کا خیال ہے) ملک میں سب سے کم اعتماد مذہبی جماعتوں پر کیا جارہا ہے۔ اسکے برعکس عام عوام کی تائید مسلم لیگ، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کیساتھ ہے۔

آخر میں پشتونوں کے خود ساختہ ٹھیکیدارمیپ اوراے این پی بھی یاد آگئے تو دونوں کو ملنے والی سیٹوں کی مجموعی تعداد 3 ہے لگ یہ رہا ہے کہ پشتونوں نے قوم پرستی کی سیاست کوتقریباً ترک کردیا۔ ہاں! یاد آیا اس الیکشن میں سابق فوجی صد رپرویز مشرف کو سو بار وردی میں منخب کروانے کا اعلان کرنیوالی ق لیگ نظر نہیں آئی، کہیں کوئی امیدوار ایسا نہیں پایا گیا کہ جس نے کہا ہو کہ میرا ق لیگ سے تعلق ہے۔

کوئی سمجھے تو یہ محض کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن نہیں تھے بلکہ مستقبل میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات کیلئے وارننگ ہے۔ نتائج سے صاف نظر آرہا ہے کہ اگلی جیت بھی ن لیگ کی ہی ہوگی۔

تحریک انصاف غلطیوں سے بعض نہ آئی تو آئندہ الیکشن اس کیلئے مزید تکلیف کا سبب بن جائینگے۔ پیپلزپارٹی تو اپنی نااہلی کے سبب خود کو زندہ رکھنے کیلئے جلسے کررہی ہے، زرداری صاحب تو سب پر بھاری ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ جلسوں سے الیکشن نہیں جیتے جاتے تو پھر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کیوں؟ بلاول کے بغیر بات نہیں بنے گی اور زرداری صاحب کرسی نہیں چھوڑیں گئے۔ پیپلز پارٹی نے یہ نہ کیا تو انجام سب کے سامنے ہے۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ کیا بھٹو مزید زندہ رہے گا؟

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

مٹ گئے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟َ

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔