مستقبل اسکول سے شروع ہوتا ہے

عارف محمود کسانہ  اتوار 17 مئ 2015
جب بچوں کی اسکول سے بنیاد مضبوط ہوگی تو انہیں ہرگز اعلیٰ تعلیم کے میدان میں مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔ فوٹو:فائل

جب بچوں کی اسکول سے بنیاد مضبوط ہوگی تو انہیں ہرگز اعلیٰ تعلیم کے میدان میں مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔ فوٹو:فائل

پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں اکثر گفتگو اور میڈیا میں اظہار خیال ہوتا رہتا ہے۔ تعلیمی مسائل اور کارکردگی کے بارے ماہرین سے لے کرعام آدمی تک سب اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ جن لوگوں کو دنیا کے دیگر ممالک میں جانے اور وہاں تعلیم و تدریس کا موقع ملا ہو، وہ تقابلی جائزہ لے کر نظام تعلیم کی اصلاح کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کے نظام تعلیم کا بنیادی مسئلہ تدریسی نظام کی بنیاد یعنی اسکول سسٹم کی خرابی ہے۔

سویڈن جو کہ اعلٰی تعلیم میں دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور اس کی تین جامعات دنیا کی ایک سو بہترین تعلیمی اداروں میں شامل ہیں۔ طب، انجئیرنگ اور دوسرے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم وتحقیق کے لیے دنیا بھر سے طالب علم یہاں کا رخ کرتے ہیں لیکن یہ پھر بھی یہ اپنے اسکولوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دے رہا ہے اور موجودہ حکومت نے اسکولوں کے لیے ایک خطیر اضافی رقم مختص کی ہے۔

سویڈش وزیراعظم نے اس مقصد کے لیے ایک قومی پلان دیا ہے کہ ملک کا مستقبل اسکول سے شروع ہوتا ہے۔ مجھے پاکستان اور سویڈن دونوں کے تعلیم ادروں سے تحصیل علم کا موقع ملا ہے اور میرے خیال میں بھی پاکستان میں اسکول کے نظام تعلیم کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جن بچوں کی اسکول سے بنیاد مضبوط ہوگی انہیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔

اس وقت سویڈن کے ہمسایہ ملک فن لینڈ کا اسکول سسٹم دنیا بھر میں بہترین قرار دیا گیا ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ کا اسکولوں کا نظام تعلیم تقریباََ ایک جیسا ہے۔ یہاں بچے 7 سال کی عمر میں اسکول شروع کرتے ہیں۔ نظام تعلم کی %100 ذمہ داری حکومت پر ہے اور نجی اسکول بہت ہی کم ہیں اور جو ہیں وہ بھی حکومتی سرپرستی اور مالی امداد پر ہیں اس لیے سرکاری اور نجی سکولوں میں کوئی خاص فرق نہیں بلکہ عوام کی غالب اکثریت سرکاری اسکولوں کو ترجیح دیتی ہے۔ بچوں کو کتابیں، کاپیاں، پینسلیں اور دوسری تمام چیزیں مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا مفت ملتا ہے۔ نہ بچوں پر غیر ضروری مضامین کا بوجھ نہیں لادا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں چھٹیوں میں لکھنے کے لیے کام دیا جاتا ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خوب مزے کریں البتہ مطالعہ ضرور کریں۔

ہر بچے کی انفرادی جانچ پڑتال ہوتی ہے اور ہرسال نہ سالانہ امتحانات ہوتے ہیں اور ہی اول دوم سوم آنے والوں کا اعلان ہوتا ہے۔ تعلیم میدان میں کمزور بچوں کو اسکول کی جانب سے مفت ٹیوشن پڑھائی جاتی ہے۔ ہر جماعت اور مضمون کے لیے محکمہ تعلیم نے ایک نصاب بنایا ہوا ہے جس پر اسکول عمل کرتے ہیں۔ ملک میں ایک ہی طرح کے اسکول ہیں اور محمود وایاز کے بچے ایک ہی صف میں بیٹھے علم حاصل کرتے ہیں۔ اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور معاشرہ میں قابل عزت مقام کے حامل ہیں۔ اساتذہ کی تعلیم و ترقی کے لیے بھی ایک منصوبہ ہوتا ہے تاکہ وہ مزید موثر انداز میں بچوں کو پڑھا سکیں۔

پاکستان اور سویڈن کے اسکول کے نظام تعلیم میں جو سب سے بڑا فرق مجھے نظر آیا ہے وہ یہ ہے کہ سویڈن میں بچوں کی تخلیقی صلاحتیں اجاگر کی جاتی ہیں۔ کسی بچے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا، اُس کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے اور اس کی شخصیت کی مزید نشوونما کی جاتی ہے۔ انہیں سوچنے سمجھنے اور معلومات حاصل کرکے انہیں اپنے الفاظ میں بیان کرنے کا انداز اپنایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس ہے اور بچوں کو رٹا لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

دوسرا فرق یہ کہ سویڈن بلکہ پوری دنیا میں ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے جس وجہ سے بچے ساری عمر مشکل میں پھنسے رہتے ہیں۔ یہاں سویڈن میں تارکین وطن کے بچوں کو حکومت کی طرف سے ان کی مادری زبان اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے اور تاکید کی جاتی ہے کہ بچوں کے ساتھ گھروں میں مادری زبان میں ہی بات کریں تاکہ ان کی صلاحتیں بہتر نشو ونما پاسکیں اوراس طرح وہ دوسری زبانیں اور علوم بہتر طریقے سے سیکھ سکیں گے۔ انگریزی دوسری اور پانچویں جماعت سے کوئی ایک یورپی زبان پڑھائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد بچہ متعلقہ یورپی زبان میں لکھنے پڑھنے کے علاوہ بات چیت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

مگر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں بچے پانچ سال اسکول میں عربی پڑھتے ہیں لیکن وہ میٹرک کے بعد عربی کے پانچ جملے بھی نہیں بول سکتے۔ کیوں؟ چلیں عربی کو ایک طرف رہنے دیں، انگریزی جو کہ اب ہمارے سکولوں کا ذریعہ تعلیم بن چکا ہے اور دس سال تک بچوں کو اسی میں تعلیم دی جاتی ہے مگر میٹرک کے بعد بھی طالب علم کیوں انگریزی میں اعتماد کے ساتھ بات نہیں کرسکتے؟ جو یہاں کے طالب علم کرسکتے ہیں۔ اگر کسی بچے کو کہا جائے کہ کسی موضوع پر دو صفحات لکھو تو یہ اس کے لیے تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ وجہ ناقص نظام تعلیم اور رٹا لگانے پر زور ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں رٹا لگانے والوں کے ہی اچھے نمبر آتے ہیں۔

سویڈن سے ہمارے ایک دوست نے اپنے بچوں کو پاکستان منتقل کردیا اور وہاں ایک نجی تعلیم ادارے میں داخل کروایا جو پاکستان میں بہترین تصور کیا جاتا ہے لیکن بچوں نے چند ہی ماہ بعد وہاں کے نظام تعلیم سے بے زاری کا اظہار کردیا اور واپس سویڈن چلے آئے۔ میرے پوچھنے پر بچوں نے بتایا کہ وہاں رٹا لگا کر جواب نہ دیا جائے تو استاد فیل کردیتے ہیں اور اگر اپنے الفاظ میں کوئی جواب دیا جائے توکہتے ہیں کہ تم قائد اعظم بننے کی کوشش نہ کرو۔ وہاں بڑی فیس لینے والے نجی اسکولوں میں بھی انگریزی اردو میڈیم میں پڑھائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ کہ بچے نہ اردو میڈیم رہے نہ انگریزی بلکہ دونوں زبانوں کا ملغوبہ بن گیے۔

پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو اسکول کے سسٹم کو بہتر کرنا ہوگا۔ اعلٰٰی تعلیم یافتہ استاد جنہیں اچھی تنخواہ دی جائیں اور بچوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنا ہونگی۔ رٹا لگانے کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور بچوں کو اپنے الفاظ میں جواب دینے کی تربیت دی جانے کی اشد ضرورت ہے۔ ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر پورے ملک میں ایک طرح کا نظامِ تعلم اور ایک جیسے اسکول ہوں جن میں بالا دست طبقہ اور عام عوام کے بچے ایک ساتھ حصول تعلیم میں مصروف ہوں۔ جب تک اس طرف نہیں سوچا جائے گا ملک ترقی نہیں کرسکے گا۔ قوموں کی ترقی تعلیم سے ہوتی ہے عمارتیں کھڑی کرنے سے نہیں۔ شائد ارباب اختیار اس حقیقت کو سمجھ لیں۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

عارف محمود کسانہ

عارف محمود کسانہ

بلاگر، کالم نگار ہیں اور سویڈن کی فارن پریس ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں۔ سویڈن ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے بھی منتظم ہیں۔ فیس بُک پر ان سے Arifkisana کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔