اشتہار نما سزا!

خوشنود زہرا  پير 25 مئ 2015
 جب ڈرائیور حضرات کی توجہ لمحہ بھر کو بھی ان بل بورڈز پر مر تکز ہوتی ہے تو حادثے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

جب ڈرائیور حضرات کی توجہ لمحہ بھر کو بھی ان بل بورڈز پر مر تکز ہوتی ہے تو حادثے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

اگر آپ سڑکوں پر سفر کرتے ہیں اور یقیناً کرتے ہونگے تو مجھے یقین ہے کہ آپ بھی روزانہ کی بنیاد پر بڑی بڑی آنکھوں والی ماڈلز کے لشکاروں سے محفوظ نہیں رہے ہونگے۔ ارے ارے، غلط نہ سمجھیں، میں تو پورے شہر کی شاہراؤں پر نصب بل بورڈز کی بات کررہی ہوں جن کی رونق اور کشش بڑھاتے روشن چہرے، قیمتی لباس، اشتہا انگیز کھانے، جدید موبائل فون کی تشہرِ ہر سو پھیلے ہوئے ہیں۔

جب خوابیدہ آنکھوں، خوبصورت سجی سنوری، دھیمے دھیمے رنگوں والی لان میں ملبوس ماڈلز قد آدم بورڈ پر نصب ہوتی ہیں تو یقین رکھئے آپ کو یہی گمان ہوگا کہ یہ آپ کو ہی دیکھ کر شرمائے جارہی ہیں اور جب یہ ذہن میں خیال آجائے تو پھر انسان تھوڑا شرماتا بھی ہے اور دل ہی دل میں خوشی کے احساسات بھی جنم لیتے ہیں، لیکن یہ احساسات اپنی حدود سے تجاوز کرجائیں، اِس سے پہلے برائے مہربانی ایک سیکنڈ سامنے سے آتی گاڑی بھی دیکھ لیجئے ورنہ آپ کا ایکسیڈینٹ بھی ہوسکتا ہے، اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوجائے تو یہ ہرگز مت سمجھیے گا کہ جو خوبرو ماڈل آپ کو دیکھ کر شرما رہی تھی اب وہ آپ کی عیادت کے لیے بھی آئے گی۔

ارے شرمانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ واحد شخص نہیں ہیں جن کی توجہ حاصل کرنے میں یہ ماڈلز کامیاب ہوئی ہیں، جناب روزانہ ہزاروں منچلے ان کی شوخ اداؤں، گھائل نگاہوں، دلربا مسکراہٹ کے سبب  لڑکھڑا کر بے ساختہ اپنی گاڑیوں کو بریک لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

پورے شہر کی سڑکوں پر لگے ہوئے جناتی بل بورڈز شہریوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں جہاں ایک طرف تو یہ تشہیر کا موثر ذریعہ حکومت کو منافع پہنچاتے ہیں وہیں ان بل بورڈز کی بھرمار نے سڑکوں پر سفر کرتے افراد کی توجہ اپنی طرف کھینچ کر حادثات میں اضافے کا گراف بھی اونچا کرسکتے ہیں کیونکہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے جب دوشیزائیں جگہ جگہ اپنے رنگ بکھیر رہی ہوں اور مرد حضرات اُن کو نہ دیکھیں، اور جب ایسا نہیں ہوگا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ توجہ بٹنے کے سبب حادثات کے خدشات بڑھ نہ جائیں۔

عالمی مروجہ تعریف کے مطابق ’’ادا شدہ معاوضے پر لکڑی کے بڑے حجم پر مشتمل وہ تختے جو علامتی طور پرمصروف شاہراؤں پر تشہیری یا آگاہی مہم کے دوران نصب کئے جاتے ہیں اُن کو بل بوڑد اور ہورڈنگ یا سائن بورڈز کہا جاتا ہے۔ تاہم ان کے لئے کچھ اصول و ضوابط ہیں جن سے فی الحال تو شہری انتظامیہ واقف نظرنہیں آتی، شاید یہی وجہ ہے کہ شہر میں اِس قدر بے ہنگم اور وافر تعداد میں بل بورڈز شہر پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہان پیسہ کمانے کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ سڑکوں پر بل بورڈز کی تعداد میں ہوتا چلا جارہا ہے۔ وہ کونسی جگہ ہے جہاں اِن بورڈز کا قبضہ نہیں ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر بُری چیز کو اپنانے کے لیے مغرب کی طرف دیکھتے ہیں مگر مجال ہے کہ اچھی چیز کو اپنانے کے لیے اپنا رُخ مغرب کی طرف کرلیں۔ گزشتہ دنوں یورپی شہر گرینوبل کے مئیر کی جانب سے ایک اہم فیصلہ آیا ہے جس کے مطابق سڑکوں پر پھیلے بل بورڈ کی جگہ درختوں کا لگانے کے فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ شاید وہاں پیسوں کی اہمیت سے زیادہ انسانی جان کی اہمیت ہے۔

اگر ہم دنیا میں ہونے والی کچھ تحقیقی شواہد کا جائزہ لیں تو سوئیڈن نیشنل روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ انسٹیوٹ کے ایک تحقیقی جرنل میں شائع ہونے والے تحقیقی مطالعے کے مطابق سڑکوں پر آویزاں ڈیجیٹل سائن بورڈز پر جب ڈرائیور کی نظر پڑتی ہے تو تقریباً 2 سیکنڈ کے لئے اُس کا دھیان سڑک کے بجائے اشتہارات پر چلا جاتا ہے جس کے نتیجےمیں حادثے کا خدشہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ امریکی ریاست ورجینیا میں 2006 میں  نیشنل ہائی وے  ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن کے تحت کی جانے والی تحقیق کے نتائج بھی یہ بتاتے ہیں کہ اگر ڈرائیور کی توجہ 2 سیکنڈز سڑک سے محو ہوجائے تو حادثے کےامکانات بڑھ جاتے ہیں۔

درج بالا تحقیقی شواہد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آنکھیں کھول کر باشعور انداز سے جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح غیر قانونی اور بے ہنگم انداز میں لگے بل بورڈز کس طرح حادثات کا سبب بن سکتے ہیں۔ شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت کو اس سنگین مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ بل بورڈز اور سائن بورڈز کے قوانین پر عمل درآمد کیلئے قائم متعلقہ اداروں کو ان اصول و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہوگا، بل بورڈز نصب کرنے کے لئے باقاعدہ کوئی فاصلہ مقرر ہونا چاہئیے اور اس کے ساتھ  رنگ اور  سائز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، لہذا ایسے قوانین ہوں جو ان تمام نزاکتوں کا خیال رکھ سکیں اور انسانی نفسیات کے پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اِس بات کا اندازہ لگاسکیں کہ کون سے عوامل کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں اور کس  انداز میں  بل بورڈز نصب کئے جائیں کہ دوران ڈرائیونگ عوام الناس کی  توجہ کم از کم بھٹک سکے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

خوشنود زہرا

خوشنود زہرا

بلاگر آزادی اظہار رائے کے ساتھ تمام بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی قائل ہیں، تحقیقی صحافت میں خاص دلچسپی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔