انٹرنیٹ دوستی کا ماضی، حال اورمستقبل!

سید اویس مختار  ہفتہ 20 جون 2015
فیس بُک اور ٹویٹر پر آپ کی پرسنل پروفائل جسے جس قدر بھی محفوظ بنایا جائے غیر محفوظ ہی رہتی ہے۔ فوٹو:فائل

فیس بُک اور ٹویٹر پر آپ کی پرسنل پروفائل جسے جس قدر بھی محفوظ بنایا جائے غیر محفوظ ہی رہتی ہے۔ فوٹو:فائل

کچھ دن قبل نوجوانوں کی جانب سے منعقد کردہ ایک ٹیلنٹ شو میں جانا ہوا، نوجوانوں نے جم کر اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ کیا۔ موسیقی، ڈانس، مزاح، ماڈلنگ، اس ہی شو میں ایک تقریری سیشن بھی تھا، رحیم اللہ یوسف زئی جو کہ ماس کمیونیکیشن کے طالبعلم ہیں نے انٹرنیٹ پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی باہم دوستی کے مُضر اثرات پر ایک نہایت پیاری تقریر کی، تقریر کے الفاظ میرے ذہن میں اترتے جارہے تھے، مجھے وہ دور یاد آنے لگا جب میں نَیا نیا انٹرنیٹ کی اس دنیا میں داخل ہوا تھا۔
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ایم آئی آر سی، آئی سی کیو اور ایم ایس این میسنجر استعمال ہوا کرتا تھا۔ فیس بُک کی طرح اس میں تصویر، ٹائم لائن، دوستی، وغیرہ کا آپشن نہیں ہوتا تھا (یاد رہے میں کافی پرانا یوزر ہوں) لہذا دوستیاں بنانے کیلئے آپ کو ساری محنت خود ہی کرنی پڑتی تھی، سب سے پہلے تو جس سے بات کرنی ہے اس کا ایمیل ایڈریس معلوم کرنا ہی بہت بڑا معرکہ ہوا کرتا تھا، اس چکر میں کبھی کسی اور کا ایمیل ایڈریس ہاتھ لگ جاتا، کبھی دوست احباب آپ کو غلط ایڈریس پکڑا دیتے اور آپ مہینوں بیوقوف بنتے رہتے، اس حوالے سے مجھے ایک مزیدار قصہ یاد ہے جس کا مرکزی کردار میں خود ہوں۔
ہوا یوں کہ ایک دوست (میری فرینڈ لِسٹ میں ابھی بھی ایڈ ہیں) نے ہماری ایک کلاس فیلو کا ایمیل ایڈریس مانگا جس سے ہماری کافی دوستی تھی، یوں تو ہم خدائی خدمت گار تھے لیکن اس دن دل نے شرارت پر لَلچایا تو ایک الگ ایمیل ایڈریس بنا کر اُن کو تَھما دیا۔ فیک پروفائل تو آج کے فیس بُکی دور کی پیداوار ہیں ہم تو فیک ای میل کے دور کے ہیں۔ خیر ہمارے دوست صاحب نے خوشی خوشی چیٹ شروع کردی۔ اِدھر ہم نے ان کو 15 دِن تک چکر دینے کے بعد ان سے پھول کی فرمائش کردی وہ بھی عین چھٹی کے وقت جب گیٹ کے پاس کافی رَش ہوتا ہے، موصوف نے اگلے ہی دن لال گلاب ہاتھ میں پکڑا اور ہماری اُن دوست کے پاس آدھمکے۔۔۔ آگے کی کہانی یہ ہے کہ کافی دن ناراض رہے، لیکن دوست تھے آخر جاتے بھی کدھر۔۔۔

تو میں کہہ رہا تھا کہ پہلا مرحلہ ایمیل ایڈریس کا معلوم ہونا اور پھر بات چیت کی شروعات، فیس بُک کی طرح اس وقت ایم ایس این میں تصویر کا آپشن نہیں ہوا کرتا تھا، نہ ہی فائل ٹرانسفر ہوا کرتی تھی (یا پھر انٹرنیٹ سروس کی جانب سے فائل ٹرانسفر بلاک ہوتی تھی) خیر۔۔ پھر تصاویر کا تبادلہ ہوا کرتا تھا اور پھر تانگ فون نمبر پر آکر ٹوٹتی ۔۔ پھر وہی فون پر باتیں ۔۔ اور بالآخر زندگیوں کا تباہ ہونا۔۔۔ آپ بولیں گے کہ اویس کس قدر بےتُکا ہے، اتنی اچھی کہانی لکھتے لکھتے اپنا مولوی پن نہیں چھپا سکا۔
لیکن حقیقت یہی ہے، نیو ملینیئم کی شروعات تھی، پاکستان میں انٹرنیٹ کا ابتدائی دور تھا اور پاکستان میں اخبارات اس ہی قسم کی کہانیوں سے بھرے ہوتے تھے کبھی خبر آتی کے کسی نے کسی لڑکی سے دوستی کے لارے دے کر اس کو سارے عالم میں بدنام کیا گیا، تو کبھی انسانی درندوں نے کسی کے ساتھ عزت کے کھلواڑ کی ویڈیو بنا کر عرصہ دراز تک اس کو بلیک میلنگ کا شکار بنایا اور پھر وہ پاکستانی ہیکرز کا کارنامہ جس میں نواز دور میں چند نوجوانوں کو گرفتار کرکے سی آئی اے کے حوالے کیا گیا، پورے ملک کی جو بدنامی ہوئی وہ الگ۔ غرض انٹرنیٹ کے حوالے سے ہونہی چند یادیں آج یاد آرہی تھی اور پھر یادوں کا سلسلہ جب طویل اور پھر تلخ ہوتا گیا تو اس کو صفحہ قرطاس پر اُنڈیل دیا۔۔

آج، درندے بھی وہی ہیں، طریقے بھی وہی ہیں، مگر اب کی بار ان کے ہتھیار تبدیل ہوچکے ہیں، یہ ہتھیار مزید جدید ہوچکے ہیں۔ اب ایم ایس این کی بجائے فیس بُک اور ٹویٹر جس میں آپ کی پرسنل پروفائل جسے جس قدر بھی محفوظ بنایا جائے غیر محفوظ ہی رہتی ہے۔ آپ کون ہیں، کیا ہیں، کیا کرتے ہیں، کون کون آپ کے دوست ہیں، آپ کیا ’’لائیک‘‘ کرتے ہیں۔ سب آپ کی پروفائل پر موجود ہے۔ اگر آپ اس جدید ٹیکنالوجی کا مفید استعمال کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً اس حوالے سے بہت سے مفید آپشن موجود ہیں اور اگر آپ اس کے غلط استعمال کے ساتھ ان ہی بھیڑیوں کا شکار بننا چاہتے ہیں تب بھی آپ کے سامنے تمام راستے عیاں ہیں، فرق صرف ہے تو اس بات کا کہ آپ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں!

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔