رنگوں کی آڑ میں بے رنگ زندگی

سید امجد حسین بخاری  پير 29 جون 2015
قوم کے نوجوانوں کو رنگوں کی آڑ میں بے رنگ زندگی کی جانب جانے سے روکا جائے۔فوٹو:فیس بک

قوم کے نوجوانوں کو رنگوں کی آڑ میں بے رنگ زندگی کی جانب جانے سے روکا جائے۔فوٹو:فیس بک

مجھے رنگوں سے پیار ہے، ہر رنگ میرے لئے پُرکشش ہے، مجھے دیوالی کا شوق نہیں مگر دیوالی کے رنگ مجھے بہت پیارے لگتے ہیں، میرا گھر ایک پہاڑ کی چوٹی پر ہے اکثر اوقات ہمارے ہاں بارشیں برستی ہیں، ان بارشوں کے بعد جب سورج کی کرنیں زمین کا رخ کرتی ہیں تو گھر کے سامنے قوس قزاح بن جاتی ہے، مجھے قوس قزاح کے رنگ بہت بھلے لگتے ہیں، مجھے اپنے گاوں میں لگے چنار کے سرخ پتے، بہار کے رنگ ہوں یا خزاں میں درختوں پر لگے پتوں کی پیلاہٹ ہر موسم ہر رنگ مجھے مسرور کرتا ہے۔

لیکن گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی پروفائل پیکچرز رنگوں سے مزین دیکھیں تو عجیب سا لگا، آئے روز سوشل میڈیا پر نت نئے انداز دیکھنے کو ملتے ہیں، کبھی کوئی انداز اپنایا جاتا ہے اور کبھی کوئی رنگ، مجھے رنگین شناختی تصاویر (ڈسپلے پیکچرز) بالکل بھی اچھی نہیں لگیں، پھر میں نے کوشش شروع کی کہ ان رنگوں کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ تحقیق کی جائے اور تحقیقاتی صحافی ہونے کا اعزاز حاصل کیا جائے، جوں جوں میں ان تصاویر کے بارے میں معلومات جمع کرتا جارہا تھا میرے لئے حواس قابو میں رکھنا مشکل ہو رہے تھے۔ میرے علم میں جو بات سب سے زیادہ شدت کی حامل تھی وہ یہ کہ امریکہ میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دے دی گئی، جس کی خوشی میں ہم جنس پرستوں نے اپنے حقوق کے لئے ایک ریلی نکالی اور اسی مناسبت سے فیس بک نے خصوصی فیچر متعارف کرادیا ہے جس کے استعمال کرنے سے خود کار طریقے سے آپ کی شناختی تصویر ہم جنس پرستوں کے جھنڈے کے رنگ میں تبدیل ہوجائے گی۔

خوشنما رنگوں کو دیکھ کر ہر فرد اپنی تصویر کو بدل رہا ہے۔ فیس بک پر میرے پاس ایسے درجنوں افراد ایڈ ہیں جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے اپنی آئی ڈی کو رنگین بنایا ہوا ہے۔ میرے بھولے پاکستانی بھائیو، بہنو،عزیزو اور دوستو! ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر منزل کی جانب سفر اختیا ر نہ کریں، کیونکہ کسی بھی عمل کو اختیار کرنے سے پہلے اس کے بارے میں تحقیق کرنا خود انسان کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اب چہرے بگاڑ بگاڑ کر سیلفیاں اتارنا ہو یا ڈبس  میش کے ذریعے عجیب الخلقت کرتوت سرزد کرنا کیا یہی کام آپ کا رہ گیا ہے؟ قصہ چل رہا تھا ہم جنس پرستی کی کارستانیوں کا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اب آپ کہیں گے کہ ارے صاحب جانے دیجئے ناں، اتنا تو چلتا ہے نا، لیکن آپ کچھ بھی کہیں مجھے تو یہ سب کچھ بہت ہی عجیب لگ رہا ہے۔ دھڑا دھڑ فیس بک پر اپنی تصاویر تبدیل کرتے پاکستانی مرد وزن کو دیکھ کر تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستانی نوجوان سارے ہی ہم جنس پرست ہیں۔ لیکن حد تو تب ہوئی جب میرے ایک جاننے والے صاحب کی قوس قزح کے رنگوں سے مزین تصویر میری آنکھوں کے سامنے سے گزری۔ ماشاء اللہ موصوف کی دو پیارے پیارے بیٹے ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ سرکاری عہدے پر براجمان ہیں۔ مجھے تو پریشانی لاحق ہوگئی، فوری نمبر گھمایا اور ان سے دریافت کیا جناب آپ نے کبھی ظاہر ہی نہیں ہونے دیا، معاشرے میں رہنے کے لئے ایک دوشیزہ کے ساتھ نکاح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب یہ کام بھی، لاحول ولاقوۃ، صاحب کب ملا رہے ہیں ہمارے بھابے (بھابی کا متبادل) سے۔ میری اس بات پر تو وہ بہت سیخ پا ہوگئے، اگر میں فوری سنجیدہ رویہ اختیار نہ کرتا تو وہ مجھے کمال کی صلواتیں سنانا شروع کردیتے، میں نے ان سے کہا جناب یہ جو آپ کی قوس تصویر پر بنی قوس قزح ہے ناں یہ بڑے بڑوں کو شک میں مبتلا کردینے کے لئے کافی ہے، اور یہ کہنا ہی تھا کہ موصوف کی سٹی گم ہوگئی، فیس بک پر تشریف لائے اور رنگوں والی تصویر گدھے کے سینگوں کے مصداق فوری طور پر غائب ہوگئی۔

اب ایک اور صاحب کا کمال تو سنئے، اچھے خاصے پڑھے لکھے، مذہبی محافل میں ان کی گفتگو تو ایسے جیسے ہونٹوں سے گلاب جھڑ رہے ہوں، میرے احباب میں مغرب کے سب سے زیادہ نقاد سمجھے جاتے ہیں۔ میں نے جب ان کا خوبصورت چہرہ رنگوں سے مزین دیکھا تو سب سے پہلے اس کا سکرین شاٹ لیا اور اپنے پاس محفوظ کیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ انہیں ٹیلی فون کیا تو ہیلو سے آغاز کیا حالانکہ انہیں ہیلو سے اتنی چڑ ہے جتنی خواتین کو موٹے اور گنجے مردوں سے، پاکستانی پولیس کو ایمانداری سے اور ہمارے اکثر سیاستدانوں کو ملک کی خدمت سے، جناب موصوف نے تو سلام کیا نہ ہی خیریت دریافت کی، مجھے مغرب زدہ ہونے کے طعنے دینے شروع کردیے۔ ایک طویل لیکچر دیا اور اب تو ٹھیک طرح سے یاد بھی نہیں کیا کیا سنا دیا۔ خیر وہ سانس لینے کے لئے چند لمحے رکے تو میں نے ان سے استسفار کیا کہ حضور کیا ہوا اگر میں مغرب زدہ ہوں، لیکن آپ کی طرح تو فطرت سے جداگانہ کام نہیں کرتا، میں نے مغرب کی اچھی باتوں کو اپنایا ہے جو میرے دین، میرے کلچر اور معاشرے سے متصادم نہ ہوں مگر آپ نے تو حد ہی پار کردی۔ مغرب کی اتنی سنگین برائی کو اپنایا ہوا ہے؟ اور مجھے آج تک احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ آپ ہم جنس پرست ہیں۔بعد میں جو میں نے سنا وہ ناقابل تحریر ہے۔

اب قوس قزح والی تصویر کے جوغیر شادی شدہ افراد پر اثرات ہوئے ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ درجن کے قریب بریک اپ کی اطلاعات ہیں، ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھانے والے جب اس طرح کی حرکتیں کریں گے تو یہی ہوگا، میرے ایک دوست کے ساتھ تو ظلم کی انتہاء ہوگئی۔ ایک محترمہ سے علیک سلیک تھی، ان کی تصویر جب محترمہ کی نظروں سے گزری تو محترمہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوری موصوف کو فیس بک پربلاک کیا موبائل فون پر نمبر بلیک لسٹ پر لگایا اور جناب میرے دوست اب ایک لمحے کی خطا کی سزا بھگت رہے ہیں۔ روزانہ بازار کا چکر لگا رہے ہیں اور محترمہ کا راستہ تک رہے ہیں، راتوں کو چین ہے نہ دن کو سکون بس ان کی تو زندگی ہی اجیرن بنی ہوئی ہے۔

ویسے دیکھا جائے تو ہم بھی ناں بڑے ہی بھولے پاکستانی ہیں، جو انکل سام نے بھیج دیا اسے ہم الہامی حکم سمجھ کر بلا تحقیق اپنالیتے ہیں، انکل ہمارے داخلی و خارجی امور میں مختار کل ہیں، ان کی مرضی کے بنا پارلیمنٹ ہاوس کا دروازہ بھی نہیں کھلتا، ان کی پیروی ہمارے لئے لازم و ملزوم ہوچکی ہے۔ ایک لمحے کو غور فرمائیں اور پھر یہ کہا جائے کہ کیا آپ کے گھر والوں کو اس بات کا علم ہے کہ آپ ایسے افراد کی فہرست میں شامل ہیں، کیا آپ خواجہ آصف صاحب کا زبان زد عام ڈائیلاگ ’’کوئی شرم ہوتی ہے ۔۔۔ کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ سننا پسند کریں گے۔بھیڑچال چلنے کی بجائے اپنے لئے منزل خود منتخب کریں، مجھے تو ایسا لگ رہا ہے نوجوان طبقے کو ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا پڑے گا، روزانہ نت نئے فتور ذہنوں میں تخلیق ہورہے اور ہماری غلامانہ ذہنیت اس کی تقلید کئے جاتی ہے۔

رہی بات ہم جنس پرستی کی تو اسے آزادی کا نام دیا گیا، ارے یہ کیسی آزادی ہے یہ تو نفسیاتی علاج کا متقاضی معاملہ ہے۔ تحریر کی گئی سطور کے بعد اس بات میں قطعاََ کوئی رائے ایسی نہیں ہے کہ ہم جنس پرستی ایک غلط اور قابل سزا جرم ہے۔ پاکستان میں چند سال بیشتر کراچی میں ہم جنس پرستوں کی جانب سے ایک مارچ کا اہتمام کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے مخصوص رنگوں والے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور یہ مارچ انہوں نے مشہور شاہراہ ’’شاہراہ فیصل‘‘ پر کیا تھا۔ جب کہ امریکی سفارتخانے نے بھی ہم جنس پرستوں کا ایک خصوصی پروگرام منعقد کیا جس میں پاکستان بھر سے ہم جنس پرستوں نے شرکت کی۔ گو کہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی سرگرمیاں زیرزمین منعقد ہوتی ہیں اور ان کے پروگرامات باقاعدگی سے منعقد کئے جاتے ہیں، تاہم حکومت کی جانب سے ان سے چشم پوشی خوفناک صورت حال کو جنم دے سکتی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں ہم جنس پرستوں کی سرگرمیاں بھی زبان زد عام ہیں۔ ایسے حالات میں قوم کو ہم جنس پرستی کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرانا لازمی ہے۔

فریڈم آف ایکسپریشن کی آڑ میں قوم کو تباہی کی جانب لے جانے کے اقدام کی بیخ کنی کی جانی چاہئے اور ایسے افراد اور این جی اوز کا سراغ لگانا لازمی ہے جو پاکستان میں ہم جنس پرستی کے فروغ کے لئے سرگرداں ہیں، قوم کے نوجوانوں کو رنگوں کی آڑ میں بے رنگ زندگی کی جانب جانے سے روکا جائے ورنہ کوئی بعید نہیں ہم بھی قوم لوط جیسے عذاب میں مبتلا ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔