پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے المیّے!سقوط ِڈھاکہ میں بھارت کا کردار

سید عاصم محمود  اتوار 5 جولائی 2015
دراصل فوجی جنتا نہیں چاہتی تھی کہ عوامی لیگ کے غنڈے بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں پر جو خوفناک حملے کررہے ہیں، انہیں مغربی پاکستان کا میڈیا نشر یا شائع کرے۔ فوٹو : فائل

دراصل فوجی جنتا نہیں چاہتی تھی کہ عوامی لیگ کے غنڈے بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں پر جو خوفناک حملے کررہے ہیں، انہیں مغربی پاکستان کا میڈیا نشر یا شائع کرے۔ فوٹو : فائل

جون کے پہلے ہفتے کے لیے بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ وہاں وہ فخریہ کہتے پائے گئے: ’’متحدہ پاکستان توڑنے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا۔‘‘ مودی عام شخصیت نہیں اس بھارت کے حکمران ہیں جو علاقائی سپر پاور بننے کا خواب رکھتا ہے ۔ ان کے بیان نے دنیا والوں پر دو تلخ سچائیاں آشکار کر دیں: اول یہ کہ بھارت اخلاقی و بین الاقوامی اصول نظر انداز کرتے ہوئے پڑوسی ملک کے خلاف سرگرم رہا اور اب بھی ایسا ہی کررہا ہے۔ دوسرے یہ کہ مودی پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہے۔ اس دشمنی کا مظاہرہ وہ عمل و کلام‘ دونوں سے دکھاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر(United Nations Charter)کی رو سے پڑوسی ممالک کے امور میں مداخلت کرنا جرم ہے۔ اسی لیے مودی کا چشم کشا بیان آنے کے بعد پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ متحدہ پاکستان توڑنے میں بھارتی حکمران ٹولے کے گھناؤنے کردار اور ’’اعتراف جرم‘‘ کا نوٹس لیں۔مشرقی پاکستان کے عوام و خواص کو وفاقی حکومت سے جو سیاسی ‘ معاشی ‘ لسانی اور معاشرتی شکایات تھیں‘ ان کی اہمیت اپنی جگہ ،مگر یہ حقیقت ہے کہ بھارتی حکومت نے بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے مابین اختلافات کو خوب ہوا دی۔ یہ چلن خصوصاً جنگ1965ء میں منہ کی کھانے کے بعد شروع ہوا تاکہ ہار کی خفت مٹائی جا سکے۔

اس زمانے میں بھارتی خفیہ ایجنسی’’آئی بی‘‘(انٹیلی جنس بیورو) اندرون و بیرون ملک جاسوسی کی سرگرمیاں انجام دیتی تھی۔ آئی بی نے مشرقی پاکستان میں اپنے ایجنٹ بھجوائے اور وہاں کئی دانش وروں اور صحافیوں کو خرید لیا۔ یہ بھارتی ایجنٹ میڈیا میں خوب پروپیگنڈا کرنے لگے کہ مغربی پاکستان کے حاکم بنگالیوں کا استحصال کر رہے ہیں۔2012ء میں بھارتی خفیہ ایجنسی،را کے سابق چیف، بی رامن نے ایک مضمون بہ عنوان ’’بنگلہ دیش کی آزادی میں را کا کردار(Role of RAW in Liberation of Bangladesh) تحریر کیا۔ اس میں بی رامن لکھتا ہے:

’’مشرقی پاکستان جانے والے بھارتی خفیہ ایجنٹوں کو پانچ ذمے داریاں سونپی گئیں:(1)پاک افواج کی عسکری تنصیبات اور سرگرمیوں کی خبریں بجھوائیں(2)مخفی تربیتی مراکز میں بنگالی علحیدگی پسندوں کو عسکری تربیت دیں(3)بنگالی سرکاری افسروں کو اپنے دام میں گرفتار کریں تاکہ وہ ہر سطح پہ علیحدگی پسندوں سے علمی تعاون کر سکیں(4)ناگا اور ماؤ قبائل نے آئی ایس آئی کے تعاون سے چٹاگانگ کی پہاڑیوں پہ جو کیمپ بنا رکھے ہیں،انھیں نشانہ بنایا جائے۔(5)بنگالیوں پہ ظلم وستم کی جھوٹی خبریں پھیلا کر بنگالی عوام کو حکومت اور پاک افواج کے خلاف بھڑکایا جائے۔‘‘

درج بالا حقیقت سے عیاں ہے ،بھارتی حکمران ٹولہ بہت پہلے متحدہ پاکستان توڑنے کے لیے سرگرم ہو چکا تھا۔اس نے 1971ء کی جنگ اٹکل پچو انداز میں نہیں چھیڑی جیسا وہ دعوی کرتا ہے۔مثلاً کہا جاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن بھارتی ایجنٹ نہیں تھا۔ تاہم مشہور بھارتی رسالے‘ دی السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا کا ایک چشم کشا مضمون کچھ اور خبر دیتا ہے۔ ’’دی سپائی ماسٹر‘‘ نامی یہ مضمون رسالے کی 23دسمبر 1984ء والی اشاعت میں شائع ہوا۔ مضمون میں را کے بانی اور پہلے سربراہ، آر این کاؤ کے ’’کارنامے‘‘ بیان کیے گئے ہیں۔ مضمون افشا کرتا ہے:

’’آئی بی کے ایجنٹوں اور شیخ مجیب الرحمن کی پہلی ملاقات 1963 میں انجام پائی۔ بعدازاں 1968میں را کا قیام عمل میں آیا‘ تو بھارتی ایجنٹ مشرقی پاکستان میں چپے چپے پہ پھیل گئے۔صوبائی حکومت کا کوئی فیصلہ ان سے اوجھل نہ رہتا۔ ایک بار شیخ مجیب بشمول میجر ضیا الرحمن اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ملا۔ اس میٹنگ میں آر این کاؤ بھی شریک تھا۔اس ملاقات کے بعد میجر ضیا الرحمن نے کاؤ کی بابت تبصرہ کیا ’’یہ تو مجھ سے بھی زیادہ ہمارے ملک (مشرقی پاکستان) کے بارے میں جانتا ہے۔‘‘

1963ء میں یا اس اگلے سال ہی مشرقی پاکستان میں بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لیے بھارتی حکومت نے آئی بی میں ایک اسپیشل ونگ بنا دیا ۔ اس ونگ کا سربراہ آئی بی کے مستعد اور چالاک افسر، کے سنکرن نائر (K.Sankaran Nair)کو بنایا گیا۔(یہ شخص بعد میں را کا پہلا نائب سربراہ مقرر ہوا اور 1977ء میں سربراہ بھی رہا۔) سنکرن نائر کی زیرقیادت مشرقی پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنٹوں کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے پاک بحریہ اور سول سروس سے وابستہ بعض ملازمین کو بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ اس کا مقصدپاک فوج کے خلاف اعلان جنگ کرنا تھا۔ بغاوت تاریخ میں ’’اگر تلہ سازش کیس‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

متحدہ پاکستان کے خلاف بغاوت
بھارت کا مشہور انویسٹی گیٹیو صحافی‘ اشوک رائنا اپنی کتاب ’’Inside Raw: The Story of India’s Secret Service‘‘میں لکھتا ہے: ’’ بغاوت کے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے 1965ء میں (بھارتی شہر)اگر تلہ میں شیخ مجیب الرحمن اور سنکرن نائر کی ملاقات ہوئی ۔‘‘ منصوبہ یہ تھاکہ پاک افواج و حکومت میں موجود بنگالی افسروں کو ساتھ ملا کر ان سے بغاوت کرائی جائے۔ چناں چہ عوامی لیگ کے رہنما حکومت و فوج میں شامل بنگالی افسروں سے رابطہ کرانے لگے۔ ان کے سامنے یہی رونا رویا جاتا کہ حکومت ہر شعبے اور سطح پر بنگالیوں کا استحصال کررہی ہے۔

رفتہ رفتہ پاک فضائیہ، بحریہ اور بری فوج کے کئی بنگالی افسر و جوان شیخ مجیب الرحمن سے آملے اور مسلح بغاوت کا منصوبہ پروان چڑھنے لگا۔ تاہم باغیوں کی جلد بازی کے باعث یہ خطرناک منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ہوا یہ کہ آئی بی نے ان بنگالی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اسلحے کی ترسیل میں تاخیر ہوگئی۔ اس پر بعض باغیوں نے ڈھاکہ میں ایسٹ بنگال رائفلز کے اسلحہ خانے پر حملہ کردیا۔ وہ وہاں سے اسلحہ چرا کر بغاوت کرنا چاہتے تھے۔ یہ وسط 1967ء کی بات ہے۔

تاہم اسلحہ خانے کے محافظوں نے حملہ ناکام بنا دیا۔ دو باغی مارے گئے ،بقیہ گرفتار ہوئے یا بھاگ اٹھے۔ بعدازاں گرفتار ملزموں نے اس بغاوت کا انکشاف کیا جسے ’’اگرتلہ سازش‘‘ کہا گیا۔حکومت نے سازش سے وابستہ تقریباً 1500 بنگالی گرفتار کیے۔ ان میں سے 35 باغیوں پر جون 1968ء سے مقدمہ چلنے لگا۔ ملزموں میں شیخ مجیب اورحکومت اور پاک افواج کے بنگالی افسر شامل تھے۔

اگرتلہ سازش کے ذریعے ثابت ہوگیا کہ شیخ مجیب الرحمن علیحدگی کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ وہ اب مشرقی پاکستان کو علیحدہ مملکت بناکر وہاں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اور آنے والے وقت نے بھی دیکھا کہ حکومت پاکر شیخ مجیب الرحمن آمر بن بیٹھے جبکہ ان کے رشتے دار کرپشن کے ذریعے راتوں رات کروڑ پتی ہوگئے۔لیکن اس وقت عام بنگالیوں کی نظر میں شیخ مجیب الرحمن نجات دہندہ تھے۔ انہیں یقین تھا کہ خود مختاری پاکر غریب بنگالیوں کی حالت سدھر جائے گی۔

چناں چہ بنگالی عوام مقدمے کے خلاف زبردست مظاہرے کرنے لگے۔ حکومت نے شیخ مجیب کو قید کررکھا تھا، اب ان کی رہائی کا مطالبہ ہونے لگا۔یوں راتوں رات شیخ صاحب کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرتلہ سازش کیس نے شیخ مجیب کو بنگالیوں کا ہیرو بنادیا۔

وفاقی حکومت بنگالی عوام کو متحدہ پاکستان سے متنفر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ چناں چہ جنوری 1969ء میں شیخ مجیب اور عوامی لیگ کے لیڈر رہا کر دیئے گئے۔ اب وہ کوشش کرنے لگے کہ حکومت ان کے مشہور زمانہ چھ نکات منظور کرلے۔ مگر ان کی منظوری کا مطلب مشرقی پاکستان کو علیحدہ مملکت بنانا تھا۔ اسی لیے صدر ایوب خان نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

متحدہ پاکستان میں صدر ایوب خان غیر مقبول ہوچکے تھے۔ چناں چہ انہوں نے مارچ 1969ء میں اقتدار بری فوج کے سربراہ، جنرل یحییٰ خان کو سونپا اور گھر سدھار گئے۔ بدقسمتی سے جنرل یحییٰ ایک نااہل حکمران ثابت ہوئے ۔ وہ سیاست کی بساط پر چالیں چل کر شیخ مجیب الرحمن کو شکست نہ دے سکے۔

آفات نے عوامی لیگ کو مقبول بنایا
جنرل یحییٰ نے اکتوبر 1970ء میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ تاہم اگست ستمبر میں مشرقی پاکستان وسیع پیمانے پر سیلابوں کا نشانہ بن گیا۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے۔ چناں چہ الیکشن دسمبر میں ہونا قرار پائے۔ شیخ مجیب نے الزام لگایا کہ حکمرانوں کی نااہلی ہی سے سیلابوں نے تباہی مچائی کیونکہ وہ مشرقی پاکستان میں ایک ڈیم نہ بناسکے۔

نومبر 1970ء میں ایک اور قدرتی آفت، زبردست سمندری طوفان نے مشرقی پاکستان پر دھاوا بول دیا۔ اس نے بھی لاکھوں لوگوں کی زندگیاں متاثر کر ڈالیں۔ بدقسمتی سے وفاقی حکومت انہیں ٹھوس امداد نہ دے سکی۔ یوں مشرقی پاکستان میں یہ خیال جڑ پکڑگیا کہ علیحدگی کے بعد ہی ملک میںعوام دوست حکومت جنم لے گی۔ ان دونوں قدرتی آفتوں نے علیحدگی پسند عوامی لیگ کی مقبولیت میں دگنا اضافہ کر دیا۔

دسمبر 1970ء میں انتخابات ہوئے تو عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی 313 نشستوں میں سے 167 نشستیں جیت لیں۔ پیپلزپارٹی 88 سیٹیں جیت کر دوسرے نمبر پر رہی۔ زبردست کامیابی پاکر شیخ مجیب نے اعلان کردیا کہ نیا آئین چھ نکات پر مبنی ہوگا۔ (پچھلا آئین جنرل یحییٰ نے منسوخ کردیا تھا۔)اس بیان نے مغربی پاکستان میں کھلبلی مچادی اور فوجی جنتا نے طے کیا کہ شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار نہ سونپا جائے۔

بہاریوں کے خلاف دہشت گردی
شیخ صاحب نے اقتدار ہاتھ سے جاتا دیکھا، تو مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی شروع کرادی۔ عوامی لیگ کے غنڈے بہاریوں، 1947ء میں آنے والے مہاجرین اور متحدہ پاکستان کے حامی بنگالیوں پر حملے کرنے لگے۔ یہ خانہ جنگی اوائل مارچ 1971ء سے شروع ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے ہزارہا، بہاری و دیگر غیر بنگالی مار ڈالے۔ ان کے گھر بار اور کاروبار تباہ کردیئے۔

یہ خوفناک غنڈہ گردی روکنے اور بہاریوں و غیربنگالیوں کی جانیں بچانے کے لیے 25 مارچ 1971ء سے پاک افواج نے فوجی آپریشن شروع کردیا۔ عوامی لیگ نے پورے مشرقی پاکستان میں یہ افواہ پھیلادی کہ فوجی بنگالیوں کو مارنے آرہے ہیں۔ یہ صریح جھوٹ تھا جو حسب معمول عوام کو پاک افواج سے برگشتہ کرنے کی خاطر پھیلایا گیا۔اس افواہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں بنگالی فرار ہوکر بھارت پہنچ گئے۔ تعداد ایک کروڑ تک بتائی جاتی ہے۔ مشرقی پاکستان سے لاکھوں مہاجرین کی آمد پر اندرا گاندھی حکومت نے بظاہر واویلا مچایا مگر بھارتی حکمران ٹولہ یہ دیکھ کر بہت خوش تھا …کیونکہ پاکستان توڑنے کا لمحہ آپہنچا تھا۔

را کی سازشیں
تب تک بیرون ممالک میں جاسوسی اور دہشت گردی کرانے کے لیے را کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ چناں چہ مشرقی پاکستان میں پاک افواج کے خلاف کارروائیاں کرنے اور باغیوں کو مدد دینے کا منصوبہ را کے حوالے کردیا گیا۔را کا سربراہ، آر این کاؤ تھا۔ اس نے را کے سیکڑوں ایجنٹ مشرقی پاکستان بھجوا ئے تھے جو علیحدگی پسند تحریک کو کامیاب کرنے کی سعی کرنے لگے۔ ان سے مسلسل رابطہ رکھنے کی خاطر پاک بھارت سرحد پر را کے کئی مراکز تعمیر کیے گئے۔ انہی ایجنٹوں کے ذریعے عوامی لیگ کے غنڈوں کو اسلحہ بھی ملا جو بہاریوں وغیرہ پر استعمال ہوا۔

اپریل1971 ء میں بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا، بھارت آنے والے نوجوان بنگالیوں کو عسکری تربیت دے کر مشرقی پاکستان بھیجا جائے۔ یوں مغربی اور مشرقی پاکستان کے لوگ آپس میں لڑ لڑ کر کٹ مرتے، جبکہ بھارتی یہ تماشا دیکھ کر خوشی سے بغلیں بجاتے۔

بھارتی فوج اور راکو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ نوجوان بنگالیوں کو عسکری تربیت اور اسلحہ فراہم کریں۔ یہ کام مشکل نہ تھا کیونکہ مشرقی پاکستان میں شہروں اور دیہات سے لے کر سرحد تک بھارتی ایجنٹ پہلے ہی عوامی لیگ کی قیادت سے رابطے میں تھے۔درحقیقت 25 مارچ کے دن ایک را ایجنٹ ہی نے شیخ مجیب الرحمن کو اطلاع دی تھی کہ پاک فوج انہیں گرفتار کرنے آرہی ہے۔ شیخ صاحب نے خود تو گرفتاری دے دی، مگر بقیہ قیادت کو بھارت فرار کرادیا تاکہ وہاں سے مسلح بغاوت کا آغازہوسکے۔

عوامی لیگ کے سبھی بڑے لیڈر مثلاً سید نذر اسلام، تاج الدین احمد، خوندکر مشتاق احمد، قمرالزماں، منصور علی وغیرہ کلکتہ جاپہنچے۔ وہاں را چیف، آر این کاؤ نے انہیں اپنی آغوش سمیٹ لیا۔ کاؤ کے مشورے سے ان لیڈروں نے 17 اپریل 1971ء کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت قائم کردی۔ نیز ’’آزاد بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے ریڈیو اسٹیشن کا آغاز ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان علیحدگی پسند دستوں کے مابین رابطہ ہوسکے۔

اس عبوری بنگلہ دیشی حکومت سے تال میل رکھنے کی خاطر بھارتی حکومت نے پی این بینرجی کو اپنا نمائندہ بنایا۔ یہ را کا ڈائریکٹر تھا ۔اسی کی رہنمائی میں بنگالی باغیوں کی فوج ’’مکتی باہنی‘‘ وجود میں آئی جس کا کمانڈر کرنل عطا الغنی عثمانی کو بنایا گیا۔ یہ پاک بری فوج کا ریٹائرڈ کرنل تھا۔ماہ اپریل ہی میں را کے تین بڑے افسروں… سنکرن نائر، پی این بینرجی اور بریگیڈیئر ایم بی کے نائر نے بین الاقوامی سرحد کے پے در پے دورے کیے تاکہ منصوبہ تیار ہو سکے۔ بریگیڈیئر نائر را میں ٹیکنیکل ڈویژن کا سربراہ تھا۔

15مئی سے بھارتی فوج اور را نے مل کر بنگالی باغیوں کو عسکری تربیت اور اسلحہ دینے کے لیے ایک منظم آپریشن(Operation Jackpot )شروع کر دیا۔اس سلسلے میں مشرقی پاکستان کے تین اطراف آٹھ سیکٹروں میں تربیتی مراکز قائم کیے گئے۔اس آپریشن کا سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا تھا۔ مراکز میں خصوصی فوج ’’سپیشل فرنٹیئر فورس‘‘ کے کمانڈوز بطور انسٹرکٹر متعین ہوئے۔ یہ کمانڈوز مکتی باہنی کے گوریلوں کو عسکری تربیت دینے لگے۔

اسی دوران را ایجنٹوں کی ہدایت پر پاک افواج میں شامل بنگالی افسروں و جوانوں نے بغاوت کردی۔وہ بعدازاں مکتی باہنی کے گوریلوں سے آن ملے۔جیسے جیسے گوریلوں کی تعداد بڑھی، نئے تربیتی عسکری کیمپ کھل گئے۔ اب وہاں بھارتی فوج کے انسٹرکٹر بھی بنگالی گوریلوں کو ملٹری ٹریننگ دینے لگے۔ مؤرخین لکھتے ہیں ، صرف دو ماہ بعد را اس قابل ہوگئی کہ بنگالی فوجی افسروں، پولیس افسروں اور گوریلوں پر مشتمل طاقتور چھاپہ مار فوج (مکتی باہنی) تشکیل دے سکے۔ چناں چہ جولائی 1971ء میں آر این کاؤ اور کرنل عثمانی نے مل کر پورے مشرقی پاکستان میں گوریلا جنگ شروع کرنے کی حکمت عملی تیار کرلی۔نشانہ پاک افواج، بہاری اور دیگر غیر بنگالی تھے۔ مکتی باہنی میں ’’ایک لاکھ گوریلے‘‘ شامل ہوچکے تھے۔ سبھی کو بھارتیوں نے عسکری تربیت دی اور یوں متحدہ پاکستان توڑنے کا خواب عملی تعبیر کے قریب لے آئے۔

بھارتی حکمران ٹولے ہی نے مکتی باہنی کو ٹینک و بڑی توپیں چھوڑ کر ہر قسم کا جدید اسلحہ دیا ۔ کرنل عثمانی نے مشرقی پاکستان کو گیارہ سیکڑوں میں تقسیم کیا۔نیز مکتی باہنی کے گوریلوں کو دو گروہوں میںبانٹ دیا:

٭ نیامت باہنی… اس میں بنگالی فوجی اور سپاہی شامل ہوئے جو باقاعدہ عسکری تربیت اور پیشہ ور لڑاکے تھے۔ اس فوج نے پاک افواج اور ان کی تنصیبات پر حملے کیے۔ اس گروہ میں بھارتی فوجی بھی شامل تھے۔

٭گونا باہنی… اس میں غیر پیشہ ور گوریلے شامل تھے۔ انہیں ابتدائی عسکری تربیت دی گئی۔ اس فوج کا کام پل، بجلی اور دیگر اہم سرکاری عمارات تباہ کرنا تھا۔ اس فوج کو را کے ایجنٹوں نے دہشت گردی کرنے کی خصوصی تربیت دی۔

اسی دوران را اور عوامی لیگ نے مل کر مشرقی پاکستان کے 62 ہزار دیہات میں گرم پرشید یا دیہی کونسلیں قائم کر لیں۔ ان دیہی کونسلوں سے وابستہ بنگالیوں کی ذمے داری تھی کہ وہ پاک افواج کی نقل و حرکت کی رپورٹ دیں اور مکتی باہنی میں جوان بھرتی کریں۔ یوں ان دیہی کونسلوں کی تشکیل سے بغاوت کو نچلی ترین سطح تک پھیلا دیا گیا۔

اواخر جون 1971ء سے مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ گوریلوں نے بجلی گھروں، اسلحہ ساز فیکٹریوں اور دیگر عسکری و سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنایا۔ ساتھ ساتھ بہاریوں، مغربی پاکستانیوں اور دیگر اردو اسپیکنگ لوگوں کے کاروبار، فیکٹریاں اور دفاتر تباہ کر ڈالے۔مکتی باہنی کے گوریلے اپنی سرزمین سے خوب واقف تھے جہاںخصوصاً مون سون میں نقل و حرکت بہت دشوار ہوجاتی ہے۔ جگہ جگہ پانی کھڑا رہتا ہے اور صرف مقامی گزرگاہوں سے شناسا ہی چل پھر پاتے ہیں۔ مقامی جغرافیہ سے آگاہی نے گوریلوں کو بہت سہولت دی۔ دوسری طرف خاص طور پر پاک بری فوج کی نقل و حرکت مسدود کردی۔

اگست 1971ء میں مشرقی پاکستان میں صرف تین ڈویژن باقاعدہ فوج موجود تھی یعنی تقریباً پچاس ہزار فوجی۔ دوسری طرف مکتی باہنی کے گوریلوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی۔ انہیں بھارتی فوجیوں اور مقامی لوگوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ پاک افواج کی زبردست پیشہ وارانہ صلاحیت اور جذبہ حب الوطنی ہی ہے جس کے بل بوتے پر جوان مسلسل نو ماہ تک مخالفین کا مقابلہ کرتے رہے۔

لیکن نو ماہ کی طویل اور انتہائی دشوار لڑائی نے پاک افواج کی بیشتر توانائی چوس لی اور اس کے وسائل بھی سکڑ گئے۔ چناں چہ دسمبر 1971ء میں بھارتی فوج کے 12 ڈویژن حملہ آور ہوئے، تو انہیں پیش قدمی میں زیادہ دقت پیش نہ آئی۔ اس کے باوجود کئی مقامات پر پاکستانی فوجیوں نے غیر معمولی دلیری و بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا ۔ ان مقابلوں میں ’’معرکہ ہلّی‘‘ یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ اسی معرکے کے ایک شہید، میجر محمد اکرم کو نشان حیدر کا عظیم عسکری اعزاز ملا۔

حقیقت یہ ہے، اگر کسی سپرپاور کی افواج بھی مشرقی پاکستان میں ہوتی، تو وہاں کے حالات میں جنگ ہار جاتی۔ یہ جنگ بھارتی فوج نے ہرگز نہیں جیتی بلکہ فتح کی ذمے دار سیکڑوں منفی وجوہ ہیں جو ایک جگہ جمع ہو گئیں۔بہرحال مشرقی پاکستان میں بھارت کی کھلم کھلا مداخلت اس امر کا بین ثبوت ہے کہ وہ اب بھی مملکت پاکستان کے خلاف خفیہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ہمیں اس پوشیدہ و ازلی دشمن سے ہمیشہ چوکنا رہنا ہو گا۔

پاک افواج نے آپریشن سرچ لائٹ کیوں شروع کیا؟
بنگلہ دیش اور بھارت کی حکومتیں مسلسل پروپیگنڈا کرتی ہیں کہ 1971ء میں ماہ مارچ تا دسمبر کے دوران پاک افواج نے ’’تیس لاکھ بنگالی‘‘ مار ڈالے اور دو لاکھ خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔ اس صریح و ننگے جھوٹ پر ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر، جوزف گوئبلز کی روح بھی قبر میں یہ سوچ کر تلملاتی ہوگی کہ دروغ گوئی میں بنگلہ دیشی و بھارتی حکمران ٹولہ اس سے بازی لے گیا۔

اسی طرح مارچ 1971ء میں پاک افواج کے شروع ہونے والے ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ کو ظلم و ستم کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ دہائی دی جاتی ہے کہ فوج نے صوبے میں قتل و غارت کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔ دلچسپ بات یہ کہ پاکستان میںبھی بعض نام نہاد دانشور اس حوالے سے پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے اور معتوب کرتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ محب وطن دانشوروں نے بھی خصوصاً نئی نسل کو نہیں بتایا کہ آخر ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ شروع کرنے کی وجوہ کیا تھیں۔ یہ بہت درد ناک اور عبرت انگیز داستان ہے۔

ہوا یہ کہ جب شیخ مجیب الرحمن کو محسوس ہوگیا کہ اقتدار نہیں مل سکتا، تو انھوں نے طیش میں آ کر پُرتشدد ہڑتال کی کال دے دی۔ یہ 2 مارچ کی بات ہے۔ اب عوامی لیگ کے غنڈوں کو کھلی چھٹی مل گئی کہ وہ بہاریوں، مغربی پاکستانیوں اور پاکستان کے حمایتی بنگالیوں کو اپنا نشانہ بناسکیں۔3 مارچ سے 24 مارچ تک عوامی لیگ کے غنڈوں نے شہروں اور دیہات میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران سیکڑوں بہاری اور مغربی پاکستانی ہلاک کردیئے گئے۔ ان کے گھر و کاروبار لوٹ کر نذر آتش ہوئے۔ لیکن دنیا حتیٰ کہ مغربی پاکستان والے اس ظلم و تشدد کے بہیمانہ دور سے بے خبر رہے۔

دراصل فوجی جنتا نہیں چاہتی تھی کہ عوامی لیگ کے غنڈے بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں پر جو خوفناک حملے کررہے ہیں، انہیں مغربی پاکستان کا میڈیا نشر یا شائع کرے۔ اسے خطرہ تھا کہ یوں مغربی پاکستان میں مقیم بنگالیوں پر حملے شروع ہوجائیں گے۔ حکمرانوں کویہ خوف بھی تھا کہ یوں باہمی تصادم سے مشرقی پاکستان میں تحریک علیحدگی مزید مضبوط ہوجائے گی۔ اسی سوچ کے پیش نظر 3 مارچ 1971ء کے دن پورے مشرقی پاکستان میں فوج کو بھی واپس بیرکوں میں بلالیا گیا۔ وہ پھر 25 مارچ تک باہر نہیں نکلی۔

اُدھر مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ سے منسلک سرکاری افسروں اور کارندوں نے ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک اور الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا پر قبضہ کرلیا۔ چناں چہ انھوں نے غیر بنگالیوں پر لرزہ خیز ظلم و ستم کی خبریں باہر نہ نکلنے دیں۔ یہ تو جب مغربی پاکستانی اور بہاری بمشکل جانیں بچاکر مغربی پاکستان پہنچے،تو وہاں اول اول صحافیوں کو معلوم ہوا، عوامی لیگ کے غنڈوں نے ظلم و تشدد کا خوفناک سلسلہ چلا رکھا ہے۔

اس کے باوجود پاکستانی حکومت قتل و غارت و لوٹ مار کی خبریں سینسر کرتی رہی تاکہ مغربی پاکستان میں بے چینی نہ پھیلے۔ اُدھر مشرقی پاکستان میںعوامی لیگ نے خبریں باہر نہ نکلنے دیں۔ تاہم بعض امریکی و برطانوی اخبارات میں پاکستانی صحافیوں کے حوالے سے مارچ 1971ء میں غیر بنگالیوں کی بھیانک نسل کشی کی جستہ جستہ خبریںضرور شائع ہوئیں۔

مشہور امریکی اخبار، کرسچین سائنس مانیٹر نے 14 مارچ 1971ء کی اشاعت میں خبر دی ’’عوامی لیگ کی ہڑتال کال کے بعد مشرقی پاکستان سے وسیع پیمانے پر تشدد، آتش زنی، لوٹ مار اور قتل کی خبریں آرہی ہیں۔ بنگالی بلوائیوں نے کئی شہروں میں غیر بنگالیوں کے کارخانوں، دفاتر اور دکانوںکو آگ لگادی… مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین ٹیلی فون لنک ناقابل استعمال ہے۔ دونوںصوبوں کے مابین صرف فضائی راستہ بحال ہے۔‘‘

برطانیہ کے ممتاز اخبار، دی ٹائمز نے 6 اپریل 1971ء کو خبر لگائی ’’یہ اطلاعات ہیںکہ تقسیم ہند کے وقت جو مجبور و مقہور لاکھوں مہاجرین مشرقی پاکستان میں مقیم ہوئے تھے، غصیلے بنگالی ان پر حملے کررہے ہیں۔اب تک ہزارہا مہاجر قتل کیے جاچکے۔‘‘

غرض 2 مارچ سے 24 مارچ تک پورے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے ظلم و تشدد کا بازار گرم کیے رکھا۔ آخر حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ چناں چہ عوامی لیگی غنڈوں کا مقابلہ و صفایا کرنے کی خاطر ہی 25 مارچ کو عسکری آپریشن کا آغاز ہوا۔

آپریشن سرچ لائٹ کے ذریعے عوامی لیگ کے غنڈوں ہی کو نشانہ بنایا گیا۔ مگر شاطر شیخ مجیب الرحمن نے یہ تاثر دیا جیسے ’’معصوم اور نہتے‘‘ بنگالی عوام فوج کے ’’ظلم‘‘ کا شکار ہورہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ عوامی لیگی غنڈوں کا زور توڑنے اور غیر بنگالیوں کو بچانے کے لیے یہ عسکری آپریشن انجام دینا نہایت ضروری تھا ورنہ لاقانونیت کا جن حکومت کو بھی نگل جاتا۔

آخر اپریل 1971ء کے پہلے ہفتے پاکستانی حکومت مغربی پاکستان سے انگریزی و اردو اخبارات کے صحافیوں کو مشرقی پاکستان لے گئی۔ ان میں ڈیلی مارننگ نیوز، کراچی کا اسسٹنٹ ایڈیٹر، انتھونی مارسکارینھاس بھی شامل تھا۔ اس نے عوامی لیگی غنڈوں کے قتل و غارت پر ایک مضمون لکھا جو ڈیلی مارننگ نیوز کے علاوہ برطانوی اخبار، سنڈے ٹائمز کی 2 مئی والی اشاعت میں بھی شائع ہوا۔یہ مضمون عوامی لیگ کی دہشت گردی پر کماحقہ روشنی ڈالتا ہے۔ اس میں انتھونی ماسکارینھاس نے لکھا:

’’ عوامی لیگی غنڈوں نے ہزارہا غیر بنگالی مہاجرین کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔ مہاجر خواتین بے حرمتی کا شکار ہوئیں۔ خاص چاقوؤں سے ان کے سینے کاٹے گئے۔ بچے بھی غنڈوں کی سفاکی سے نہ بچ سکے اور والدین کے ساتھ قتل کردیئے گئے۔ مارچ 1971ء میں صرف چٹاگانگ، کھلنا اور جیسور سے ’’20 ہزار‘‘ غیر بنگالیوں کی لاشیں ملیں۔ پورے مشرقی پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ غیر بنگالی قتل ہوچکے۔ کیونکہ ہزارہا ایسے ہیں جن کا اب نام و نشان نہیںملتا۔‘‘

ایک غیر مسلم صحافی کا درج بالا مضمون اس سچائی کا ثبوت ہے کہ مارچ 1971ء میں عوامی لیگی غنڈوں نے غیر بنگالیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔ اگر ان کے خلاف عسکری آپریشن نہ ہوتا، تو وہ مزید شیر ہوکر بقیہ لاکھوں غیر بنگالیوں کو بھی زندہ درگور کردیتے۔یہ دوسری بات ہے کہ اسی آپریشن کی آڑ لے کر شیخ مجیب اور بھارت نے بغاوت شروع کرا دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔