’’عمران خان ۔۔۔ تم بھی‘‘؟

عمار یاسر  ہفتہ 4 جولائی 2015
عمران خان کا بیان کہ ’’پینتیس پنکچر والی بات صرف ایک سیاسی بیان تھا‘‘ پڑھا تو لگا کپتان کا نیا پاکستان بھی محض بیان ہی تو نہیں۔

عمران خان کا بیان کہ ’’پینتیس پنکچر والی بات صرف ایک سیاسی بیان تھا‘‘ پڑھا تو لگا کپتان کا نیا پاکستان بھی محض بیان ہی تو نہیں۔

عظیم رومن جنگجو جولیس سیزر کو بھرے دربار میں اس کے دشمن جب چاقوؤں کے پے در پے وار سے شدید زخمی اور نڈھال کر رہے تھے تو سیزر مدد کے لیے دوستوں کو پکارتا اور کراہتا رہا۔ عین اس وقت جب وہ نڈھال ہوکر گرنے ہی لگا تھا تو سیزر کے معتمدِ خاص، اس کے منہ بولے بیٹے بروٹس نے اپنا خنجر سیزر کے جسم میں گھونپ دیا۔ اپنے منہ بولے بیٹے بروٹس، جسے سیزر بہت زیادہ چاہتا تھا کا یہ وار وہ سہہ نہ سکا اور اس کی رہی سہی سکت بھی دم توڑ گئی۔ بروٹس کے وار سے شدید صدمہ زدہ اور حیران سیزر صرف اتنا ہی کہہ سکا، ’’بروٹس، میرے بچے، تم بھی؟‘‘ ۔

یہ فقرہ سیزر کے لبوں سے نکلا اور تاریخ کے صفحوں پر بے وفائی، سازش اور دھوکہ دہی کے استعارے کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔ آخری ہچکیاں لیتے وقت سیزر کے ذہن میں اُن تمام جنگوں اور فتوحات کے واقعات کی فلم ضرور چلی ہوگی جب موت اس کے قریب سے چھو کر گزر گئی اور آئی بھی تو اس کے ہاتھوں جسے ساری زندگی اُس نے بیٹے کی طرح پیار کیا۔

گزشتہ دنوں عمران خان کا یہ بیان کہ ’’پینتیس پنکچر والی بات صرف ایک سیاسی بیان تھا‘‘ پڑھا تو ایسا لگا جیسے کپتان نے میرے پہلو میں خنجر گھونپ دیا ہو۔ میں کتابوں اور اُن میں لکھے ہوئے حروف پر یقین کرنے والا بندہ ہوں، جس نے ہمیشہ یہ یقین رکھا کہ ایک لیڈر اپنے لوگوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اِسی آئیڈیل ازم نے مجھے عمران خان کی طرف راغب کیا۔ جب اُس نے اپنے 2011 کے لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد پے در پے بیانات میں دعویٰ کیا کہ میں اپنی قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔

یہ بیان پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں 2013 کے ابتدائی مہینوں کے واقعات فلم کی طرح چلنے لگے جب الیکشن کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ میری رہائش نون لیگ کی ایک اکثریتی آبادی میں ہے۔ میرے خاندان کے بہت سے بزرگوں نے نواز شریف کی حمایت کا اعلان کیا مگر میرے اور مجھ سمیت کچھ نوجوانوں نے عمران خان کی آواز پنجاب کے اس دور افتادہ علاقے میں بلند کرنے کی ٹھان لی جہاں مولوی اور زمیندار کے اتحاد کےعلاوہ کسی اور کا جیتنا ناممکن ہے۔ ہم سب دوست جانتے تھے کہ ہم الیکشن نہیں جیتیں گے لیکن جب ذہن پر حق اور سچ کا سودا سمایا ہو تو ہار اور جیت سے فر ق ہی کیا پڑتا ہے؟

وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم اپنے محلہ کے وسطی میدان میں تحریک انصاف کا جلسہ منعقد کروا رہے تھے اور چاروں طرف ایستادہ مکانوں میں سے ایک بھی مکان ایسا نہیں تھا جہاں ہم تحریک انصاف کا پوسٹر لگا سکتے کیونکہ ہر گھر پر مسلم لیگ نون کا پوسٹر چسپاں تھا۔ وہ رات بھی مجھے یاد ہے جب عمران خان نے ہمارے قصبے میں آنا تھا اور ہم تمام رات جاگ کر جلسہ گاہ میں جھنڈے اور بینر لگاتے رہے حتیٰ کہ شدید بارش اور آندھی کی وجہ سے ہمیں گھر واپس جانا پڑا۔ دس پندرہ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر علاقے میں گھومتے پھرتے اور ’کون بچائے گا پاکستان، عمران خان، عمران خان‘ اور ’صاف چلی شفاف چلی تحریکِ انصاف چلی‘ کے نعرے لگاتے لگاتے حلق میں کانٹے پڑجاتے اور سر میں درد شروع ہوجاتا۔ محلے کے دوستوں، ہمسائیوں، بزرگوں کی معنی خیز مسکراہٹوں اور طنزیہ فقروں کا مقابلہ ہمیشہ حوصلے اور یقین سے کیا۔ الیکشن کا دن بھی ابھی ذہن سے محو نہیں ہوا جب ہمارے پاس اتنے بھی بندے نہیں تھے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر اپنا ایک نمائندہ بٹھاسکیں۔ جب تحریکِ انصاف نے صرف 18 ہزارووٹ لیے تو ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے کہ توقع سے بہت اچھے ووٹ مل گئے۔

الیکشن کے بعد سے دھرنے کے دنوں تک اور دھرنے سے جوڈیشل کمیشن تک میں نے عمران خان کے ایک ایک بیان کا دفاع کیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ بندہ کبھی غلط بیانی نہیں کرسکتا۔ مگر کیا کریں کہ آخری تجزیے میں یہ سب کچھ غلط ثابت ہوا۔ کفِ افسوس ملتے ہوئے عمران خان کی خدمت میں صرف اتنا عرض کروں گا…..

 ’’ کپتان، تم بھی؟‘‘

کیا آپ عمران خان کی جانب سے ’’سیاسی بیان’’ والی بات کو ٹھیک سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔