’’نہیں۔۔۔ میرا بچہ ایسا نہیں ہے!‘‘

ریحانہ خطیب  پير 6 جولائی 2015
بچوں کی بے جا طرف داری پوری تربیت خراب کر دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

بچوں کی بے جا طرف داری پوری تربیت خراب کر دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

بچے ہر والدین کوپیارے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر والدین تو بچوں پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی وہ خاص خیال رکھتے ہیں اورکوشش کرتے ہیں کہ مستقبل میں ان کا بچہ ایک اچھا اور کام یاب انسان بنے۔

ماں اور باپ دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کبھی پیار تو کبھی سختی اور ڈانٹ سے بھی بچوں کی غلطیاں سدھارتے ہیں۔ یہ ضروری بھی ہے، مگر کبھی کبھی اپنی فطری محبت کی وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی کر بیٹھتے ہیں۔ جیسے کچھ لوگ فطرتاً نرم دل واقع ہوتے ہیں اور بچوں سے صرف لاڈ ہی کرتے ہیں، ان کی کوتاہیاں اور غلطیاں بھی انہیں محسوس نہیں ہوتیں۔ اکثر ان کی نقصان دہ عادتوں کو بھی وہ برداشت کر لیتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، مگر وہ ان کی غلطیوں پر بھی آنکھیں بند رکھنے پر بضد ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی منوانے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت سامنے آتی ہے جب بچہ تھوڑا بڑا ہو جاتا ہے اور گھر سے باہر اور اسکول میں دوسرے بچوں سے اس کا ملنا جلنا ہوتا ہے۔ بچوں میں اکثر لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، جن کی شکایت اسکول میں ٹیچر اور گھر میں ماں باپ کے سامنے آتی ہے۔

ٹیچر کو چاہیے کہ محبت اور غیر جانب داری سے اس کے مسئلے سلجھائیں۔ ماں باپ کے سامنے جب بچے کی شکایت آتی ہے تو عقل مند والدین دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں، مگر وہ والدین جو اپنے بچوں کی غلط باتوں کو برداشت کرنے کے عادی ہوتے ہیں، وہ اپنے بچے پر کسی بھی الزام کو برداشت نہیں کرتے اور دوسرے بچوں ہی کو قصور وار ٹھیراتے ہیں۔ اس طرح کے معاملات اکثر خواتین کے سامنے آتے ہیں، کیوں کہ گھر میں بچے کے ساتھ ماں ہی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے پڑوسی خواتین سے بھی جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ ہر ماں اپنے بچے کی طرف داری کرتی ہے اور اگر اس کی غلطی ہو بھی تو وہ ماننے سے انکار کرتی ہے۔ نتیجتاً بڑوں میں تلخی پیدا ہو جاتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کا جھگڑا جاری رہتا ہے، جب کہ جن بچوں کی وجہ سے جھگڑا ہوا تھا وہ پھر ایک ساتھ کھیلنے میں لگ جاتے ہیں۔ چناں چہ ایسے بچوں میں لاشعوری طور پر یہ خیال جڑ پکڑ جاتا ہے کہ انہیں چوں کہ کوئی سزا نہیں ملی، اس لیے انہوں نے جو کچھ کیا تھا وہ صحیح تھا۔ اسی غلط فکر کے ساتھ وہ بڑے ہوتے ہیں۔

اکثر مائیں اپنے بچوں کی طرف داری کو اپنی محبت کا ہی حصہ سمجھتی ہیں۔ بچوں کو خود تو روکتی ٹوکتی نہیں اور اگر دوسرا کوئی ذرا بھی اشارہ کر دے تو نہ صرف یہ کہ برامان جاتی ہیں، بلکہ لڑنے جھگڑنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اگر بچے کے قریبی رشتے دار جیسے چچا، خالہ یا پھوپھی بھی بچے کی غلطی بتاتے ہیں، تو ماں ان سے بھی بحث کرتی ہے اور بچے کی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔ اس طرح بچوں پر ماں کی اس گہری محبت، جو کہ ان کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، کی چھاپ پڑجاتی ہے، چناں چہ بچہ ایک طرف تو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ماں اس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے اور دوسری طرف دوسرے رشتے داروں کو وہ برا سمجھنے لگتا ہے، ان کی عزت اس کے دل سے نکل جاتی ہے اور پھر وہ زبان درازی سے بھی نہیں چُوکتا۔

اگر بچیوں کی عادات ایسی ہوجائیں، تو یہ اور طرح سے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ بچیاں گھریلو کام کاج میں بالکل دل چسپی نہیں لیتیں۔ مائیں بھی ان کو بالکل نہیں ٹوکتیں، بلکہ ان کی خامیوں کو بھی خوبیاں بنا کر پیش کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ دوسرے بھی ان ہی کے انداز میں سوچیں۔ بعض لڑکیاں خریداری وغیرہ کے کاموں میں بڑی ماہر ہوتی ہیں، بے شک یہ ایک اضافی خوبی ہے مگر اس کی آڑ میں امور خانہ داری کی ذمے داریاں ختم نہیں ہوجاتیں۔ والدین کا بے جا اور حد سے زیادہ لاڈ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمارے سماج میں حسب روایت لڑکوں کے عیب چھپ جاتے ہیں، بلکہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا مگر لڑکیوں کو بہر حال ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، لہٰذا والدین اور خاص طور پر ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کی بے جا طرف داری سے گریز کریں، بصورت دیگر ان کی تربیت میں ہمیشہ کے لیے ایک سقم رہ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔