قصور واقعہ میں ’’قصور‘‘ کس کا؟

خوشنود زہرا  پير 10 اگست 2015
اگر شفاف آنکھوں میں موتی جھلملانے لگیں اور خوف ان کو خاموش کرادے تو یہ بڑا تکلیف دہ امر ہوتا ہے۔ فوٹو:فائل

اگر شفاف آنکھوں میں موتی جھلملانے لگیں اور خوف ان کو خاموش کرادے تو یہ بڑا تکلیف دہ امر ہوتا ہے۔ فوٹو:فائل

میں نے دنیا کے بڑے بڑے افراد کے بارے میں پڑھا، بعض کے منہ سے سنا کہ وہ اگر کسی دور میں واپس جانا چاہتے تو وہ ان کا بچپن ہوتا، کیونکہ جو مزا بچپن کی بے فکری میں ہے وہ کسی شے میں نہیں، اور یہی حقیقت بھی ہے کہ دنیا کی آلائشوں اور چالاکیوں سے پاک پھولوں سے نازک، معصوم اور نوخیز کلیوں کی طرح ترو تازہ کھلکھلاتے، مسکراتی آنکھوں والے بچے اس دنیا کی خوبصورتی اور رونق ہیں۔ جب یہ سادہ مزاج بے فکری سے قہقہے لگاتے ہیں تو آس پاس کا تمام ماحول ان کی مسکان سے خوبصورت اور روشن ہو جاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے گویا دنیا کی دلکشی سمٹ آئی ہے اور آپ بھی ان کے ساتھ ہنس پڑتے ہیں لیکن اگر شفاف آنکھوں میں موتی جھلملانے لگیں اور خوف ان کو خاموش کرادے تو یہ بڑا تکلیف دہ امر ہوتا ہے کہ آپ چاہتے ہوئے بھی ان کی مسکان نہیں لوٹا پا رہے،  کیونکہ کچھ درندے ان سے ان کی بے فکری چھین کر بڑا ظلم کرگئے ہیں۔

کوئی ظلم ناروا سلوک اور تشدد ان معصوموں کو سہما دے تو یقین کیجئے اہلِ دل اس درد کو محسوس کرتے ہیں اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ جلد از جلد ان کو بہلا کر ان کی کھوئی ہوئی مسکراہٹ اور چہرے کی رونق لوٹائی جاسکے لیکن یہ ایک آئسکریم، چاکلیٹ یا ٹافی دینے یا من پسند کھلونا دلانے سے تو آ بھی نہیں سکتی جی ہاں بالکل کیونکہ پاکستان کے ایک چھوٹے سے ضلع قصور کے ایک علاقے گنڈا سنگھ والا میں ہونے والے ظلم اور درندگی کا جو واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا اس نے پورے پاکستان کو دہلا کر رکھ دیا۔ ایک یا دو نہیں 280 سے زائد بچوں کو جنسی حوس کا نشانہ بنایا گیا اور اس پر بس نہیں بلکہ اس مکروہ عمل کی ویڈیو کلپس بنائیں گئی تاکہ معصوم بچوں اور ان کے والدین کو بلیک میل کیا جاسکے اور ایسا کیا بھی گیا۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ کھیل کوئی نیا نہیں بلکہ 9 برسوں سے جاری ہے اور اتنے عرصے تک جاری رہنے والے اس قابلِ نفرت جرم میں کون شریک ہے کون نہیں یہ تو تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو ظلم اور درندگی معصوم بچے سہہ گئے اس کا ازالہ کون کرے گا، وہ جو بے فکری سے بھرپور بچپن کہیں کھو گیا ہے اُس کو واپس کون لائے گا؟

سوشل میڈیا کے ذریعے عوام ان مجرموں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے لئے سخت اور عبرتناک سزاؤں کی متقاضی ہے اور میرے خیال میں شاید یہ درست اور جائز بھی ہے لیکن اس تمام معاملے کی جلد از جلد درست اور شفاف تحقیقات بہت ضروری ہیں تاکہ جن با اثر افراد نے ان درندوں کی پشت مضبوط کی ہوئی تھی اُن کے چہرے بھی اس دنیا کے سامنے آئیں اور لوگ ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔

بچوں کے ساتھ ہمارے معاشرے میں ظلم کوئی نیا واقعہ نہیں، بچوں پر تشدد، کم عمری میں جبری مشقت، تعلیم کے مواقع نہ ہونا، بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محرومی اور بھوک و بیماری سے مرجانا بھی کوئی کم ستم نہیں، لیکن اس واقعہ نے تو تمام ہی حدیں پار کردیں ہیں۔ ان کی فطرت میں شامل معصومیت اور بے فکری چھین کر ان کا مستقبل تاریک کرنے کا پورا سامان کیا گیا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں محض ریاست ہی قصوروار تو نہیں، بچوں کے والدین بھی ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں لیکن پھر بھی بدقسمتی سے ان کے بچے ظلم کا شکار ہوئے تو اس تمام عرصہ کے دوران ان تمام والدین کا کیا رویہ رہا؟ کیا انہوں نے کبھی قانون کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا؟ اوراگر انہوں نے قانون کی مدد مانگی تو کیونکر مدد فراہم نہ کی گئی؟ ریاست اور ریاستی اداروں کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں یہ تو شاید ریاست فراموش کرچکی ہے تاہم پھر بھی ان کی یاد دہانی کیلئے ان کا مختصراً احوال تحریر کرتی چلوں تاکہ شاید مستقبل میں اس واقعے کو سبق بنا کر کوئی عقل مند حاکم، افسرعبرت پکڑ سکے-

بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (سی آر سی) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نومبر 1989 میں منظور کیا، پاکستان نے بھی اسی سال اس کی تصدیق اس شرط کے ساتھ کی کہ اس کی دفعات کی ترجیحات اسلامی اصولوں کی روشنی میں کی جائیں گی۔ اس کنونشن کی دفعہ (19) کے مطابق

’’فریق ممالک، بچے کو، جب کہ وہ والدین یا قانونی سرپرست جو بچے کی نگہداشت کررہا ہو، جسمانی یا ذہنی تشدد، زخم یا زیادتی، غفلت یا غفلت پر مبنی سلوک، بدسلوکی یا جنسی استحصال سے تحفظ کے لئے مناسب قانونی اور سماجی اقدامات کریں‘‘۔

اس کے علاوہ اسی کنوینش کی دفعہ (34) فریق ممالک کو اس کا پابند بناتی ہے کہ

’’وہ بچے کو تمام اقسام کے استحصال اور جنسی (abuse) سے تحفظ فراہم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے فریق ممالک درج ذیل اقدامات کریں گے‘‘۔

الف) بچے کو جبری یا بہلا پھسلا کر کسی بھی غیر قانونی جنسی عمل میں شامل نا کرنا۔
ب) بچوں کا جسم فروشی یا دیگر جنسی استحصال سے بچاؤ۔
ج) فحاشی پر مبنی سرگرمیوں اور مواد میں بچوں کا استحصال۔

تو اب فیصلہ کیجئے ریاست مندرجہ بالا بیان کیے گئے معاہدے میں سے کن کن باتوں پر عمل کررہی ہے؟ اس میں سے بچوں کی حفاظت کے کتنے اصولوں پر عملدرآمد کیلئے ریاست پابند ہے؟ فیصلہ کیجئے کہ قصور کس کا ہے میرا تو مشورہ ہے کہ ان نکات کو نہ صرف جگہ جگہ عام کیا جائے بلکہ یاد بھی کروایا جائے۔ عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ جن کو ووٹ دے کر ہم منتخب کرتے ہیں وہ ہمارے حقوق کی کتنی پاسداری کرتےہیں۔ ان کی غفلت کی سزا ان کو ضرور ملنی چاہئیے اور آخر میں ایک نکتہ ریاست کا چوتھا ستون کہلانے والے میڈیا کے لئے بھی کہ اُس کی تحقیقات اور تفتیش صرف اس حد تک محدود ہیں کہ کوئی غیر ملکی اخبار کسی محترمہ کی تعلیمی ڈگری کی تصدیق نہ ہونے کی خبر شائع کرے تو آپ اس کو ’’بریکنگ نیوز‘‘ بنا کر اپنی تفتیش اور تحقیق کی تمام توپوں کا رخ اس جانب کرلیں اور محترمہ کا پورا اسکول سے یونیورسٹی تک کا کچہ چٹھہ کھنگال ڈالیں۔

جناب اب آپ ایک قدم آگے بڑھئیے کہ اس ملک کے عوام اور ان کے مسائل آپ کی خدمات کے منتظر ہیں اور آپ کا پیشہ ورانہ فرض ہے کہ آپ ان کے مسائل کو اجاگر کریں۔ اس عرصہ میں کیا کسی ایک نے بھی اس وقعہ کی’’ کھوج‘‘ لگانے، ’’تفتیش‘‘ کرنے، ’’ایف آئی آر‘‘ درج کروانے یا ان ’’موسٹ وانٹڈ کرمنلز‘‘ افراد کی گرفتاری کیلئے کوئی خبر ’’بریک‘‘ کی؟ اگر نہیں تو اب وقت ہے ان جیسوں کو ’’بے نقاب‘‘ کرکے ’’سرعام‘‘ سزاؤں کیلئے متحرک ہوجائیے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

خوشنود زہرا

خوشنود زہرا

بلاگر آزادی اظہار رائے کے ساتھ تمام بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی قائل ہیں، تحقیقی صحافت میں خاص دلچسپی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔