نوجوان سگریٹ نوش

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  جمعـء 18 ستمبر 2015
03332257239@hotmail.com

[email protected]

ہمارے چچا نے ایک رکشے والے سے کلفٹن چلنے کوکہا۔ وہ چلتے چلتے ساحل سمندر تک پہنچ گیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا اور پوچھا کہ ’’صاحب! اب توکراچی کا کنارا آگیا ہے۔آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘ رکشے والے نے دیکھا تو محسوس ہوا کہ اس کی سواری دوران سفر سوگئی تھی۔ چچا نے کہا ’’اوفوہ! ہم یہاں تک پہنچ گئے۔ مجھے تو تین تلوار تک جانا تھا۔ چلو اب تم رکشہ موڑ لو۔ لگتا ہے مجھے نیند آگئی تھی۔‘‘ پختون ڈرائیور نے کہا ’’صاحب! آپ بڑا خوش نصیب ہو، ہم کو تو دو دو گھنٹے تک نیند نہیں آتی ۔‘‘ چچا نے کہا ’’خان صاحب! یہ خوش نصیبی نہیں بیماری ہے۔‘‘ یہ خطرناک مسئلہ ہمارے ایک چچا کے ساتھ تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے سوجاتے تھے۔

چار پانچ لوگوں کے ساتھ ہوں تو دوست محسوس کرتے کہ اقبال بھائی بحث میں حصہ نہیں لے رہے۔ جب عمر بڑھی تو ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ وہ رضائی اوڑھے بستر پر سگریٹ پی رہے ہوتے اور سوجاتے۔ ایک مرتبہ گھریلو ملازمہ نے دیکھا کہ رضائی سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ اس نے جلدی سے رضائی کھینچ لی اور چچی اور ان کے بچوں کو آواز دی۔ خیریت رہی کہ ملازمہ نے دیکھ لیا اور بچت ہوگئی۔ کزن نے درخواست کی کہ سگریٹ پینا چھوڑ دیں تو انھوں نے کہا کہ پچاس ساٹھ سال کی عادت اب آخری عمر میں کیسے چھوٹے گی؟ بیٹے نے ان سے کہا کہ بستر پر لیٹ کر سگریٹ پینا تو بڑا خطرناک ہے۔ چچا نے جواب دیا کہ ’میرا زیادہ تر وقت یہیں پر گزرتا ہے۔‘

اداکارکمال کہتے تھے کہ انھیں ایک فلمساز نے کہا کہ ’’تم سگریٹ پیا کرو اس طرح تمہاری آواز صاف ہوجائے گی۔‘‘ یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے جب تمباکو نوشی کے خلاف کوئی دُہائی نہ دی جاتی تھی۔ ڈاکٹر اور مریض جب کلینک میں گفتگوکرتے دکھائے جاتے تو دونوں سگریٹ پی رہے ہوتے۔ یہ منظر بھی ان گنہگار آنکھوں نے پردہ اسکرین پر دیکھے ہیں کہ کسی باپ کا آپریشن ہو رہا ہے اور بیٹا بے چینی کے عالم میں آپریشن تھیٹر (O.T) کے باہر ٹہلتا سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا ہے۔ پھر وہ 70 کا عشرہ، جس میں دعوت چائے یا پارٹی کے دوران ٹرے یا پلیٹ میں سگریٹ رکھ کر مہمانوں کو پیش کی جاتی۔

بزرگ مائیں اپنے بیٹوں سے پوچھتیں کہ پوتا اتنا بڑا ہوگیا ہے اور سگریٹ نہیں پی رہا۔ جس طرح مغرب میں اگر کسی لڑکی کا بوائے فرینڈ نہ ہو تو مائیں فکر مند ہوجاتی ہیں اسی طرح دادیاں پوتے کے سگریٹ نوشی نہ کرنے پر فکرمند ہوجاتیں۔ 80 کے عشرے تک بھی دنیا بھر کے ڈراموں اور فلموں میں کرداروں کو فخریہ سگریٹ نوشی کرتے دیکھا جانا عام بات تھی۔ یہ تو نوے کے عشرے میں ماحولیات اور آلودگی کے بارے میں چرچے ہونے لگے جس نے سگریٹ نوشوں کو چرکے لگائے۔ موازنہ کیا جاتا کہ پھول پودوں کی خوشنمائی اور کچرا کنڈی کو دیکھنے میں کتنا فرق محسوس ہوتا ہے۔ کہا جانے لگا کہ باغوں کی ہریالی اور چمنی کے دھوئیں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سمجھایا گیا کہ دھوئیں کو مہدی حسن کے نغمے ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ تک محدود ہونا چاہیے۔

سگریٹ نوشی کی مذمت کے سبب جوانی اور سگریٹ نوشی کے خوب صورت سنگم کو بڑھاپے نے عجیب کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ جب تک تمباکونوشی کے نقصانات سامنے نہیں آئے تھے تب تک سگریٹ پیتا نوجوان دھوئیں کے مرغولے چھوڑتا بڑا آئیڈیل لگتا تھا۔ ساٹھ کے عشرے کے نوجوان نئی صدی میں بوڑھے ہوچکے ہیں۔ اب ان کے چالیس برس تک کے بیٹے بیٹیاں اور آٹھ دس برسوں کے پوتے پوتیاں ہیں۔ اب تمباکو نوشی ان کے لیے قابل فخر نہیں بلکہ قابل افسوس صورت حال پیدا کر رہی ہے۔ کئی گھروں میں ادھیڑ عمرکی اولاد کو اپنے بزرگوں سے درخواست کرتے دیکھا گیا ہے کہ وہ بچوں کے سامنے سگریٹ نہ پئیں۔ اب بزرگ گیلری، برآمدے یا باغ میں جاکر تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ وہ نواسے نواسیوں کے کمرے سے باہر چلے جانے کے بعد سگریٹ سلگاتے ہیں۔ بعض اوقات پینٹ شرٹ اور ٹائی باندھے پڑھے لکھے افسران بینکوں کے باہر کھڑے ہوکر سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں۔ ایئرکنڈیشنڈ اور اور نو اسموکنگ زون کے سبب وہ بینک سے باہر نکل کر سڑک پر اپنی تمباکونوشی کی پیاس بجھاتے ہیں۔ اب نوجوان سگریٹ نوشوں کے حوالے سے ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔ پہلے دو باتیں پھر دو لطیفے اور آخرمیں ایک سوال۔

آج کے نوجوان سگریٹ نوش اگلے پچیس تیس برسوں میں بزرگ کہلائیں گے۔ سوال ہے کہ ایوب دور کے نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کا علم نہ تھا۔ جب خبر ہوئی تو دو چار پینے والوں نے یہ عادت چھوڑ دی۔ روزکی پندرہ بیس پینے والوں کے لیے اس عادتِ بد سے چھٹکارا پانا مشکل رہا۔ ایسے میں آج کے نوجوانوں کے لیے آنیوالے برسوں میں کتنی مشکلات ہوں گی، اگر وہ درجن بھر سگریٹ پھونک جاتے ہیں۔

ایک دوست کے والد کو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ سگریٹ نوشی چھوڑ دیں ورنہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر کی سخت ہدایت پر اس عادتِ بد سے چھٹکارا پا لیا۔ وہ بتاتے کہ ان کا جسم ٹوٹتا تھا اور وہ ہر ایک سے لڑنے مرنے کو تیار رہتے۔ کیا دوست، کیا گھریلو ملازمین، کیا دفتر کا اسٹاف اور کیا بیوی بیٹے۔ وہ کہتے کہ ایک بہو اور تین صاحبزادیاں ان کے پاس آتیں تو وہ سائبیریا کی طرح ٹھنڈے ہوجاتے ورنہ ہر ایک کے ساتھ جیکب آباد کی گرمی کی طرح پیش آتے۔ بالآخر وہ اس عادت کو چھوڑنے میں ناکام ہوگئے اور پھر سے شروع کردی۔ چند مہینوں بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

پہلا لطیفہ سگریٹ نوشی کرنے والوں کے حق میں اور دوسرا ان کے خلاف جاتا ہے۔ایک آدمی نے Chain Smoker سے پوچھا کہ روز کا کتنا خرچ ہوجاتا ہے؟پھر ہفتوں، مہینوں، سال بھر اور چالیس برسوں کی سگریٹ نوشی کا حساب کیا۔ آخر میں اس آدمی نے تمباکو کے رسیا سے کہا کہ اگر آپ میں یہ عادتِ بد نہ ہوتی تو سامنے والی عمارت کے آپ مالک ہوتے۔ دھوئیں کے مرغولے چھوڑتے شخص نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ یہ بلڈنگ آپ کی ہے؟نقصان کا حساب جوڑنے والے نے کہا نہیں۔ سگریٹ نوش نے کہا کہ یہ میری بلڈنگ ہے۔ دوسرا لطیفہ ’’طنزیہ فوائد‘‘ پر مشتمل ہے۔ پڑھے تو پانچ تھے لیکن یاد اس وقت تین ہیں۔ سگریٹ نوش نہ بوڑھا ہوتا ہے اور نہ اس کے گھر چور آتے ہیں اور نہ اسے گلی کے کتے تنگ کرتے ہیں۔ جوانی میں مر جانے والا بوڑھا نہیں ہوتا۔ رات بھر کھانسنے کے سبب گھر میں چور نہیں آتے جب کہ لاٹھی کے سہارے چلنے والے پر گلی کے کتے کیا بھونکیں گے۔

ایوب وبھٹوکے زمانے کے نوجوان سگریٹ نوش کم قصور وار ہیں کہ انھیں نقصانات کا علم نہ تھا۔ 21 ویں صدی کا نوجوان آلودگی و ماحولیات سے آگاہ ہے بلکہ سگریٹ نوشی کے نقصانات سے بہت باخبر ہے۔آج کے بوڑھے شرمندہ ہیں کچھ وقت کے لیے اپنے بچوں کے بچوں سے دور رہنے پر مجبور ہیں کہ سگریٹ پیتے ہیں۔سوچیے کیا حال ہوگا پاکستان کے سوسالہ جشن آزادی کے موقعے پر۔ ممنون حسین کے زمانہ صدارت کا نوجوان 2047 تک بوڑھا ہوچکا ہوگا۔ وہ دور کتنا قابل افسوس ہوگا جب صد سالہ جشن آزادی پر ٹی وی دیکھتے ہوئے پوتے کو گود میں لیے ہوئے شخص سے اس کی بیگم چھوٹے بچے کو اس کے ہاتھوں سے واپس لے لے گی۔ بیگم کہے گی کہ تمباکو نوشی کے بعد آپ کی سانسوں کی بدبو چھوٹے بچے کے لیے نقصان دہ ہے۔ ٹی وی پر دور جوانی کے قومی نغمے سننے کی خوشگوار یادوں کے ساتھ سگریٹ نوشی کی ابتدا کی ناخوشگوار یاد سامنے آجائے گی۔ پوتا بیگم کو واپس کرتے وقت کتنا شرمندہ ہوگا آج کا نوجوان سگریٹ نوش؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔