قندوز کے اسپتال پر امریکی بمباری

ایڈیٹوریل  پير 5 اکتوبر 2015
 آج اگر امریکا اور اس کی اتحادی فوجیں وہاں موجود ہیں تو انھیں بھی موجودہ حکومت میں شامل افغان دھڑوں نے بلایا ہے، فوٹو : فائل

آج اگر امریکا اور اس کی اتحادی فوجیں وہاں موجود ہیں تو انھیں بھی موجودہ حکومت میں شامل افغان دھڑوں نے بلایا ہے، فوٹو : فائل

امریکی جنگی طیاروں نے افغانستان کے علاقے قندوز میں بین الاقوامی اسپتال پر بمباری کر دی جس کے نتیجے میں ساٹھ کے لگ بھگ افراد ہلاک و زخمی ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ قندوز میں طالبان کا قبضہ چھڑانے کے لیے امریکی طیاروں نے فضائی حملہ کیا جس کا نشانہ طالبان کے بجائے بین الاقوامی طبی ادارہ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی عمارت بن گئی جس میں عملے کے ارکان سمیت خاصی ہلاکتیں ہوئیں۔ اسپتال ذرایع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ بین الاقوامی طبی ادارے کے ترجمان کے مطابق قندوز میں حملے سے قبل امریکی اور اتحادی فوجوں کو مطلع کر دیا گیا تھا کہ یہاں ایک عالمی اسپتال بھی موجود ہے تاہم اس کے باوجود امریکی طیارے اسپتال پر تیس منٹ سے زائد تک پر بم برساتے رہے۔ بمباری کے وقت ٹراما سینٹر میں 105 مریض اور عملے کے80 ارکان موجود تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ  نے حملے کو ناقابل معافی جنگی جرم قرار دیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عالمی ریڈ کراس نے بھی حملے کی مذمت کی ہے۔ جب کہ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ حملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے اگرچہ بظاہر طیاروں نے وہاں حملہ کیا جہاں طالبان مزاحمت کر رہے تھے۔ ادھر نیٹو نے بھی طبی مرکز کو پہنچنے والے نقصان کی تفتیش کی بات کی ہے۔ افغان وزارت دفاع نے کہا کہ طالبان اسپتال کی عمارت کو استعمال کر رہے تھے۔ دوسری طرف طالبان نے بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج نے اسپتال پر حملہ جان بوجھ کر کیا۔ افغان میڈیا کا دعویٰ ہے کہ افغان کمانڈوز نے قندوز کے مرکزی علاقے میں طالبان کا جھنڈا اتار کر افغانستان کا پرچم لہرا دیا ہے تاہم کئی علاقوں میں اب بھی طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کی شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ افغانستان کے ایک اہم علاقے پر طالبان کا قبضہ امریکا کے لیے بہت بڑا سیٹ بیک تصور کیا گیا تھا جس پر امریکا نے اشتعال میں آ کر طالبان کے کسی ٹھکانے کے بجائے اسپتال کے ٹراما سینٹر پر بمباری کر دی جس کی صفائی افغان حکومت نے یوں پیش کی کہ طالبان اسپتال کو ہائیڈ آوٹ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔

اصل بات یہ ہے کہ امریکی جارحیت نے افغانستان کو طویل تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے  اور اس بد نصیب ملک کی آیندہ نسلیں بھی اس تباہی کا سامنا کرتی رہیں گی۔ بہر حال افغانستان میں امن کی کنجی افغانستان کے متحارب دھڑوں کے پاس ہے۔ یہ چاہے حکومت میں شامل دھڑے ہوں یا طالبان ہوں‘ انھیں بھی اپنے عوام اور ملک کا خیال کرنا ہو گا۔ آج اگر امریکا اور اس کی اتحادی فوجیں وہاں موجود ہیں تو انھیں بھی موجودہ حکومت میں شامل افغان دھڑوں نے بلایا ہے جب کہ سوویت افواج کو بھی خلق پارٹی اور پرچم پارٹی والوں نے دعوت دی تھی‘ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سوویت فوجیوں اور خلقیوں اور پرچمیوں سے لڑنے والے بھی غیر ملکی مقاصد کو پورا کر رہے تھے اور اب بھی طالبان کو دنیا کے کئی زیر زمین گروپوں اور قوتوں کی تائید حاصل ہے لہٰذا جب تک افغانستان کے گروپ اپنے ملک اور عوام کے بارے میں نہیں سوچیں گے افغانستان میں امن قائم نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔