پاکستان کرکٹ کی شان یونس خان

سلیم خالق  منگل 13 اکتوبر 2015
مجھ سے بہت اچھے پلیئرز پیچھے رہ گئے اور میں پاکستان کیلیے کچھ کر دکھانے کی اپنی سوچ کی وجہ سے آگے نکل آیا۔:یونس خان:فوٹو : فائل

مجھ سے بہت اچھے پلیئرز پیچھے رہ گئے اور میں پاکستان کیلیے کچھ کر دکھانے کی اپنی سوچ کی وجہ سے آگے نکل آیا۔:یونس خان:فوٹو : فائل

 یونس خان نے 10دسمبر  1977 ء کو مردان میں آنکھ کھولی، انھوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ اوائل عمری میں ہی کراچی میں سکونت اختیار کرلی تھی جہاں راشد لطیف اور سعید انور نے ملیر جیمخانہ میں ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا، دھیرے دھیرے ان کا کرکٹ میں سفر عروج کی طرف گامزن رہا بالاخر 2000میں قومی ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

انھوں نے کامیابیوں کی ایک طویل داستان مرتب کی ہے، ان میں سب سے بڑی آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009 ء کی فتح شمار ہوتی ہے، یونس نے زیادہ تر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، وہ جاوید میانداد(8832) اور انضمام الحق(8830) کے بعد پاکستان کے تیسرے  بڑے رن اسکورر ہیں،اولیت کا تاج سرپر سجانے کیلیے انھیں صرف 19 رنز کی ضرورت ہے، ٹرپل سنچری اسکور کرنے والے 3 قومی بیٹسمینوں میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے۔

5 ڈبل سنچریاں بھی یونس کے نام کے آگے  درج ہے،وہ 30 تھری فیگر اننگز کے ساتھ پاکستان میں سرفہرست ہیں، چوتھی اننگز میں 5 سنچریوں کی انفرادیت سے انھوں نے خود کو مرد بحران ثابت کیا ہے، تیز ترین 7500 رنز بنانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے، تیسرے نمبر پر وہ پاکستان کے کامیاب ترین بیٹسمین ثابت ہوئے ہیں۔

اس پوزیشن پر یونس نے 50 سے زائد کی اوسط سے 4 ہزار سے زائد رنز بنائے ہیں،35 سال سے زائد کی عمرمیں سب سے زیادہ 6 سنچریاں بنانے والے پاکستانی بیٹسمین کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہے، آسٹریلیا کے خلاف مسلسل 3 تھری فیگر اننگز کھیلنے والے واحد کرکٹر بھی وہی ہیں، اس سے قبل 1924ء میں ہربرٹ سٹکلف نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا،یونس خان کا شمار بہترین فیلڈر میں ہوتا ہے۔

وہ واحد پاکستانی ہیں جنھوں نے ٹیسٹ میں 100 کیچز تھامے، بے مثال ریکارڈ کے ساتھ تنازعات بھی ان کے کیریئر میں شامل رہے ،  بہت جلد ناراض ہوکر کھری کھری سنا دینے کی عادت انھیں کبھی راس نہیں آئی، کئی بار کپتانی سے ہاتھ دھونے پڑے، مارچ 2010ء میں پی سی بی نے ٹیم میں انتشار پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے یونس خان اور محمد یوسف پر غیر معینہ مدت کیلیے پابندی لگادی جو3 ماہ بعد ہی اٹھا لی گئی، مصباح الحق کی متوقع ریٹائرمنٹ کے بعد اب ایک بار پھر ان کے دل میں کپتانی کی خواہش مچل رہی ہے۔

پُرسکون رہ کر اعزاز اپنے نام کرنا چاہتا ہوں، یونس خان
یونس خان پاکستان کا سب سے کامیاب ٹیسٹ بیٹسمین بننے سے اب صرف 19رنز کے فاصلے پر ہیں، توقع ہے کہ آج سے انگلینڈ کیخلاف ابوظبی میں شروع ہونے والے میچ میں وہ جاوید میانداد کے 8832 رنز سے آگے نکل آئیں گے، گذشتہ دنوں انھوں نے اس متوقع ریکارڈ اور دیگر امور پر اپنے مخصوص انداز میں اظہار خیال کیا جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

سوال:آپ پاکستان کے کامیاب ترین ٹیسٹ بیٹسمین کا اعزاز حاصل کرنے جا رہے ہیں، اس موقع پر کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
یونس خان: میرے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ رنز کی تعداد میں عظیم جاوید میانداد سے آگے نکل رہا ہوں، اس وقت الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے لیکن ریکارڈ توڑنے پر مجھے ناقابل فراموش خوشی کا احساس ہو گا،اس سے قبل انزی بھائی (انضمام الحق) زیادہ رنز کا ریکارڈ توڑنے کے قریب پہنچے مگر قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ 3 رنز پیچھے رہ گئے۔

سوال: کیا اس ریکارڈ کی وجہ سے آپ کسی دباؤ کو محسوس کر رہے ہیں؟
یونس خان: اب ایسی کوئی بات نہیں ہے، البتہ اس سے قبل سری لنکا کیخلاف آخری ٹیسٹ میں یہ سوچ ذہن میں تھی، وہ میچ رمضان المبارک میں ہوا، دوسری اننگز سے قبل جب میں سحری کیلیے اٹھا تو میرے بچے بھی جاگے ہوئے تھے،میں نے ایک کاغذ پر 189 کا ہندسہ لکھا اور اپنے پاس رکھ لیا وہ اب بھی محفوظ رکھا ہوا ہے،اہلیہ نے پوچھا یہ آپ کیا کر رہے ہیں، میں نے جواب دیا ابھی نہیں میچ کے بعد اس بارے میں بتاؤں گا۔

اتفاق سے میں 171رنز ناٹ آؤٹ بنا گیا، اس وقت ٹیم مشکلات کا شکار تھی مگر ہم میچ میں کامیاب ہو گئے،میری کوشش تھی کہ اسی میچ میں جاوید بھائی کا ریکارڈ توڑ دیتا مگر 19رنز پیچھے ر ہ گیا، اس وقت میں نے یہ بات ذہن پر سوار رکھی ہوئی تھی مگر پھر طے کر لیا کہ اب ریکارڈ کا نہیں سوچنا نارمل رہنا ہے،آرام سے جا کر اپنی بیٹنگ کروں گا، جہاں اﷲ نے اتنے رنز کرا دیے مزید بھی کرا دے گا،یہ کوشش نہیں کروں گا کہ ابوظبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں ہی 3،4 چھکے لگا کر اعزاز حاصل کر لوں، مجھے یاد ہے کہ انضمام بھائی کے کیریئر کی آخری اننگز تھی اور وہ ریکارڈ سے 3رنز پہلے آؤٹ ہو گئے، میں اس وقت ڈریسنگ روم میں موجود تھا اور وہ وقت نہیں بھول سکتا، اسی لیے میری کوشش ہے کہ پُرسکون رہ کر اعزاز اپنے نام کروں۔

سوال: بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ جتنے بڑے بیٹسمین ہیں ملک میں اتنی قدر نہیں کی گئی؟
یونس خان:میں نے کبھی نہیں سوچا کہ مجھے اتنی اہمیت ملی یا نہیں، بلکہ اچھا ہے اس سے پرفارمنس کا زیادہ دباؤ نہیں ہوتا، میں خود کو خرگوش سے ریس کا وہ کچھوا محسوس کرتا ہوں جو آہستہ آہستہ چلتا ہوا منزل کے قریب پہنچ گیا، میں نے ہمیشہ اﷲ سے دعا کی کہ مجھے درمیان والی جگہ ملے نہ زیادہ اوپر نہ نیچے، میں جس مقام پر پہنچا اس پر بیحد مطمئن ہوں۔

اب بھی جاوید میانداد کا ریکارڈ توڑنے کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ میں پاکستان کا سب سے بڑا پلیئر بن جاؤں گا، میرے دل میں سب کیلیے بیحد عزت ہے، میری خواہش ہے کہ جب اعزاز حاصل کروں تو جاوید بھائی بھی وہاں موجود ہوں، اسی طرح گذشتہ دنوں میں حنیف محمد صاحب سے ملنے گیا تھا، ان کی کرکٹ کیلیے بڑی خدمات ہیں،  پاکستان کیلیے ایک اننگز میں سب سے زیادہ 337 رنز انھوں نے بنائے ہیں، اسی طرح فرسٹ کلاس میں 499کی اننگز کھیلی، کاش میں بھی اپنے کیریئر میں ایسا کر سکتا۔

سوال: گذشتہ عرصے کرکٹ بورڈ کے ساتھ آپ کا پہلے سینٹرل کنٹریکٹ اور پھر ون ڈے ٹیم میں عدم شمولیت پر اختلاف ہوا،اس بارے میں کیا کہیں گے؟

یونس خان:ہر انسان کی اپنی عزت ہوتی ہے اور اسے اپنے بارے میں بات کا جواب دینا چاہیے، مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا، حالانکہ ایک ٹھیلے والے کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی اس سے تُو کر کے بات کرے تو وہ پوچھے مجھے ایسا کیوں کہا، میں کھلاڑی ہوں یا نہیں، سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط کیے یا نہیں مگر میری ذات پر کوئی بات ہو تو مجھے بھی اچھے انداز میں وضاحت کا حق حاصل ہے، اس کا پھر ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔

جہاں تک میری بات ہے سب جانتے ہیں کہ میرا کبھی کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں رہا، جس کسی سے بھی میرا کوئی تعلق ہے اس کی ہمیشہ بہت عزت کرتا ہوں، اگر کسی سے میں 4 سال بعد بھی ملوں اور اسے پہچان لوں تو اتنی ہی عزت دیتا ہوں جو اس کے دل میں میرے لیے ہوتی ہے،میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ آپ کسی کو عزت دیںگے تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا، یہ ٹھیک ہے کہ بعض تنازعات ہوئے مگر سب مجھے جانتے ہیں کہ صاف اور کھرا انسان ہوں اس لیے ہمیشہ اختتام خوشگوار ہی ہوتا ہے، بہت بڑے بڑے کھلاڑی آئے اور چلے گئے، کوئی ہمیشہ ٹیم میں نہیں رہ سکتا، ہمیں سب کو عزت دینی چاہیے۔

سوال: صاف گوئی نے آپ کو نقصان نہیں پہنچایا؟
یونس خان:میرا خیال ہے کہ اب مجھے بھی صاف باتوں سے گریز کرنا چاہیے ،اسی لیے واٹس ایپ پر اپنا اسٹیٹس مسٹیریس مین لکھ دیا ہے، مجھ سے کسی نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو جواب دیا کہ میں بہت تیزی سے سیکھتا ہوں،تھوڑا بہت ڈپلومیسی سے کام لینا چاہیے، میرے والدین اور اہل خانہ نے مجھے یہ نہیں سکھایا، مجھے پیدائش کے وقت گھٹی نجانے کس نے دی شاید وہ کوئی بہت ہی صاف گو انسان ہوگا، مگر میرے جیسا بندہ نہیں ہونا چاہیے، اب کچھ کھونے کیلیے نہیں ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ میں تبدیل ہو جاؤں۔

سوال: گذشتہ دنوں کوچ وقار یونس سے بھی آپ کے تعلقات کچھ ناخوشگوار سے نظر آئے؟
یونس خان:میں نے ایک انٹرویو کے دوران خوشگوار انداز میں کہا تھا کہ شاید سری لنکا سے سیریز کی آخری اننگز میں سنچری نہ بناتا تو مجھے ٹیم سے نکال دیا جاتا، اس کے بعد ’’ایکسپریس‘‘ میں ہی وقار یونس کا بیان آیا کہ ہم ایسا کچھ نہیں کرنے والے تھے، یہ ایک غلط فہمی ہوئی جس کا وکی بھائی (وقار یونس) نے جواب بھی دے دیا۔ میں اس سیریز کے آغاز میں بڑی اننگز نہیں کھیل پایا تھا، پھر شاید آصف اقبال کا یہ بیان سامنے آیا کہ مجھے ریٹائر ہو جانا چاہیے،اچھی بات یہ ہے کہ میں نے وہ دیکھا نہیں کیونکہ ہم سب انسان ہیں لہذا بعض اوقات ایسی باتوں کا منفی اثر پڑ جاتا ہے، بعد میں مجھے اس کا پتا چلا  تھا۔

سوال: کپتان مصباح الحق کے بارے میں بھی آپ نے ایک سخت بیان دیا تھا؟
یونس خان: مصباح الحق بہت اچھے انسان اور میری تو وہ ہمیشہ سے بہت عزت کرتے ہیں، جب کبھی دیکھیں نشست سے اٹھ کر ملتے ہیں، بطور کپتان ان کی جو کامیابیاں ہیں شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوئی ہوں، بیٹنگ میں بھی کارکردگی اچھی رہی،2010 میں جس مشکل دور میں مصباح نے قیادت سنبھالی اور ٹیم کو آگے بڑھایا وہ قابل تعریف ہے۔

ان کے بارے میں بھی ایک انٹرویو کے دوران میں نے خوشگوار انداز میں کہا تھا کہ مصباح بھائی اور میری سوچ بہت الگ ہے، بعد میں ایسا ظاہر کیا گیا جیسے میں نے ان کے بارے میں کچھ منفی ریمارکس دیے ہوں، اس پر میں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کی تھی،مصباح کی کارکردگی آن ریکارڈ موجود ہے، چاہے میں جتنا بھی ان کیلیے اچھا یا بُرا کہہ دوں وہ تبدیل نہیں ہو گی۔

سوال: ون ڈے کرکٹ میں آپ نے حالیہ کارکردگی اتنی اچھی نہیں مگر آپ کم بیک کیلیے بڑے بے چین دکھائی دیتے ہیں؟
یونس خان: کئی کھلاڑی ٹیسٹ کی پرفارمنس پر ون ڈے کھیل گئے تو میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوتا، کیا ٹیسٹ اور ون ڈے کی فارم الگ ہوتی ہے، اگر میں نے ٹیسٹ میں اچھا پرفارم کیا تو کیا ون ڈے میں نہیں کھیلنا چاہیے تھا؟ سب کھلاڑی برابر ہیں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم سجھتے ہیں کہ سینئر پلیئرز کو صرف ٹیسٹ تک محدود رکھنا چاہیے،2011 تک میں متواتر دونوں فارمیٹس میں کھیلتا رہا اور ہمیشہ رنز کیے،کبھی ٹیسٹ میں بڑی اننگز نہ کھیلی تو ایک،2ون ڈے میں رنز بنا دیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مجھے بھی ایک نوجوان کرکٹرکے برابر ون ڈے کھیلنے کا حق حاصل ہے،کوئی کھلاڑی 19یا پھر 39 سال کا ہو اگر فارم، فٹنس اور کمٹمنٹ ہے تو اسے ضرور کھلانا چاہیے، 2013 کے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی کا میں بہترین بیٹسمین قرار پایا تو کیا اس وقت مجھے منتخب نہیں کرنا چاہیے تھا؟ اس سال بھی میری کارکردگی اچھی رہی تھی، میں اپنی فارم انہی میچز میں ظاہر کر سکتا ہوں،اگر ٹی ٹوئنٹی میں پرفارم نہ کرتا تو سب یہی کہتے کہ یونس خان تو اچھی فارم میں نہیں ہے، سلیکٹرز بھی اگر منتخب نہ کرتے تو اسی کو جواز بتاتے،اگر کوئی کھلاڑی ریٹائر نہیں ہوا اور خود عزت سے جانا چاہ رہا ہے تو اسے موقع دینا چاہیے،ماضی میں بہت سے پلیئرز لیگز وغی۔

ہ میں پرفارم کر کے قومی ٹیم میں آگئے، حال ہی میں جیسے شعیب ملک بگ بیش، ویسٹ انڈیز اور ڈومیسٹک ایونٹس کی کارکردگی پر واپس آیا اور آج ٹیم کا بہترین بیٹسمین بنا ہوا ہے، میں بھی جہاں کھیل سکتا ہوں اسی میں پرفارم کر کے ٹیم میں واپس آ سکتا ہوں۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ انا پرست انسان ہوں مگر ایسا نہیں ہے۔

سلیکٹرز مجھے فارم اور فٹنس پر منتخب کریں میرے یا کسی کے کہنے پر نہیں، میں اپنے بل بوتے پر کھیلنا اور اپنے فیصلے سے ریٹائر ہونا چاہتا ہوں، یہ نہیں کہ مجھ پر زور ڈالا جائے،میں عزت سے جانا چاہتا ہوں، یہ نہ ہوکہ آج سے 20 سال بعد کہا جائے کہ اس کو بلا کر ہم نے کہا تو پھر وہ ریٹائر ہو گیا، اﷲ کو منظور ہوا تو میں ون ڈے کرکٹ بھی دوبارہ کھیلوں گا۔

سوال: مصباح الحق انگلینڈ سے سیریز کے بعد ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے چکے، آپ کپتانی میں دلچسپی ظاہر کر چکے مگر ماضی میں 3 بار خود قیادت چھوڑی اس لیے بورڈ شاید اظہر علی کو ہی ذمہ داری سونپے، ان کی قیادت میں کھیلتے ہوئے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا؟
یونس خان:میں گذشتہ 6،7 سال سے دیگرکپتانوں کے تحت ہی کھیل ہی رہا ہوں ، میں تو ہمیشہ کپتانی چھوڑنے والوں میں سے ہوں، میرے ذہن میں ایسا کچھ نہیں کہ دوسرا کپتان بنایا جائے تو میں پرفارم نہیں کروں گا، میں انضمام الحق، شعیب ملک اور شاہد آفریدی کی قیادت میں کھیلا تو  ہمیشہ بہترین پرفارم کیا، مصباح بھائی کی کپتانی میںکارکردگی سب کے سامنے ہے، میں نے ہمیشہ یہ سوچا کہ پاکستان کیلیے کھیل رہا ہوں، فٹنس ، پرفارمنس، کمٹمنٹ سب میں مجھے آگے رہنا ہے۔

مجھ سے بہت اچھے پلیئرز پیچھے رہ گئے اور میں پاکستان کیلیے کچھ کر دکھانے کی اپنی سوچ کی وجہ سے آگے نکل آیا۔جہاں تک ماضی میں کپتانی چھوڑنے کا تعلق ہے اس وقت میں نوجوان اور جارحانہ مزاج کا حامل تھا، اب مجھ میں تبدیلی آ چکی، ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بس میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ نوجوان پلیئرز کیلیے کوئی ایسا شخص محسوس نہیں ہے جو ان کے غیر محفوظ ہونے کا احساس دور کرے، مجھے اگر کپتانی ملی تو وہ کردار ادا کرنا چاہوں گا جو ماضی میں عمران خان نے کیا،1992میں وہ جو ٹیم چھوڑ کر گئے تقریباً انہی کھلاڑیوں پر مشتمل سائیڈ نے 1999ورلڈکپ کا فائنل کھیلا،میں بھی یہ چاہوں گا کہ جب کرکٹ چھوڑ کر جاؤں تو ایک اچھا اسکواڈ موجود ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔