ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!

محمد ارشد قریشی  جمعـء 30 اکتوبر 2015
کسی بھی ملک کو تہس نہس اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرکے اُس پر پشیمانی کا اظہار کرنا سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ اور اور کچھ نہیں۔ فوٹو: رائٹرز

کسی بھی ملک کو تہس نہس اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرکے اُس پر پشیمانی کا اظہار کرنا سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ اور اور کچھ نہیں۔ فوٹو: رائٹرز

عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری نہ روکنے کے جرم کی پاداش میں اس پر جو جنگ مسلط کی گئی، جس میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں جن میں کثیر تعداد سویلین شہریوں کی تھیں اس خطرناک جنگ کی ہولناکیاں آج بھی عراق میں واضح نظر آتی ہیں، ایک اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو تباہ کردیا اور اب اس جنگ کے 12 سال بعد جناب ٹونی بلئیر صاحب فرماتے ہیں کہ میں معذرت خواہ ہوں، عراق جنگ ہماری غلطی تھی اور عراق کے بارے میں جو انٹیلی جینس معلومات دی گئی تھیں، وہ درست نہیں تھیں، عراق پر حملہ جنگی جرم تھا اور اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گرد تنظیم داعش کے مضبوط ہونے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔

ٹونی بلیئر کے اعترافِ جرم اور غلط انٹیلی جنس معلومات کو تسلیم کرنے میں یہ حقیقت بھی پوشیدہ ہے کہ حکومتیں جن معلومات پر انحصار کرکے جنگ جیسے بڑے فیصلے کرلیتی ہیں وہ لازماً درست نہیں ہوتیں، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ حقائق کے بالکل منافی ہوں، بلکہ ٹونی بلئیر کا بیان تو یہ ثابت کررہا ہے۔ اب برطانوی حکومت کے لئے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ حکومت کو غلط اطلاعات کس ادارے نے فراہم کیں اور کون افراد اس کے ذمہ دار تھے؟ کیا انٹیلی جینس ادارے خود اس گھناؤنی سازش کا ایک کردار تھے یا اُن سے ایسا کروایا گیا ہے۔ اسی طرح کا ایک بیان ڈاکڑ بلکس نے دیا تھا جو 1999 سے 2003 تک اقوام متحدہ کی اس معائنہ کار ٹیم کے سربراہ تھے جس میں انہوں نے کہا کہ ہمیں عراق میں جن ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کی رپورٹ کی بنا پر تحقیقات کا کام سپرد کیا گیا تھا، اس بنا پر ہم نے عراق میں 5 سو مختلف جگہوں کا معائنہ کیا، لیکن ہمیں کہیں بھی تباہ کن ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری یا بڑے پیمانے پر ان ہتھیاروں کے ذخائر نہیں ملے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس تحقیقات کے بعد بھی عراق پر حملہ کردینا ایک بڑی غلطی تھی۔

یاد رہے کہ عالمی ایٹمی توانائی کمیشن کے گھاگ ماہر البرادی نے عراق میں ہتھیاروں کی تلاش کے لئے دن رات ایک کرنے کے بعد عراق میں تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی کی نفی کی اور صدام حسین کو جراثیمی ہتھیاروں کے خود ساختہ الزامات سے کلئیر کردیا۔ البرادی نے جراثیمی اور کیمیائی اسلحے کے حوالے سے امریکہ برطانیہ کو دی جانیوالی اطلاعات کو من گھڑت قرار دے دیا۔ البرادی کی رپورٹ پر برطانیہ اور امریکہ نے اس وقت کوئی توجہ نہیں دی اور عراق کو فتح کرنے کے درپے لگے رہے، عراقی تہذیب و تمدن کو یکسر تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ ہزاروں پروفیسرز دانشوروں اور سائنسدانوں کو چن چن کر ہلاک کردیا کہ عراق تا قیامت دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ رہے،  قدیم لائبریریوں اور قیمتی نوادرات اور عجائب گھرتباہ کردیئے گئے۔

اب ٹونی بلیئر کے بیان کے بعد امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنا ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ اگر آج عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں کرنل قذافی ہوتے تو وہاں کے حالات بہتر ہوتے، جو بات اہم ہے اور ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ ایسے بیانات اس وقت آتے ہیں جب مقصد عوام کے جذبات کو اُبھارنا ہوتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے بھلا انتخابات سے بہتر وقت اور کیا ہوسکتا ہے؟ کسی بھی ملک کو تہس نہس کردینا، لاکھوں لوگوں کو ہلاک کردینا اور پھر بعد میں غلطی کا اعتراف کرلینا یہ سب سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے، اس بیان کے بعد مجھے لگتا ہے کہ شائد کسی وقت ایسا ہی بیان افغانستان پر حملے کے بارے میں بھی آجائے کہ افغانستان پر حملہ ہماری غلطی تھی اور اگر آج افغانستان میں ملا عمر کی حکومت ہوتی تو وہاں حالات بہتر ہوتے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ بہادر نے جہاں بھی ایسی من گھڑت انٹیلی جینس رپورٹ کو بنیاد بنا کر اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر لشکر کشی کی، وہاں کئی انتہا پسند تنظیموں نے جنم لیا جو امریکہ اور اتحادیوں کے مفادات پر حملے کرتے رہے جس کا اعتراف خود ٹونی بلیئر نے اپنے حالیہ بیان میں بھی کیا، پاکستان سے ہمیشہ ڈومور ڈومور کا مطالبہ کرنے والوں نے پاکستان کو ایسی دہشت گردی میں جھونک دیا جس کا سب سے زیادہ نقصان اب تک پاکستان ہی اٹھا رہا ہے، شائد کبھی ان اتحادی حکمرانوں کا ضمیر مزید جاگے تو پھر یہ بھی کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ ہمیں پاکستان کو زبردستی اس جنگ میں شامل نہیں کرنا تھا اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آج پاکستان دہشت گردوں سے پاک ہوتا۔

آخر اب ہوگا کیا؟ ٹونی بلیئر کے اعتراف کے بعد کونسا ادارہ ایسا ہے جو کاروائی کرے گا کیونکہ صدام حسین کی پھانسی اور کرنل قذافی کا قتل اسی بنا پر ہوا کہ وہ قتلِ عام میں ملوث تھے، لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ وہ اپنے ملک میں کسی بھی قسم کے قتل عام میں ملوث ہیں، اس کے باوجود انہیں زندگی سے محروم کردیا گیا تو یہاں تو کھلم کھلا اعتراف کیا جارہا ہے، قتل عام کا بھی اور جنگی جرائم کا بھی، لیکن شائد ایسا کوئی ادارہ اس روئے زمین پر موجود ہونے کے باوجود اتنی جرات نہیں رکھتا کہ ان لاکھوں عراقیوں کے ساتھ انصاف کرے، اُن کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے اور ایسی کاروائی کرے کہ آئندہ کوئی ملک کسی ملک پر ایسی جارحیت کی ہمت نہ کرسکے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان اعترافات کے بعد کیا امت مسلمہ عالمی عدالتِ انصاف میں عراق پر جعلی معلومات کی آڑ میں سفاکانہ جنگ مسلط کرنے، لاکھوں بے گناہ عراقیوں کو قتل کرنے کے جرائم میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حکمرانوں کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کروائے گی؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکا اور اُس کے اتحادی انصاف کے کٹھرے میں لائے جاسکیں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔