سیکولرازم کا اصل چہرہ یہی ہے

اوریا مقبول جان  جمعـء 6 نومبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

جب کبھی بھارت میں مسلم کش فسادات بھڑکتے ہیں یا وہاں کوئی دوسری اقلیت تشدد کا شکار ہوتی ہے تو میرے ملک کے لکھنے والے اور میڈیا ایک فقرہ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ ’’وہ دیکھو بھارت کا سیکولر چہرہ بے نقاب ہو گیا‘‘ ۔ اس طرح کے فقرے بولنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیکولرازم ایک ایسی اعلیٰ و ارفع انسانی صفت اور حکومتی اقدار ہے کہ اس کا حامل انسانی معاشرہ یا حکومتیں دنیا کی مہذب ترین حکومتیں اور معاشرے ہوتے ہیں اور وہاں ظلم و ستم نام کی کوئی چیزہی نہیں ہوتی۔

یوں تو سیکولرازم کا لفظ پہلی دفعہ1876  میں برطانوی صحافی جارج ہولی اوکGeorge Holyoake نے استعمال کرنا شروع کیااور پھر یہ زبان زدِ عام ہوگیا۔ لیکن اگر ہم سیکولرازم کے متوالوں کی ذاتی گھڑی ہوئی تاریخ کو بھی مان لیں کہ انقلابِ فرانس کے اردگرد پیدا ہونے والے ادیب جنہوں نے لوگوں کو یہ تصور دیا کہ معاشروں کو جمہوری اقدار پر منظم کر کے اقتدار عوام کے نمایندوں کو منتقل کرنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو پھر بھی اس تصور کے پیش کیئے جانے اور نفاذ کی عمردو سو سال سے زیادہ نہیں بنتی۔ سیکولر ازم کاسب سے بڑا داعی ایچ جی ویلز تھا جو برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں تقریریں کرتا پھرتا کہ حکومتوں پر قابض ہو کر سیکولر ازم کو بزور نافذ کر دینا چاہیے ورنہ مذہبی لوگ عوام کے ذریعے کبھی بھی برسرِ اقتدار آ سکتے ہیں۔

سیکولرازم جن معاشروں میں نافذ ہوا اور جہاں جہاں ایسے حکمران منتخب ہوئے یا مسلط کیئے گئے جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں انھوں نے اس سیکولرازم کے نام پر انسانی خون اسقدر بہایا، ظلم و تشدداتنا کیااور رعایا کو بھوک اور افلاس کا شکاراس قدر رکھا اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف مسلمان ملکوں کے سیکولر حکمرانوں کی فہرست اٹھا لیں۔ ان کے کارنامے پڑھ کر آپ حیران و ششدر رہ جائیں گے۔

مصر سے شروع کرتے ہیں، جمال عبدالناصر جس کے دامن پر اخوان المسلمین کے ڈھائی لاکھ لوگوں کو قتل کرنے کا الزام ہے، جس کے جیل خانوں کے تشدد کی کہانیاں لرزا دینے والی ہیں۔ بڑے بڑے رہنماؤں کی پھانسیوں کی ایک قطار ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی۔ سیکولرازم اس کے خون میں رچا ہوا تھا۔ اسرائیل سے جنگ شروع ہوئی تو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہنے لگا’’ اے فرعون کے بیٹو! آج تمہارا مقابلہ موسیٰ کی نسل سے ہے‘‘۔ مذہب کو ریاست سے دور رکھنے کا دعویٰ کرنے والا یہ سیکولر حکمران دنیا کے ظالم ترین حکمرانوں میں شمار ہوتا ہے۔

اس کے بعد اس کے فلسفہ پر عمل کرنے والے انورالسادات اور حسنی مبارک بھی اسی روش پر قائم رہے اور انسانوں کا خون بہاتے رہے۔ عراق میں احمد حسن البکر اور پھر صدام حسین بھی سیکولر حکمران تھے جو ریاست کے کاروبار میں مذہب کے داخلے کو حرام سمجھتے تھے۔صرف کردوں پر ڈھائے جانے والے مظالم انھیں تاریخ کے بدترین اور ظالم حکمران ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔جنگ عظیم دوم کے بعد سیکولر صدام حسین نے پہلی دفعہ آبادیوں پر کیمیائی ہتھیار تک استعمال کیئے ۔ سیکولر ازم کے پر زور نفاذ کے یہ حامی حکمران ہر اس آواز کو خاموش کر دیتے ہیں جس کے منہ سے یہ لفظ بھی نکلتا کہ مذہب بھی انسانی زندگی میں ایک نافذ العمل چیز ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے قاتل۔ ایران میں شاہ رضا پہلوی کی سیکولر آمریت ساوک کے ظلم و ستم سے عبارت ہے۔موجودہ ایران میں شاہ کی خفیہ ایجنسی کے ان مراکز کوعجائب گھر بنا دیا ہے۔

جہاں ایسے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا جو مذہب کو ریاست کا حصہ سمجھتے تھے، ان کے ناخن اکھاڑے جاتے، بجلی کے مسلسل جھٹکے دیے جاتے، زخم ڈال کر ان پر نمک چھڑکا جاتا۔سیکولر رضا شاہ پہلوی کے سیکولر اقتدار کے دوران لاکھوں لوگ قتل اور لا پتہ ہوئے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ایک سنیما گھر کو آگ لگا دی، چار سو سے زیادہ لوگ زندہ جل گئے اور الزام ان لوگوں پر لگا دیا جو مذہب کو ریاست کے کاروبار کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ انڈونیشیا میں سہارتو کی سیکولر آمریت قائم ہوئی تویہ دنیا کی سب سے پر تشدد آمریت تھی جس میں چار لاکھ سے زیادہ انسان قتل کر دیے گئے۔

لاطینی یا جنوبی امریکا کے کسی بھی حکمران کے عہدِ حکومت کو اٹھا لیں آپ کو ظلم و ستم کی داستانیں ملیں گی۔ صرف چلّی کے پنوشے کے مظالم اسقدر ہولناک ہیں کہ قلم لکھتے ہوئے خون آلود ہونے لگتا ہے۔ وہ تو ان سیکولر اقدار کو جمہوریت کا تڑکا لگا کر الیکشن بھی جیتا تھا۔لیکن کیا جمہوریت لوگوں کا خون بہانے، ظلم کرنے یا قتل و غارت سے روک سکتی ہے۔

دنیا کا سب سے ظالم، قتل و غارت کا رسیا اور تشدد کا علمبردار شخص ایک جمہوری طور پر منتخب لیڈر بھی تھا اور اقدار کے حساب سے سیکولر بھی۔ وہ شخص جرمنی کے عوام کے دلوں پر راج کرنے والا نازی حکمران ہٹلر تھاجو ہر اعتبار سے سیکولر تھا۔ کوئی اس دور کی دنیا کے لوگوں سے پوچھے کہ انھوں نے اس جمہوری طور پر منتخب سیکولر ہٹلر کے ظلم کی کیا قیمت ادا کی ہے۔

اس سیکولر صفت جمہوری طور پر منتخب شخص نے نسلی تعصب کی ایسی بنیاد ڈالی کہ کروڑوں لوگ لقمہء اجل بن گئے۔ کوئی یہودیوں سے جا کر پوچھے کہ انھوں نے سیکولر اور جمہوری ہٹلر کی جمہوریت اور سیکولرازم کی کیا قیمت ادا کی ہے۔ واشنگٹن میں ایک ہولو کاسٹ میوزیم ہے جس میں ہٹلر کے اس جمہوری اور سیکولر اقتدار کے دوران ہونے والے مظالم کے شواہد رکھے ہوئے ہیں۔

جمہوریت اور سیکولرازم ایک اور جگہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گزشتہ سڑسٹھ سالوں سے چل رہے ہیں اور یہ ملک بھارت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی جمہوری طور پر منتخب حکمران نہیں تھے اور وہ سیکولر نہیں تھے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اس ملک کاآئین بھی سیکولر ہے جو مذہب کو ریاست سے کوسوں دور رکھتاہے۔ دنیا کا یہ سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی ہے جہاں غربت کی انتہا علاقائی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر ہے۔ اس عظیم سیکولر اور جمہوری ملک میں غربت کے خط سے سب سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں میں سے ہے اور اس کے بعد دوسرا نمبر دلتوں یعنی شودروں کا آتا ہے۔

یہ شودر کسی علاقے کی وجہ سے غریب نہیں کہ وہاں وسائل موجود نہیں ہیں بلکہ یہ اس لیے غربت کا شکار ہیں کہ ہندو مذہب انھیں بدترین حالت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا کشمیر میں مظالم کسی ڈکٹیٹر یا مذہبی رہنما نے روا رکھے اور ایک لاکھ لوگوں کو شہید کیا۔ یہ سب کے سب سیکولر اور جمہوری حکمران تھے۔ کوئی سکھوں سے جا کے پوچھے کہ انھوں نے اس جمہوریت اور سیکولرازم کا 1984 میں کیسا مزہ چکھا تھا جب ان کو دلی کے بازاروں میں گھسیٹا گیا، گلے میں ٹائر ڈال کر ان ٹائروں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ سب حکومتی سرپرستی میں ہوا۔ وہ حکومت جو فخر کرتی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کا تسلسل بھی ہے اور سیکولرازم کا آئینی تصور بھی۔

اس سارے ظلم و ستم اور تشدد کے باوجود ہمارا میڈیا اور دانشور یہ تصورپیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے سیکولرازم اور جمہوریت ہی نجات کے دو راستے ہیں۔ اسلام پر گفتگو کرنی ہو تو یہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ اسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کا ذکر نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ تمھاری تاریخ جنگوں اور لڑائیوں سے بھری ہے، تمہارے حکمران ظالم تھے۔ لیکن وہ یہ منطق سیکولرازم پر لاگو نہیں کرتے۔ حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ جس قدر ظلم و بربریت سیکولر ڈکٹیٹروںاور سیکولر جمہوری حکمرانوں کے ادوار میں اس دنیا نے دیکھی، تاریخ میں اس سے زیادہ ظلم و ستم اور قتل و غارت کسی اور دور میں نہیں ہوا۔

جنگِ عظیم اول اور دوم کے دوران ایسے حکمران دنیا پر حکومت کرتے تھے جو جمہوری طور پر منتخب بھی تھے اور سیکولر بھی۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکا، بیلجیئم، اٹلی،دیگر تمام ممالک سے مذہب کو ریاست سے الگ بھی کردیا گیا تھا اور حکمران بھی جمہوری طور پر منتخب تھے۔ ان سیکولر جمہوری حکمرانوں نے جنگوں میں اتنے لوگ قتل کیئے جن کی تعداد پوری انسانی تاریخ میں قتل ہونے والے افراد سے زیادہ ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیکولر ازم کا اصل چہرہ ہی یہ ہے۔

یہ انسان کی مروجہ اقدار اور روایت کے برعکس ایک ایسا تصور ہے جسے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جوافراد اپنی روایت اور اقدار کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرتے ہیں انھیں قتل کردیا جاتا ہے یا ان پر تشدد سے سیکولرازم نافذ کیا جاتا ہے۔ وہ مصر، عراق یا انڈونیشیا کے مذہب سے لگاؤ رکھنے والے مسلمان ہوں، جرمنی کے یہودی یا بھارت کے مسلمان، سکھ اور عیسائی اور شودر سب سیکولرازم کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔

سیکولرازم نے ہمیشہ لوگوں کا خون بہایا اور اس کو ایک خوبصورت تصور دیا کہ ہم ان لوگوں کواس لیے قتل کر رہے ہیں کہ یہ جمہوریت اور سیکولر ازم کے دشمن ہیں، تخریب کار ہیں، دہشت گر ہیں، گوریلے ہیں، ملک دشمن ہیں، غدار ہیں۔ یہی سیکولر ازم ہے اوریہی اس کابھیانک چہرہ ہے اور یہ دو سو سال سے دنیا پر حکمران ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔