شہریار صاحب، بہت ہوگیا، اب بس کیجیے!!!

خوشنود زہرا  ہفتہ 21 نومبر 2015
شہریار صاحب تھوڑی ہمت دکھائیے اور بھارت کو اُسی لہجے میں صاف انکار کردیں کہ سیریز ہرگز بھارت میں نہیں ہوسکتی۔ فوٹو: فائل

شہریار صاحب تھوڑی ہمت دکھائیے اور بھارت کو اُسی لہجے میں صاف انکار کردیں کہ سیریز ہرگز بھارت میں نہیں ہوسکتی۔ فوٹو: فائل

پاک بھارت کرکٹ کا جنون تو سب کے ہی چڑھ کر بولتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ بھارت کے انتہا پسندوں کی وجہ سے یہ اب صرف جنون ہی رہ گیا ہے اور اسی سبب  بی سی سی آئی دسمبر میں  ہونے والی پاک بھارت سیریز کی یاداشت کو بھی فراموش کر بیٹھا ہے، لیکن کیا کیا جائے محترم شہریار خان کی مصالحتی کردار کا جو اپنے ساتھ ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کا قومی وقار بھی مجروح کرنے اور کرانے پر تُلے بیٹھے ہیں اور جتنی بیزاری بی سی سی آئی پاکستان سے برت رہا ہے یہ مو صوف اتنا ہی بھارتی کرکٹ بورڈ کے آگے بچھے جارہے ہیں اور روز ہی کوئی نیا بیان دے کر کرکٹ سیریز کی راہوں کو ہموار کرنے میں لگے پڑے ہیں۔

حد تو یہ ہوئی کہ بی سی سی آئی کے صدر ششانک منوہر نے شہر یار صاحب کے ذاتی وقار کو سائیڈ پر لگاتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریار خان کے روز روز کے بیانات سے تنگ آ چکے ہیں، اور جناب شہریار صاحب جو ان دنوں دبئی میں موجود ہیں نہ جانے کیوں اتنے خوش گمان ہیں کہ حالیہ بیان میں موصوف یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ  وہ دبئی میں ہیں اور ہفتے کو بی سی سی آئی کے چئیرمین ششانک منوہر بھی دبئی پہنچ رہے ہیں، ان دونوں حضرات کی کوئی باقاعدہ ملاقات تو نہیں لیکن اگر منوہر صاحب بنفس نفیس خود ملاقات کی خواہش ظاہر کریں تو ضرور ملیں گے۔  شہریار خان کے بیانات سن کے ایک لطیفہ یاد آجاتا ہے، لطیفہ کچھ یوں تھا،

ایک گاوں میں غریب نوجوان وڈیرے کی بہن کا رشتہ لینے پہنچ جاتا ہے۔ بھلا وڈیرہ کس طرح اپنی بہن کا رشتہ کسی غریب کو دے سکتا تھا، بلکہ وہ اُلٹا طیش میں آگیا اور غریب نوجوان کی خوب پٹائی لگائی۔ جب پٹائی لگ چکی تو غریب نے وڈیرے سے انتہائی تحمل مزاج میں پوچھا ’’تو کیا میں نا سمجھوں؟‘‘

پتہ نہیں شہریار خان خوش فہم ہیں یا غلط فہم۔۔۔۔ معذرت کے ساتھ شہریار صاحب کہیں آپ کو بھی تو نئے نئے شگوفے چھوڑ کر میڈیا کی تو جہ حاصل کر لینے کا شوق تو نہیں چرایا؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذرا خیال رکھیئے کہ یہ آپ کے ذاتی تعلقات کا معاملہ نہیں ہے کہ آپ کا جس انداز میں چاہیں معاملات کو نمٹالیں آپ اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے اہم ترین عہدے پر فائز پاکستان اور پاکستانیوں کے نمائندے کی حیثیت سے بات کرتے ہیں اور مخالف سمت سے آنے والے اس طور کے بیانات سے محض آپ ہی کی نہیں بلکہ پورے ملک کے قومی وقار پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

جب بھارت اپنے تعصب اور تنگ نظری کے باعث کرکٹ کو بھی خارجہ پالیسی کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنی انتہا پسندی کا ثبوت دنیا کو دے کر کرکٹ سیریز  کے معاہدے سے مکر رہا ہے تو آپ کو ایسی کون سی افتاد پڑی ہے کہ آپ اس سیریز کے لئے پہلے تو نئی دہلی جا پہنچے اور جب وہاں انتہا پسندوں غنڈوں نے حملہ کے سبب بھارت نے کرکٹ معاہدہ توڑ دیا  اور اپنی جارحانہ عزائم اور شدت پسندی پر مبنی یہ شرط عائد کردی کہ کرکٹ سریز ہوگی تو بھارت میں ہی ہوگی تو پی سی بی کو بھی اسی انداز میں اس پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے بھارت کو اس کی دہشت گردی کا چہرہ دکھانا چاہئیے تھا جہاں پہلے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں  پر روا ظلم دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں، اب مزید اس سیریز پر بات کرنا اپنا مضحکہ اڑانے کے علاوہ اور کچھ نہیں، آئی سی سی پہلے ہی اس معاملے میں اپنی کمزوری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے دونوں ممالک کا ذاتی معاملہ قرار دے چکاہے،  چئیرمین صاحب کیا پاکستان کی ترقی کا دارومدار ہی اس کرکٹ سیریز پر ہے جو آپ ہر صورت میں اس سیریز کی بحالی میں لگے پڑے ہیں؟

جب کہ ابھی کچھ زیادہ روز نہیں گذرے جب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے واضح انداز میں کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ کرکٹ ڈپلومیسی کی ضرورت نہیں، یہ پاکستانیوں کے وقار اور عزت نفس کا معاملہ ہے، وہ دشمنی کرتے جائیں اور ہم دوستی دوستی کرتے رہیں، یہ پالیسی نہیں چلے گی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم صاحب بھی ہدایت کر چکے ہیں کہ  پاکستان کرکٹ بورڈ  دورہ بھارت سے متعلق کسی قسم کے  معاملات بغیر ان کی اجازت کے طے نہ کرے، اور قوم کا موقف بھی کچھ مختلف نہیں ، مانا کہ کرکٹ کے متوالے ہیں لیکن برابری کے قائل ہیں اگر بھارت بضد ہے کہ کرکٹ سیریز انڈیا میں ہو تو ہماری شرط بھی یہی ہونی چاہئیے کہ ان حالات اور بھارت میں جاری حالیہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے باعث پاکستان بھی بھارت میں نہیں کھیل سکتا۔

ہر صورت میں کرکٹ سیریز آپ کی ذاتی پالیسی ضرور ہوسکتی ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے فیصلے آپ کی ذاتی رائے پر قائم نہیں ہوسکتے لہذا اس معاملے میں مزید بیان بازی سے باز ہی رہیں تو بہتر ہے، اگر کرکٹ سیریز کو بحال کیا جاتا ہے تو یقیناً یہ پاکستانیوں سمیت تمام دنیا کے شائقین کیلئے خوش آئند ہے تاہم بھارت اگر روایتی ہٹ دھری کا مظاہرہ کرتےہوئے اسے لائن آف کنٹرول سمجھے اور من مانی کرنے کی سوچے تو یہ بھارت کی خام خیالی ہے، ہم کرکٹ تعلقات کا خیر مقدم کریں گے تاہم جب یہ سیریز انتہا پسندی کی نذر ہونے کے بجائے برابری کی سطح پر بحال کی جائے۔

کیا آپ قومی ٹیم کو بھارت جاکر سیریز کھیلنے کی حمایت کریں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

خوشنود زہرا

خوشنود زہرا

بلاگر آزادی اظہار رائے کے ساتھ تمام بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی قائل ہیں، تحقیقی صحافت میں خاص دلچسپی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔