زیکا وائرس ؛ اسباب، علامات اور چند احتیاطیں

نرگس ارشد رضا  جمعرات 11 فروری 2016
 ایسے فرد کو جسم میں پانی کی کمی سے بچانے کے لیے پانی اور پھلوں کا جوس پینا چاہیے۔:فوٹو : فائل

ایسے فرد کو جسم میں پانی کی کمی سے بچانے کے لیے پانی اور پھلوں کا جوس پینا چاہیے۔:فوٹو : فائل

ملیریا، ڈینگی وائرس، سوائن فلو، برڈ فلو اور ایبولا وائرس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں لوگ موت کا شکار ہورہے ہیں۔

انسانی جسم کی قوتِ مدافعت کو نقصان پہنچانے اور جان لیوا ثابت ہونے والے ایسے جراثیم کے پھیلاؤ کا بڑا سبب مچھر ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں سے بھی جراثیم انسانی جسم میں منتقل ہو رہے ہیں جو اسے شدید بیمار کرسکتے ہیں اور بعض صورتوں میں جان بھی ضایع ہوسکتی ہے۔

انسانوں کو مہلک جراثیم کا مقابلہ کرنے اور وائرس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں سے بچانے کے لیے طبی ماہرین فوری مؤثر ثابت ہونے والی ادویہ کی تیاری میں مصروف ہیں، لیکن مذکورہ بیماریوں کے خلاف انہیں اب تک مکمل کام یابی نہیں مل سکی ہے۔ پاکستان میں ڈینگی کے ساتھ پچھلے ایک ماہ سے سوائن فلو کے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے سرکاری و نجی اسپتالوں میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

اب زیکا وائرس کی صورت میں دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی انسانی صحت اور زندگی سے متعلق ایک اور بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ اس وقت زیکا وائرس سے سب سے زیادہ متأثرہ ملک برازیل، اس کے بعد کولمبیا و دیگر ممالک بتائے جارہے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ وائرس دنیا کے دیگر براعظموں میں بسنے والوں کو بھی متأثر کرسکتا ہے۔

طبی سائنس کے مطابق زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جانے والا Aedes نامی مچھر اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ ہے۔ یہ مچھر صاف پانی میں پرورش پاتا ہے۔ زیکا وائرس پھیلانے والے اس مچھر کے جسم پر سیاہ اور سفید نشانات ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیکا وائرس انسانی جسم میں ایک ہفتے تک زندہ رہنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ یہ مچھر زیادہ تر دن کی روشنی میں متحرک رہتا ہے اور اس دوران کسی بھی انسان کو کاٹنے پر زیکا وائرس اس کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔

طبی محققین کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے چالیس برس قبل افریقی ملک یوگنڈا میں لوگوں کی بڑی تعداد متأثر ہوئی تھی۔ طبی ریسرچ کے مطابق اگر یہ مچھر حاملہ عورت کو کاٹ لے تو اس کے پیٹ میں موجود بچہ مائیکرو سیپلے نامی ایک بیماری کا شکار ہوسکتا ہے جس سے بچے کے دماغ کی نشوونما رک جاتی ہے اور وہ ذہنی اور جسمانی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ زیکا وائرس سے انسان کو محفوظ رکھنے اور اس کے خاتمے کے لیے طبی محققین اب تک کوئی ویکسین یا دوسرا طریقۂ علاج دریافت نہیں کرسکے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق زیکا وائرس سے متاثرہ فرد بخار کے ساتھ اعصاب اور جوڑوں کے درد، آنکھوں میں جلن کی شکایت کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سَر درد اور بعض صورتوں میں جلد پھٹنے لگتی ہے یا اس پر سرخ نشانات نمودار ہونے لگتے ہیں۔ اکثر نزلہ زکام کے بعد بھی اس خطرناک وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اور ایسے مریضوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ زیکا وائرس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق مچھروں کی مختلف اقسام دنیا میں انتہائی خطرناک اور مہلک بیماریاں پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں، جن سے بچاؤ اور ان کا مکمل علاج فی الوقت موجود نہیں ہے۔

البتہ چند احتیاطی تدابیر اپنا کر انسان ایسے وائرس سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے مچھر کے کاٹنے سے خود کو بچانے کی ضرورت ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اپنے گھروں اور دفاتر میں مچھر کُش ادویات کا باقاعدگی سے اسپرے کروانا چاہیے۔ اپنے کمروں میں مخصوص اسپرے کے علاوہ دوسری مچھر مار پروڈکٹس استعمال کریں۔

دن اور خاص طور پر رات کے وقت غیرضروری طور پر کھلی جگہوں اور تفریحی مقامات پر جانے سے گریز کریں۔ کسی تالاب، جھیل کے کنارے اور درختوں وغیرہ کے نیچے کھڑے نہ رہیں۔ گھروں اور گلی میں بھی کسی جگہ پانی کھڑا نہ رہنے دیں تاکہ مچھر جمع نہ ہوسکیں اور ان کی افزائش کا امکان نہ رہے۔ باہر جانا ہو تو ایسا لباس پہنیں جو پوری طرح جسم ڈھانپ لے۔ گھروں میں موجود پانی کے برتن، بالٹی وغیرہ کا منہ ڈھانپ دیں۔ کھڑکیوں میں ایسی جالی لگوائیں جن سے مچھر اندر نہ آسکیں۔

زیکا وائرس کی تشخیص ہونے کی صورت میں مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ایسے فرد کو جسم میں پانی کی کمی سے بچانے کے لیے پانی اور پھلوں کا جوس پینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر بخار سے نجات اور جسم کا درد ختم کرنے کے لیے دوا تجویز کرسکتا ہے، جسے اس کی ہدایت کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق ذیکا وائرس پھیلانے والے مچھر ہی سے انسان زرد بخار اور ڈینگی وائرس کا شکار بھی ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔