کیا اب بھی پوچھیں گے کہ مغرب ہم سے آگے کیوں ہے؟

محمد عاصم  بدھ 6 اپريل 2016
دولت کے انبار لگانے والے اتنی دولت کا کیا کریں گے؟ زندگی کے چار دن ناجانے کس لمحے ختم ہوجائیں۔ پھر یہ سب کن کی خوشیوں کے لیے جمع کیا جا رہا ہے؟

دولت کے انبار لگانے والے اتنی دولت کا کیا کریں گے؟ زندگی کے چار دن ناجانے کس لمحے ختم ہوجائیں۔ پھر یہ سب کن کی خوشیوں کے لیے جمع کیا جا رہا ہے؟

آخر کار صیاد اپنے ہی بُنے ہوئے جال میں قید ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ظلم کو درازی وقت تو ہے لیکن چھوٹ نہیں۔ انجام کار آج نہیں تو کل لازم ہے۔ ہاں نجات ہے ان کے لیے جو توبہ کرلے اور اپنی روش کو درست کرلے۔ وزیراعظم جناب محترم نواز شریف نے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ایسے عدالتی کمیشن اس سے پہلے بھی بنتے رہے ہیں، لیکن ان سب کا حاصل وصول سب کو معلوم ہے۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے پانامہ لیکس کی بنیاد پر وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی۔

مسئلہ اب راولپنڈی اور اسلام آباد کے مابین نہیں رہا۔ یہ بجا ہے کہ شریف برادران کو کئی اطراف سے دبانے کی کوششیں کی گئی، لیکن سچ یہ بھی ہے کہ ن لیگ کو ان کی نالائق قیادت کے باوجود اب تک حکومت سے بے دخل نہیں کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے ادوار کی کرپشن اور موجودہ دور کی کرپشن میں ایک ہی رجحان مشترک ہے اور یہ رجحان ہے متناسب ریشو کا۔

پانامہ لیکس کی دستاویزات کی تعداد کروڑوں میں ہے، جبکہ ایک اندازے کے مطابق لوٹی گئی دولت دنیا کی کل دولت کا 8 فیصد بنتی ہے اور اس ساری کرپشن کا ایک حصہ پاکستانی سیاست دانوں کے پیٹوں میں ہے۔ شنید یہ ہے کہ ابھی اور بھی دستاویزات لیکس ہوں گی۔ یعنی جن کے دامن صاف ہیں، وہ بھی اپنے گریبان جھانک لیں، کہیں کل کو منہ نا چھپاتے پھریں۔

نواز شریف صاحب اور اُن کی کابینہ کہتی ہے کہ ان پر براہ راست کسی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔ تب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ان کے بچوں کی کمائی کا آغاز کیسے ہوا؟ کیا وہ منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے تھے؟ سوال اس سے بھی بڑا یہ ہے کہ آخر یہ سبھی لوگ پاکستان کو ٹیکس کیوں نہیں دنیا چاہتے؟ جب یہ پیدا پاکستان میں ہوئے ہیں تو انڈے باہر جاکر کیوں دیتے ہیں؟ وزیر اطلاعات کا فرمان بجا کہ حسین نواز وغیرہ تو گزشتہ 20 سالوں سے بیرونی ملک رہتے ہیں۔ بھائی جہاں بھی رہیں، خوش رہیں لیکن اپنی پاکستانی شہریت کا تو حق ادا کریں ناں۔

عمران خان صاحب کی قیادت میں بھی چند چور چھپے بیٹھے ہیں۔ لیکن یہ خوش گوار بات ہے کہ خان صاحب لوٹ مار کے خلاف ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس نقطہ پر خاں صاحب کو جماعت اسلامی کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے جو اِس وقت کرپشن پاکستان مہم چلارہے ہیں، اور سب سے پہلے سراج الحق کے ساتھ مل کر اپنے صوبے میں کرپشن فری حکومت کا قیام ممکن بنانا چاہیے، تاکہ بقیہ صوبائی حکومتوں کے لیے مثال بنائی جاسکے۔

اسلامی تاریخ کو آج کے بادشاہ اپنے لیے آئیڈیل نہیں بناتے، اس خوف سے کہ کہیں پتھر کے دور میں ہی ناں بھیج دیئے جائیں، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکمران ترقی یافتہ دنیا سے ہی سبق سیکھ لیتے جہاں آئس لینڈ کے وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بہت سو کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک بات اعلانات تک ہی محدود ہے۔

آج سیاسی قیادت کا امتحان ہے۔ اپنی قیادت کو بے داغ ثابت کرنے کا امتحان۔ ایسے عناصر کو اپنی پارٹی سے نکال باہر کرنے کا جن پر اربوں روپوں کی کرپشن کا الزام لگا ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں ایسا کر پائیں گی؟

سندھ کے بے تاج بادشاہوں نے بھٹو صاحب کی برسی پر عوامی پیسہ کا بے دریغ استعمال کیا۔ کروڑوں روپے اس سلسلے میں لوٹائے گئے، جبکہ مختلف محکموں میں ہونے والی لوٹ مار کا شمار یہ ہے کہ عدالت عالیہ بھی پکار اُٹھی ہے۔ لیکن بے شرم حکمران اپنے بڑوں کی قربانیوں کا سہارا لیکر عوام کو بیوقوف بنانے کا مجرمانہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سندھ کو کیوںکر کرپشن فری بنایا جا سکے گا؟ منی لانڈرنگ کا کیس ایک سال کی طویل مدت کے بعد حل نہ ہوسکا۔ حالات و واقعات دیکھتے ہوئے تو لگ رہا ہے کہ جیسے قوم بس عدالتی سماعت ہی دیکھتی رہے گی کیوںکہ رقم کا اصل مالک کون تھا اور کہاں ہے کا جواب عدالتی کاروائی سے سامنے نہیں آ سکا۔

دولت کے انبار لگانے والے اتنی دولت کا کیا کریں گے؟ زندگی کے چار دن ناجانے کس لمحے ختم ہوجائیں۔ پھر یہ سب کن کی خوشیوں کے لیے جمع کیا جا رہا ہے؟ عوام کی فلاح و بہبود کے خوبصورت نعرے کیا ایسے ہی پورے کیے جائیں گے؟ چونکہ اب تو تمام ہی لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج وطن عزیز پاکستان میں سیاسی حکمران کیسے مال بنا رہے ہیں۔ خواہش ہے کہ کوئی تو اٹھے جو لوٹ مار کے اتوار بازار کو بند کرسکے۔ سویا ہوا پاکستانی کب جاگے گا؟ آئس لینڈ کے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کی خبر اور ہمارے وزیراعظم کے جوڈیشل کمیشن بنانے کی خبر پڑھ کر کیا آپ اب بھی پوچھیں گے کہ مغرب ہم سے آگے کیوں ہے؟۔

کیا آپ وزیراعظم کی جانب سے ’جوڈیشل کمیشن‘ کے قیام کے اعلان کو احسن قدم سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔