بلوچستان کا بیچارا صحافی

طلعت حسین  جمعـء 16 نومبر 2012
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

اس مرتبہ بلوچستان جا کر یوں محسوس ہوا جیسے کسی اور خطے میں آ گیا ہوں۔

ہمارے ملک کا یہ حصہ سیاسی طور پر تو ہمیشہ ہی نظروں سے اوجھل رہا ہے مگر اب یہاں کے حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ ہزاروں خبریں صحافیوں کو درپیش خطرات کے باعث بننے سے پہلے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔ یا پھر ایسے انداز سے سامنے لائی جاتی ہیں کہ ان کا سر پیر باقاعدہ تلاش کرنا پڑتا ہے جس کے لیے ہمارے پاس آج کل وقت نہیں ہے کیونکہ ہماری تمام تر توجہ اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں اور تازہ گہما گہمی پر ہے۔ اس صوبے میں کیا ہو رہا ہے وہ تب ہی سامنے آتا ہے جب گمشدہ افراد کے مقدمے کی بات ہوتی ہے اور یا پھر جب کوئی بڑا بحران، جیسا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سامنے آیا، پیدا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ یہاں پر زندگی کی کیا روش ہے۔ لوگ جی رہے ہیں یا معاشی موت مر رہے ہیں۔ نقل مکانی کر رہے ہیں یا خضدار کے رہائشیوں کی طرح مکمل طور پر محصور ہو کر دن گزار رہے ہیں۔ ان معاملات سے نہ کسی کو کوئی سروکار ہے اور نہ کوئی جاننا چاہتا ہے۔ بلوچستان کو اخبارات میں جگہ دلوانے کے لیے صرف بدترین معاملات اور ملک سے علیحدہ ہو جانے والی تحریکوں جیسے مسائل کے حوالے استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ان مثالوں کی غیر موجودگی میں بلوچستان کی نہ تو نمایندگی ہوتی ہے اور نہ ہی بطور موضوع نمایاں ہو پاتا ہے۔

مرکز میں موجود بے اثر اور بے توقیر حکومت اور عمومی طور پر بے حس ذرایع ابلاغ کے علاوہ جن عوامل نے اس قابلِ مذمت صورتحال کو جنم دیا ہے، ان میں سے چند ایک کا تعلق صوبے میں موجود قیادت سے ہے۔ پاکستان کے کسی حصے میں شاید ایسی سیاسی قیادت کسی اور کی قسمت میں نہیں لکھی گئی ہو گی جیسی یہاں پر موجود ہے۔ اسمبلی اور گورنر ہائوس میں ہر شخص اس صوبے کے نام پر نام اور دام کما رہا ہے جب کہ اس وسیع سر زمین کے طول و عرض میں گھوم پھر کر آپ کو کبھی یہ احساس نہیں ہو گا کہ عوام کی فلاح کے لیے کوئی نمایاں اور دیر پا کام ہوا ہے، کوئٹہ ایئر پورٹ سے نکلتے ہی آپ بھانپ لیں گے کہ اس سر زمین پر ان طبقوں کی حکمرانی ہے جو یہاں سے صرف اپنی جیبیں بھر کر سرمایہ ملک سے باہر یا پاکستان کے دوسرے ترقی یافتہ حصوں میں منتقل کرنے میں مصروف ہوں گے کیونکہ اگر کسی کو اس علاقے کا رائی کے برابر بھی احساس ہوتا تو شاید آج بلوچستان کی بوسیدہ پوشاک پر مخمل کا ایک آدھ پیوند تو نظر آ جاتا۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہے۔

ہاں! ڈیروں،ہُجروں، بیٹھکوںاور پُرشکوہ فصیلوں کے درمیان تنی ہوئی موٹی موٹی دیواروں کے پیچھے بیٹھے ہوئے نوابوں، مذہبی وڈیروں، جرائم پیشہ گروہوں کے سربراہوں، اسمگلروں وغیرہ کی زندگیاں آسان، پُر تعیش اور انتہائی رنگین ہیں۔ پیسے کی فراوانی ہے اور غربت کے مارے ہوئے ضرورت مندوں کی لمبی لمبی قطاریں ہیں جن کو وہ جیسے چاہیں استعمال کریں۔ کبھی اپنی ذاتی فوج کے طور پر اور کبھی نام نہاد نظریاتی جنگ میں بطور ایندھن۔ عوام ان تمام استحصالی قوتوں کے گویا زر خرید غلام ہیں۔ وقت پر ان کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی۔ وہ ان کے لیے بندوق بھی اُٹھاتے ہیں اور ان کی جھوٹی قسموں کے حق میں گواہ بھی بنتے ہیں۔

چونکہ بلوچستان میں تقریباًتمام سیاسی قوتیں اسی نظام میں خوش و خرم ہیں لہٰذا کوئی کسی کے بارے میں کوئی احتجاج یا بڑی شکایت نہیں کرتا اور اس طرح بلوچستان سے باہر کبھی یہ خبر صحیح طریقے سے پہنچ ہی نہیں پاتی کہ یہاں پر روزانہ اس نظام کے چلانے والے اور اس پر ظاہراًَ تنقید کرنے والے جو اس کے حقوق کی بات کرتے ہوئے بھی نہیں تھکتے، دونوں کس طرح ایک مسلسل جبر کا تحفظ کر رہے ہیں۔ کوئی بھی اس حقیقت کو بیان کرنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کرتا کہ پچھلے 2 سال میں اس صوبے کو دی جانے والی تقریباً 400 بلین روپوں کی خطیر رقم کہاں پر صرف ہوئی۔ ظاہر ہے جب سب نے مل کر لوٹا ہو تو لوٹنے پر شور کون مچائے گا۔

بلوچستان کو پستی کی چکی میں پیس کر یہاں کے عمائدین اور اسلام آباد میں موجود حکمرانوں نے اپنے سیاسی حلقے مضبوط کر لیے ہیں۔ ان سب نے یہاں پر گرنے والی لاشوں کو سستی شہرت کے لیے خوب بیچا ہے اور اپنی طاقت کے پھل دار درخت کو عوام کے خون سے سینچا ہے۔ اگر پاکستان میں کوئی استحصال کی اصل داستان ہے تو بلوچستان کے اس ظالم طبقے سے متعلق ہے جو خود کو مظلوموں کا حامی جتلاتا ہے مگر کبھی بھی طاقت کے توازن کو عوام کے حق میں تبدیل نہیں ہونے دیتا۔

عموماً ایسے حالات میں ذرایع ابلاغ کا کردار زیادہ موثر ہو جاتا ہے۔ میڈیا عوام کی عدالت بن جاتا ہے جہاں پر سائل آ کر اپنا مقدمہ بیان کرتا ہے۔ اگر انصاف نہ بھی ملے تو کم از کم دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی تسلی حاصل کر کے واپس چلا جاتا ہے۔ مگر بلوچستان میں میڈیا خود زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ درجنوں صحافیوں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرنے کے بعد جو تصویر بنی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ آج یہاں پر کوئی قلم ایسا نہیں ہے جس پر خوف اور لرزہ طاری نہ ہو۔ کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو صاف الفاظ میں حقیقت بیان کر سکے۔ ایک طرف کالعدم مذہبی انتہاء پسند تنظیمیں ہیں تو دوسری طرف نام نہاد علیحدگی پسند گروپ۔ باقی سمتوں سے خطرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ طاقتور سیاستدان اور ریاست کے ادارے سب ہاتھ میں چابک لیے کھڑے ہیں۔ ہر کوئی کھال اُتارنے پر تیار ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس وقت بلوچستان کا صحافی یہاں کے عوام سے زیادہ بے بس اور لاچار ہے۔ وہ حکیم جس کے دروازے پر ہر مرض کے علاج کا دعویٰ لٹکا ہوا ہے اس وقت خود نزع کے عالم میں ہے۔ گھر سے نکلنے سے لے کر واپس آنے تک صحافی کے دوست اور ان کے گھر والے کلمہ طیّبہ کا وِرد کرتے رہتے ہیں۔ نہ جانے کب کہاں سے موت کا فرشتہ آ کر دبوچ لے۔ کب کوئی فون پر یا خود دفتر میں آ کر بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کی تفصیل سے ایسے آگاہ کرے کہ جسے وہ اسی کے گھر میں رہتا ہو اور پھر یہ کہے کہ ہم آپ کو نہیں بلکہ ان سب کو چن چن کر مار دیں گے۔ اور پھر جب مالکان تنخواہ وقت پر نہ دیتے ہوں یا اتنی دیں کہ پٹرول کا خرچ بھی پورا نہ ہو تو پھر کس نے کیا صحافت کرنی ہے۔ جان بچ جائے یہی کافی ہے۔ بلوچستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس کا شاید سب کو اندازہ ہے۔ اس کا بھی علم ہے کہ وہاں پر گمشدہ افراد کا کیا قصہ ہے اور سیاسی جوڑ توڑ کیسے جا ری ہے۔ مگر عام لوگ، بشمول صحافی، روزانہ کس عذاب سے گزرتے ہیں اس کی خبر کبھی نہیں بنتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔