نیشنل بک فائونڈیشن دیوانِ غالب سے ہیر وارث شاہ تک
ہمارے یہاں خرد دشمنی کی جو وبا چلی ہے اس کا مقابلہ ہم اچھے خیالات اور اچھی کتابوں سے کرسکتے ہیں۔
اس وقت مجھے دہائیوں پہلے کی وہ کتاب یاد آرہی ہے جو باتصویر تھی، تمام تصویریں رنگین اور یورپ کے بہترین نقاشوں کی بنائی ہوئی۔
پانچ، چھ سو صفحوں کی اس کتاب کو بچوں کے لیے ادب کے خزینے کا نام دیا گیا تھا ۔اس کے ابتدائی صفحات پر ایک عجیب منظر ہے جسے اگرتوجہ سے دیکھا جائے تو ذہن پر نقش ہوجاتا ہے۔ دریا کا کنارہ، گھاٹ پر اوندھا لیٹا ہوا بچہ پڑھ رہا ہے۔ ایک شخص گھوڑے پر سوار کہیں جارہا ہے اور پڑھ رہا ہے، کشتی میں بیٹھی ہوئی حسینہ اورنوجوان پڑھنے میں غرق ہیں، پیڑ پر لکڑی کے چھوٹے سے گھر میں بیٹھا ہوا لڑکا، سائیکل چلاتا ہوا مرد سب ہی کتابوں میں غرق ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی زندگی کا مقصد ہی کتاب پڑھنا ہے۔ یہ کتاب اور اس میں چھپی ہوئی نقاشی یاد آئی تو ونڈر لینڈ کی ایلس کا یہ جملہ بھی یاد آیا کہ اگر کتاب باتصویر نہ ہو اوراس میں باتیں نہ ہورہی ہوں، تو اس کتاب کا فائدہ ہی کیاہے۔ خوابوں میں غرق ایک بچی کو یہی کہنا چاہیے تھا۔ لیکن سچ بھی یہی ہے کہ بچے ہوں یا بڑے، کتاب کو دلکش اور دل فریب ہونا چاہیے۔
نیشنل بک فائونڈیشن کے مظہر الاسلام کا بچپن یا ایسی کتابوں کے درمیان بسر ہوا ہے یا پھر انھیں پیلے کاغذ پر چھپی ہوئی بد صورت کتابیں پڑھنے کے تجربے سے گزرنا پڑا ہے تب ہی نیشنل بک فائونڈیشن کی ذمے داریاںسنبھالنے کے بعد انھوں نے جی میں ٹھان لی کہ ان کا ادارہ اچھی کتابیں شایع کرنے کے ساتھ ہی انھیں دیدہ زیب بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا۔ نیشنل بک فائونڈیشن کی کہانی یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے اسے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت 1972 میں قائم کیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد جہاں یہ تھا کہ کتابوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلایا جائے، وہیں یہ بھی تھا کہ وہ غیر ملکی کتابیں جن میں سے بیشتر نصابی تھیں۔ انھیں ایک معاہدے کے تحت یہ ادارہ شایع کرے اور طالب علموں تک انھیں پہنچایا جائے۔ اس ادارے نے ایسی بہت سے کتابیں چھاپیں لیکن ان کا طباعتی معیار مناسب نہیں تھا۔ فائونڈیشن نے ایک اہم معاہدہ ہندوستان کے علمی اور تحقیقی ادارے دارالمصنفین، اعظم گڑھ سے کیا اور اس کی کئی کتابیں شایع کیں جن سے بہ طور خاص پاکستان میں عربی پڑھانے اور پڑھنے والوں کو فائدہ ہوا کیونکہ اس سے پہلے یہ کتابیں پاکستان میں میسر نہیں تھیں اور اگر مل بھی جائیں تو آگ کے مول تھیں۔
فائونڈیشن نے گزشتہ چند برسوں میں جو کتابیں شایع کی ہیں انھیں دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ اداروں کو افراد کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ دیوان غالب کا جیبی ایڈیشن جس اہتمام سے شایع کیا گیا اسے دیکھ کر آنکھیں روشن ہوتی ہیں۔ دلی کی غالب اکیڈمی کے مطبوعہ جیبی دیوان کو فائونڈیشن نے بنیاد بنایا ہے اور اسے عبدالرحمان چغتائی، صادقین، محمد تجویدی اور دیگر ایرانی، ترک اور ازبک مصوروں کی مصوری سے سجایا اور سنوارا گیا ہے۔ اسی طرح اقبال کی کلیات میں 'بانگ درا' 'بال جبرئیل' 'زبور عجم' وغیرہ کو یکجا کیا گیا ہے اور اسے آرائشی حاشیوں سے مزین کیا گیا ہے۔ دیوان غالب ، کلیات اقبال اور منتخب اشعار پر مشتمل 'بیاض' ان لوگوں کے لیے خاصے کی چیز ہے جو کتابیں شوق سے خریدتے ہیں اور تحفے میں بھی دیتے ہیں۔ عام خریدار کی جیب پر یہ یقیناً گراں گزریں گی لیکن اس کا جی چاہے گا کہ وہ بھی اسے خریدسکے اور اپنے پاس رکھ سکے۔
اسی طرح مظہر الاسلام نے بہت محبت ادب اور عقیدت سے ''ہیروارث شاہ' چھاپی ہے جو پنجابی ادب کا عظیم شاہ کار ہے۔ اسے عمدہ کاغذ اور اعلیٰ رنگین طباعت سے سجایا گیا ہے۔ 26 ستمبر کو انھیں یہ کتاب تحفتاً ارسال کی تو ساتھ ہی ایک خط بھی بھیجا۔ لکھتے ہیں۔
محترمہ زاہدہ حنا: سید وارث شاہ پنجابی کے عظیم شاعر ہیں۔ کوئی انھیں پنجابی کاشیکسپیئر کہتا ہے، تو کوئی مولیئر۔ کوئی انھیں سعدی کا ہم پلہ مانتا ہے تو کوئی رومی کا۔ ان کی تصنیف ہیر وارث شاہ کے مطالعہ سے ان کے کئی روپ کھل کر سامنے آتے ہیں۔ وہ بیک وقت صوفی بھی ہیں اور رند بھی۔ ملا بھی اور قلندر بھی۔ وہ موسیقی کے رموز سے بھی آگاہ ہیں۔ لگتا ہے کہ انھیں وید، ویدانت، گیتا، اُپنشدوں اور پرانوں پر مکمل عبور حاصل ہے۔ بھگتی لہر بھی ان کی شاعری میں لہراتی نظر آتی ہے۔ وہ اسلامی تصوف و اخلاق میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔
سید وارث شاہ کا تاریخ کا مطالعہ نہایت وسیع ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں اپنے ہم عصرسیاسی ماحول کی عکاسی نہایت فنکارانہ انداز سے کی ہے۔ تنویر بخاری کی یہ بات درست ہے کہ اگر ہمارے پاس عہد کی کوئی تاریخ موجود نہ ہوتو ہیر وارث شاہ کی ہی کافی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں پنجاب کی سیاسی صورتحال پر کھل کر روشنی ڈالی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہ تاریخ کی کوئی کتاب نہیں لکھ رہے تھے، بلکہ ایک عشقیہ قصہ بیان کررہے تھے۔ اس کے باوجودانھوں نے ہیر رانجھا کے قصہ میں اپنی تاریخ دانی کے اظہار کے مواقعے پیدا کرلیے۔ سید وارث شاہ نے پنجابی کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو بھی اجاگر کیا ہے۔
وارث شاہ کی شخصیت اور ہیر وارث شاہ کے متن کے بارے میں اس کتاب کا انداز محققانہ ہے۔ یہ کتاب تنویر بخاری کی پچاس سالہ تحقیق کا نچوڑ ہے۔ اس کتاب کا ایک دیدہ زیب نسخہ آپ کے مطالعے کے لیے بجھوا رہا ہوں۔مظہر الاسلام منیجنگ ڈائریکٹر تنویر بخاری نے اس کتاب کو نہایت تحقیق و تفتیش سے لکھا ہے اور اس میں وارث شاہ کی شخصیت، عہد اور فن کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ بڑے شاعروں کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ الحاقی کلام کا ہوتا ہے۔ بخاری صاحب نے 'ہیر وارث شاہ میں ملاوٹی اشعار' کا باب قائم کرکے پنجابی ادب کی بڑی خدمت کی ہے اور پروفیسر ضیاء محمد کی کتاب ''یادگارِ وارث'' کے حوالے سے لکھا ہے کہ اب اس کا مصدقہ نسخہ ملتا نہیں اور اگر کسی کے پاس نسخہ ہے بھی تو وہ ناپید کے برابر ہے کیونکہ اس کا پردہ اخفا میں رکھنا کار ثواب خیال کیاجاتا ہے اور کسی دوسرے کا اس سے مستفید ہونا گناہِ عظیم۔ لہذا اس نسخے کا عدم ووجود برابر ہوا۔ انھوں نے ایک طویل فہرست ان شعراء کی بھی دی ہے۔ جنہوں نے 'ہیر وارث شاہ' میں ہیرا پھیری کی۔اس کتاب میں وارث شاہ کے ہم عصر سیاسی ماحول، ان کی عشقیہ شاعری اور پنجاب کا تمدن جس طرح 'ہیر' میں محفوظ ہوا ہے۔ اس کا بھی تذکرہ تفصیل سے ہے۔
فائونڈیشن نے ایک اور خاص کتاب 'علم فلسفہ کے معیار: ایک سو عظیم فلسفی' شایع کی ہے۔ یہ ہمارے ایک نام دار محقق اور مترجم یاسر جواد کی محنت کا ثمر ہے۔ اس کتاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں انھوں نے ہندوستان، جاپان اور چین کے اہم فلسفیوںکو بھی شامل کیا ہے۔ ہر فلسفی کی ایک رنگین تصویریا تصویری مجسمے کا عکس بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ یوں تو اس کا ہر صفحہ غورو فکر پر اکساتاہے لیکن ابن سینا کی تصویر کی پشت پر یہ جملہ بہت معنی خیز ہے کہ 'دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس عقل ہے اور مذہب نہیں۔ دوسرے وہ جن کے پاس مذہب ہے مگر عقل نہیں۔'' ہم ان دنوں ایسے ہی لوگوں کے نرغے میں ہیں اور لوگ بے خطا وبے قصور قتل ہورہے ہیں۔ قتل ہونے والوں کو علم نہیں کہ وہ کیوں مارے گئے اور قتل کرنے والے اس لذت سے سرشار ہیں کہ انھوں نے جنت کو جانے کا پروانہ حاصل کرلیا۔
اس کتاب کے مصنف یاسر جواد صاحب سے تھوڑا ساگلہ اس بات کا ہے کہ انھوں نے ابن رشد کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو بیان نہیں کیا۔ ابن رشد ہماری تاریخ کا وہ فرد ہے جس کی کتابیں ہم نہ جلاتے اور اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک نہ کرتے تو آج ہمارا وہ حشر نہ ہوتا جو ہوا۔ یہ تلخ حقائق ہمارے لوگوں کو معلوم ہونے چاہئیںکہ یورپ نے جس شخص کی کتابوں سے استفادہ کیا، وہ ہمارا ابن رشد ہے۔ یہ ابن رشد کے یہودی شاگرد تھے جو اس کی کتابیں اپنے ساتھ چھپا کر یورپ کے مختلف شہروں میں لے گئے۔ ان کے عبرانی ترجمے ہوئے اور یورپ کی عقل پر جو زنگ آلود قفل پڑے تھے وہ کھلے اور نشاۃ الثانیہ کی راہ ہموار ہوئی۔ آج ہم جس بحران کے گرداب میں ہیں اس کا ایک سرا صدیوں پہلے کی ہماری غلط کاریوں سے جا ملتا ہے جن سے آگاہی ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔
فائونڈیشن اور اس کے سربراہ قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے مختلف موضوعات پر عمدہ کتابیں منتخب کیں اور اعلیٰ طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا۔ ہمارے یہاں خرد دشمنی کی جو وبا چلی ہے اس کا مقابلہ ہم اچھے خیالات اور اچھی کتابوں سے کرسکتے ہیں۔ یہ سائنسی علوم، ادب، تاریخ، سماجیات، تذکروں اور داستانوں کی کتابیں ہیں۔ مظہر الاسلام اس میدان میں اترے ہیں تو اپنی ہمت سے بڑھ کر کام کریں کہ یہی ذریعہ نجات ہے۔ فرد کی اور قوم کی نجات۔