پانامہ لیکس وزیراعظم قوم کو سچ بتائیں

حکومت اوراپوزیشن بحران کےحل کےلیےجذبات اورمحاذ آرائی کےبجائےپانامہ بحران سےنمٹنےکا آئینی و قانونی راستہ اختیار کریں


Editorial May 12, 2016
قومی اسمبلی سے خطاب کریں اور اپنے اور اپنے اہل خانہ کے خلاف منکشف حقائق یا الزامات کا اس ایوان میں جواب دیں فوٹو؛ فائل

وزیراعظم نواز شریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے منگل کو اہم ملاقات کی ۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے دوران ملاقات کہا کہ پانامہ لیکس کے اثرات سلامتی اور سیکیورٹی چیلنجز پر پڑ رہے ہیں، ملکی سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ پانامہ لیکس کا معاملہ جلد حل کیا جائے۔ بی بی سی کے مطابق پانامہ پیپرز کے آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کی یہ پہلی ملاقات تھی۔

وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف میں ہونے والی ملاقات میں جہاں ملک کی اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی کی صورتحال پر بات چیت کی گئی وہیں آرمی چیف نے ملکی سیاست کو درپیش ایک اہم معاملہ بھی اٹھایا جو بلاشبہ ملکی داخلی صورتحال کی عکاسی کا فطری مظہر تھا۔ دیکھا جائے تو پوری قوم اس ذہنی اذیت میں گرفتار ہے کہ کل کیا ہوگا، افواہوں اور چہ مگوئیوں سے فضا بوجھل ہوئی جا رہی ہے، حکومت پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ وہ جلد مسئلے کا حل ڈھونڈے، اس کڑے امتحانی دورانئے میں نادانستہ پسپائی ، یا تاخیری ہتھکنڈوں سے طوفان کو ٹالنے کی کوئی تدبیر کام نہیں آسکتی بلکہ جو صحیح مشورہ جنرل راحیل شریف نے دیا ہے اس پر کاربند رہتے ہوئے پانامہ لیکس کی تاریک سرنگ سے جلد باہر آنے کی کوئی سبیل نکالی جا سکتی ہے۔

اس سلسلہ میں وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا جس میں ملکی سیکیورٹی کی صورتحال اور آپریشن ضرب عضب کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی رضوان اختر خان، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں کومبنگ آپریشن پر بات کی گئی۔ آپریشن ضرب عضب میں پیشرفت اور آئی ڈی پیز کی گھروں کو واپسی کے معاملات بھی زیر بحث آئے۔

سیاسی قیادت کو پاک افغان سرحد پر حالات میں ابتری کا بھی فوری ادراک کرنا چاہیے، ہوسکتا ہے دشمن ہماری داخلی بدامنی اور انتشار سے فائدہ اٹھانے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہو، ملکی سالمیت ہر چیز پر مقدم ہے، پانامہ ایشو حکمرانوں کے اعصاب پر سوار ہے جب کہ وہ اس پر شفاف طریقے سے غالب آنے کی کوشش کریں، اپنی پاک دامنی ثابت کریں، ملک کو کرپشن فری اور بد انتظامی سے پاک مالیاتی و اقتصادی نظام کی ضرورت ہے۔ ایسے نظام کی جہاں خود احتسابی کی نئی روایت جنم لے۔ وزیراعظم اور جنرل راحیل شریف کی تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ہونے والی اس اہم ترین ملاقات کے بارے میں ذرایع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس میں فیصلہ کیا گیا کہ کرپشن کسی بھی ادارے میں ہو اور کسی بھی سطح پر، اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ایک نجی ٹی وی نے دعویٰ کیا کہ آرمی چیف نے زور دیا ہے کہ وفاقی حکومت پانامہ لیکس کے معاملے کو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر جلد منطقی انجام تک پہنچائے۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں بحران کے حل کے لیے جذبات اور محاذ آرائی کے بجائے پانامہ بحران سے نمٹنے کا آئینی و قانونی راستہ اختیار کریں، جمہوریت کی بقا اسی میں ہے۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پانامہ لیکس نے حکمرانوں سے ان کے سیاسی تدبر، وژن ، عملی اقدام کی طاقت اور پیش قدمی کی صلاحیت سلب کرلی ہے اور وہ خود کو بند گلی میں پاتے ہیں جب کہ وقت کی بے محابہ للکار یہی ہے کہ وزیراعظم ملکی پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے کی حقیقت ثابت کریں۔

قومی اسمبلی سے خطاب کریں اور اپنے اور اپنے اہل خانہ کے خلاف منکشف حقائق یا الزامات کا اس ایوان میں جواب دیں جہاں اپوزیشن دوسرے دن بھی واک آؤٹ کرچکی ہے جب کہ وزیراعظم کی جمعہ کو قومی اسمبلی میں آمد کا عندیہ دیا گیا ہے حالانکہ اس حقیقت کا ادراک سیاسی و عسکری قیادت سے زیادہ کسے ہوگا کہ پانامہ لیکس کے غیر معمولی ارتعاش سے نہ صرف ایوان اقتدار لرزہ براندام ہے بلکہ سیاسی و سماجی حلقوں میں بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت نے عوام کو الجھن اور مایوسیوں کی نذر کردیا ہے ، لوگ سوچنے لگے ہیں کہ آخر پانامہ لیکس کا مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا۔

ظاہر ہے درست فیصلے کا وقت نکل جائے تو قوت فیصلہ سے معذوری کے ان تاریخی لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا کے طور پر ہماری قومی سیاسی تاریخ کے اوراق میں درج ہوجائیگی،اس لیے صائب طرز سیاست ، مثبت انداز فکر اور پختہ سیاسی ارادہ کا تقاضہ ہے کہ مالیاتی بدعنوانی اور ملکی دولت و اثاثوں کو آف شور کمپنیوں میں محفوظ رکھنے سے جڑے اس بحران کا جلد کوئی دانشمندانہ اور پائیدار حل تلاش کیا جائے جس نے در حقیقت ملکی معاشی و مالیاتی نظام اور اشرافیہ کے اسیر حرص ہونے اور زر پرستی کے ایک درد انگیز المیہ کو بے نقاب کیا ہے۔ اگر پانامہ کے متاثرین یہ سمجھتے ہیں کہ پانامہ لیکس نے ان کی عزت نفس پر حملہ کیا ہے تو وہ جلدی کریں، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور وزیراعظم قومی اسمبلی میں آکر قوم کو سچ بتائیں۔دیر کس بات کی ہے۔

مقبول خبریں