سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)

رضاالحق صدیقی  اتوار 29 مئ 2016
مہاتیر محمد نے جب اصلاحات شروع کیں تو مختلف ایئرلائنز کی بھی نجکاری کردی اور ملک میں نجی کمپنیوں کو ایئرلائینز کے قیام کی اجازت دی جسکی وجہ سے وہاں اندرون ملک سستی سواری کے طور پر کئی ایئرلائنز دستیاب ہیں۔

مہاتیر محمد نے جب اصلاحات شروع کیں تو مختلف ایئرلائنز کی بھی نجکاری کردی اور ملک میں نجی کمپنیوں کو ایئرلائینز کے قیام کی اجازت دی جسکی وجہ سے وہاں اندرون ملک سستی سواری کے طور پر کئی ایئرلائنز دستیاب ہیں۔

لنکاوی جزیرہ

ڈاکٹر مہاتیر محمد نے جب اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا تو مختلف ایئرلائنز کی بھی نجکاری کردی تھی اور ملک میں نجی کمپنیوں کو ایئرلائینز کے قیام کی اجازت دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اندرون ملک سستی سواری کے طور پر کئی ایئرلائنز دستیاب ہیں۔ ایرو ایشیاء اور ملنڈو دو ایسی ایئرلائنز ہیں جنہیں سستی ترین کہا جاسکتا ہے۔ بیرونِ ملک سفر کرنے والے یا تو اپنے ٹریول ایجنٹ کے ذریعے ہی ٹکٹ بک کراتے ہیں یا پھر انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے لئے اپنے بجٹ اور اپنے شیڈول کے مطابق بکنگ کرا لیتے ہیں۔ یہی صورتحال ہوٹلوں کی بھی ہے۔ جس ملک آپ جارہے ہوں وہاں کے ہوٹل، ایئرلائینز، قابلِ دید مقامات کی تفصیلات انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔ آپ گھر بیٹھے اپنا ٹور پلان کرسکتے ہیں۔ ہم نے پاکستان سے کوالالمپور اور واپسی کی ٹکٹیں تو پاکستان میں ٹریول ایجنٹ کے ذریعے بک کرا لیں تھیں لیکن ملائیشیا میں اندرونِ ملک مختلف مقامات تک جانے اور آنے کے علاوہ سنگاپور جانے کے لئے ٹکٹ نیٹ کے ذریعے ہی بک کرائے تھے۔ اسی طرح ہم جہاں جہاں جانے کا پروگرام بناتے تھے، انٹرنیٹ پر وہاں کے دستیاب ہوٹلوں کی فہرست میں سے لوگوں کے دئیے ہوئے تاثرات پڑھنے کے بعد ہوٹلوں کی بکنگ کرالی جاتی تھی۔ یہ طریقہ کار اس لئے بہتر رہتا ہے کہ پسند اور بجٹ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ یہ اتنی لمبی تمہید اس لیے باندھی ہے کہ شاید اس طریقے سے ہمارے کالم پڑھنے والے کچھ احباب جو کبھی سفر کا ارادہ رکھتے ہوں فیض یاب ہوسکیں۔

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)

ہماری اگلی منزل ملائیشیا کے خوبصورت جزائر کا صدر مقام ’لنکاوی‘ تھا۔ ہم نے دو سال پہلے تھائی لینڈ کا بھی سفر کیا تھا اور وہاں دیگر مقامات کے علاوہ اس کے ایک معروف جزیرے پھکٹ پر بھی دو ایک روز گزارے تھے، اِس لیے وہاں کی خوشگوار یادیں ابھی تک ہمارے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھیں، لیکن لنکاوی کیسا ثابت ہوتا ہے یہ تو وہاں جا کر ہی پتہ چلے گا۔

ہم نے ملنڈو ایئرلائن میں کوالالمپور سے لنکاوی کے لئے سیٹیں بک کرائی تھیں۔ مقررہ وقت پر بورڈنگ ہوگئی، لیکن لائونج میں ایئرلائن کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ لنکاوی کے لئے فلائٹ میں کچھ تاخیر ہے جس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ ہم پریشان ہوگئے کیونکہ ہمیں تو اپنے پاکستان کا تجربہ اب بھی یاد تھا۔ ابھی ہم اُسی کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ پھر اعلان ہوا کہ لنکاوی جانے والے مسافر جہاز پر تشریف لے جائیں۔ ان کے اس اعلان پر ہمیں خوش گوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا کہ کہاں تو ہماری ایئرلائینز ہیں جو تین تین گھنٹے کی تاخیر کی نا تو اطلاع دیتی ہیں اور نا ہی معذرت کرنا پسند کرتی ہیں۔

کوالالمپور سے لنکاوی کی فلائٹ ایک گھنٹہ اور پانچ منٹ کی ہے۔ لنکاوی چونکہ جزیرہ ہے اس لئے وہاں جانے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک بذریعہ ہوائی جہاز اور دوسرے بذریعہ پانی کے جہاز یا کشتی۔ چھوٹے چھوٹے بحری جہاز بھی چلتے ہیں۔ وہ سیاح جو زیادہ عرصے کے لئے آتے ہیں وہ سمندری سفر کا مزہ ہی لیتے ہیں لیکن ہمارے جیسے چند روز کے مہمانوں کو ہوائی جہاز کا سفر ہی درست رہتا ہے۔ ملنڈو کا جہاز دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ جدید طرز کا نیا جہاز، سیٹوں پر ٹچ سسٹم والی ایل سی ڈی، جس میں گیمز کی بھرمار تھی۔ سفر شروع ہونے کے بعد جب باہر نظر دوڑائی تو دور دور تک پانی نظر آیا۔ ہمارا ایک مسئلہ ہے کہ ہمیں سمندر اور اونچائی دونوں سے ہی ڈر لگتا ہے، اِس لیے ہم نے باہر سے نظریں ہٹالیں اور ایل سی ڈی پر ڈھونڈ کر آسان سی گیم کھیلنا شروع ہوگئے۔ جہاز میں موجود بچے ہمیں گیم کھیلتا دیکھ کر ہنسنے لگے لیکن جب دیکھا کہ ہم پر تو اثر ہی نہیں ہورہا تو خود بھی گیم کھیلنا شروع کردیا۔ سستی فلائٹ کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جہاز میں کھانے کو کچھ نہیں دیتے۔ ملنڈو سستی ایئر لائن ہے، جہاز عمدہ ہیں لیکن انہوں نے مسافروں کو نمکیں بسکٹوں کے ایک ٹکی پیک اور آپِ زم زم سائز کی پانی کی بوتل پر ٹرخا دیا۔ ابھی ایئر ہوسٹس تواضح کے اس ’خصوصی‘ اہتمام سے فارغ ہی ہوئیں تھیں کہ پائیلٹ نے لینڈنگ کا اعلان کردیا اور پھر ہم چند منٹ بعد لنکاوی کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ کرگئے۔ یہ تھا تو انٹرنیشنل ایرپورٹ لیکن بالکل ہمارے سکردو کے ایئرپورٹ جیسا۔ جہاز سے اترے تو سامنے ہی ایئرپورٹ کی عمارت کے اندر داخل ہوئے تو سامان کی بلٹ سامنے ہی تھی، اِس لیے سامان لینے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔

سامان لے کر ایئرپورٹ کے اندر سے ہی ہم نے رینٹ اے کار سے گاڑی بک کروالی۔ لنکاوی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں بغیر لائسنس دیکھے آپ کو گاڑی کرائے پر مل جاتی ہے۔ لنکاوی 99 ٹراپیکل آئی لینڈز کا مجموعہ ہے۔ مین آئی لینڈ ’پلایو لنکاوی‘ کہلاتا ہے جسے عرفِ عام میں صرف لنکاوی پکارا جاتا ہے۔ یونیسکو(UNESCO) نے اسے جیو پارک کا درجہ دیا ہوا ہے۔ اس کے جیولوجیکل ہیری ٹیج، اس کے ششدر کردینے والے لینڈ سکیپ، 500 ملین سال پرانی تاریخ لئے اس کے غار ہیں، یہ آئی لینڈ منفرد چٹانی سلسلہ رکھتا ہے جو انسانی تصور کو منجمد کرکے رکھ دیتا ہے اور دماغ کو حیران کردیتا ہے۔

یہ وہ باتیں تھیں جو اس ٹور سے پہلے ہم نے حاصل کی تھیں، کیا یہ جزیرہ واقعی ایسا تھا یا کچھ ایسا سہانا بنا کر پیش کیا گیا تھا؟ ہم سامان لئے بیرونی دروازے کے پاس کھڑے تھے کہ عدیل بیٹا گاڑی کی چابی لے کر آگیا۔ ہم نے سامان گاڑی میں ٹھونسا (اسے دیکھنے والے ٹھونسنا ہی کہہ رہے ہوں گے کیونکہ سامان زیادہ تھا اور ہماری پوتی کے علاوہ ہم چار فرد اور بھی تھے) اور ہوٹل کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ آئی فون اور گوگل نے زندگی آسان کردی ہے۔ لنکاوی میں بیٹے نے آئی فون میں لنکاوی کے ہوٹل کا نام فیڈ کیا اور آئی فون ہمارا گائیڈ بن گیا۔ آئی فون کی بندی ہمیں بول بول کر راستہ بتاتی رہی اور ہم کچھ ہی دیر میں اپنے ہوٹل کے باہر تھے۔ ہمیں گاڑی ہی میں بیٹھا رہنے کا کہہ کر عدیل بیٹا ہوٹل میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد پورٹر ہمارا سامان ٹرالی میں رکھ کر لے گیا۔ ہمیں جو کمرے ملے تھے وہ خاصے بڑے تھے۔ بیرونی منظر بھی اچھا تھا لیکن کمرے پرانی طرزِ تعمیر کا نمونہ تھے۔ بالکل واپڈا کے ریسٹ ہاوس کے کمروں جسے۔ ہم تو کمر سیدھی کرنے ایک دم بستر پر لیٹ گئے جبکہ خواتین اٹیچی کھول کر کپڑے نکالنے لگ گئیں۔ ابھی دن ختم ہونے میں خاصا وقت تھا اس لئے جاتے ہی باہر نکلنے کا پروگرام تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔