فیض صاحب چند مہربان یادیں

پہلے پہل تو احتراماً فیض صاحب سے ڈر لگا لیکن جب دو چار بار واسطہ پڑا تو ڈر محبت اورایک خاص لگائو اور انس میں بدل گیا۔


Abdul Qadir Hassan November 21, 2012
[email protected]

عظیم المرتبت خوبصورت شاعر جناب فیض سے میری پہلی ملاقات ہفت روزہ لیل و نہار کے دفتر میں ہوئی۔

یہ دفتر ان دنوں نکلسن روڈ کے شروع میں یعنی میکلوڈ روڈ کے قریب ایک صاف ستھری عمارت میں تھا۔ یہ عمارت غالباً پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر نواب زادہ مظہر علی خان کے کسی قریبی رشتے دار کی تھی۔ دوسری منزل پر دفتر تھا فیض صاحب کا جو اس ہفت روزہ کے چیف ایڈیٹر تھے بڑے شوق کے ساتھ آیا کرتے تھے جب کہ انھیں اس کی ضرورت نہیں تھی لیکن ایک تو نئے ادبی جریدے کی خوشی اور دوسرے اس کے ایڈیٹر سید سبط حسن سے ان کا خصوصی تعلق تھا جو انھیں ہر روز یہاں کھینچ لاتا تھا۔

پہلے پہل تو احتراماً فیض صاحب سے ڈر لگا لیکن جب دو چار بار واسطہ پڑا تو یہ ڈر محبت اورایک خاص لگائو اور انس میں بدل گیا۔ میں یہ عرض کرنا تو بھول گیا کہ میں اخبار چھوڑ کر اس جریدے میں بھرتی ہو گیا تھا۔ مجھ سے پہلے یہاں حسن عابدی' نصیر انور' ارشاد زیدی' سید قاسم محمود اور غالباً ریاض شاہد آ چکے تھے۔ ایک اور صاحب بھی یہاں کے مستقل مقیم اخلاق احمد دہلوی تھے جو سامنے رہتے تھے اور گپ لڑانے باقاعدگی کے ساتھ آجاتے تھے۔ سبط صاحب اس خوش گفتار شخص سے یوں تنگ آ گئے کہ وہ ان کا وقت بہت ضایع کرتے تھے۔ جو ان کے پاس بہت کم تھا۔

خود لکھنا ہم لوگوں کی تحریریں درست کرنا بھاری بھر کم ڈاک کا مطالعہ کرنا اور فیض صاحب سے اہم موضوعات اور یادوں پر گفتگو جو کبھی کبھار بحث بھی بن جاتی تھی۔ نظریاتی طور پر اگرچہ دونوں کٹر کمیونسٹ تھے لیکن فیض صاحب میں ایک ملائمت اور آزاد سوچ تھی جس کا اظہار وہ مسلمانوں کی ثقافت اور علوم و فنون کے بارے میں کیا کرتے تھے۔ تب تو مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن بعد میں یوں محسوس ہونے لگا کہ فیض صاحب اسلام اور کمیونزم کا ایک خوبصورت ملاپ ہیں جس میں تشدد ہر گز نہیں سمجھوتہ بہت ہے۔

فیض صاحب کو جب پتہ چلا کہ میں عربی اور فارسی میں کچھ شد بد رکھتا ہوں وہ اس سے بہت خوش ہوئے اور جب میں نے ایک بار ڈاکٹر طہٰ حسین کے کسی مضمون کا ترجمہ کیا تو فیض صاحب نے اسے دیکھ کر مجھے یاد فرمایا اور سبط صاحب سے کہنے لگے دیکھو طہٰ حسین کتنا بڑا آرٹسٹ ہے کیا کمال کرتا ہے۔ یہ پیدائشی نابینا کس قدر تیز خیال کا مالک ہے۔

فیض صاحب بہت ہی دھیمے مزاج کے آدمی تھے۔ ان کی طبیعت میں نرمی تھی اور کسی بھی طرح یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کتنے بڑے شاعر ہیں اور ہمارے چیف ایڈیٹر بھی۔ جب دفتر میں داخل ہوتے تو ہم سب کے لیے ان کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی۔ کسی بات پر شاباش دینی ہوتی تو یہ مسکراہٹ رنگ بدل لیتی۔ ایک خوبصورت انداز کے ساتھ کسی کی محنت اور قابلیت کا اعتراف کرتی۔ کچھ وقت بعد ہمارا آفس پی پی ایل کے مرکزی دفتر میں منتقل ہو گیا، میو اسپتال کے سامنے۔

اگر کبھی سبط حسن صاحب کو کہیں باہر جانا ہوتا تو پھر فیض صاحب ہمارے ایڈیٹر بن جاتے اور مضامین کی اصلاح کرتے لیکن یہ اصلاح شاعرانہ نہیں آسان اور عام فہم نثر میں ہوتی۔ فیض صاحب بہت ہی خوبصورت نثر نگار تھے شاعر تو وہ بڑے تھے ہی نثر بھی کمال کی لکھتے تھے۔ جناب فیض صاحب کے ساتھ نیاز مندی کا پر لطف سلسلہ تب تک جاری رہا جب ایوب خان نے اس ادارے کو سرکاری تحویل میں لے کر نیشنل پریس ٹرسٹ کے نام سے ایک سرکاری ادارہ بنا دیا۔ کمیونسٹ دنیا کے باہر کمیونزم کا یہ سب سے بڑا نشریاتی ادارہ ختم ہو گیا جس کا انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کو دنیا بھر میں ایڈیٹری کی ایک مثال سمجھا جاتا تھا۔

اس کے انتقال کے بعد عالمی پریس کا یہی تاثر تھا۔ یہ ادارہ لاہور کے ایک جاگیردار میاں افتخار الدین نے قائم کیا تھا جو کمیونسٹ ملکوں کے ساتھ کچھ کاروبار بھی کرتے تھے لیکن ایک جدی پشتی رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اب لاہور کا یہ کلاسیکی خاندان بھی نیست و نابود ہو چکا ہے۔ اس بدقسمت شہر نے جہاں کئی نئے خانوادوں اور اداروں کو پروان چڑھایا وہاں اپنے پرانے خاندانوں کو زمانے سے بچا نہ سکا۔

سوائے میاں امیر الدین کے خاندان کے اب سب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کی جگہ نئے لوگوں اور خاندانوں نے لے لی ہے مگر میں جناب فیض کے بارے میں اپنے ملازمانہ تعلق کی بات کر رہا تھا۔ اگرچہ فیض صاحب نے کبھی کسی کو ملازم نہ سمجھا بس ساتھی کارکن سمجھا۔ لیل و نہار ایک سیاسی اور ادبی ہفت روزہ تھا لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس میں خود فیض کا کلام کبھی نہیں چھپا۔

پریس ٹرسٹ کے قیام سے فیض صاحب کے ساتھ براہ راست تعلق ختم ہو گیا۔ افغانستان میں روس کی آمد پر جب دنیا میں ایک غلغلہ برپا ہوا تو ان دنوں میں نے روس کے سفیر جناب سرور عظیموف کے ساتھ لاہور میں انٹرویو کیا اوران سے ایک سوال یہ بھی کیا کہ کیا پاکستان اور روس میں صلح ہو سکتی ہے۔ جواب تھا کیوں نہیں، تو پھر کون ہے جو رابطہ قائم کر سکتا ہے، تو انھوں نے کئی پاکستانیوں کا ذکر کیا سوائے فیض صاحب کے جب کہ یہ انٹرویو فیض صاحب کے مریدوں نے طے کیا تھا۔

بعد میں جب افغان جنگ بہت پھیلتی گئی تو میں نے ایک دن اپنے ایڈیٹر جناب مجید نظامی سے کہا کہ کیا فیض صاحب سے ثالثی کی بات نہ کی جائے۔ میں لیل و نہار کے بعد پھر نوائے وقت میں لوٹ آیا تھا۔ ان کی اجازت سے میں نے وقت مانگا اور جب حاضر ہوا تو انھوں نے جھاڑ پلائی کہ اتنی مدت تم کہاں رہے۔ یہ ان کی محبت تھی۔ میں نے انٹرویو میں جب روس اور پاکستان میں ثالثی کے لیے کہا تو وہ فوراً آمادہ ہو گئے۔ میری اس حاضری پر انھوں نے مجھے اپنا تازہ کلام نیوز پرنٹ کے ایک صفحے پر لکھ کر عنایت کیا۔ ''نذر رئیس المتغزلین'' (مولانا حسرت موہانی) جب میں نے اجازت چاہی تو فرمایا رابطہ رکھا کرو۔ میں نے صدر ضیاء الحق تک یہ پیغام پہنچا دیا۔

بلاشبہ پاکستان کے پاس فیض صاحب ایسے کام کے لیے واحد شخصیت تھے اور ان کی ثالثی بے کار نہیں جا سکتی تھی لیکن رموز مملکت نہ جانے کیا تھیں کہ پاکستان کی طرف سے مثبت جواب نہ آیا۔ فیض صاحب نے بھی کچھ نہ پوچھا شاید اس لیے کہ میں یہ اسٹوری اخبار میں چھاپ چکا تھا غالباً شہ سرخی تھی اور متعلقہ طبقوں میں پہنچ چکی تھی۔ میں نوکری کرتا رہا اور فیض صاحب نہ جانے کہاں کہاں اپنے وطن کو مسافرانہ یاد کرتے پھرے۔ وہ سچے پاکستانی تھے۔

دہری شہریت والے نہیں تھے۔ اپنے پاکستان کا درد ان کے دل میں ہمیشہ زندہ رہا۔ وہ ایک مسلمان تھے اور اپنے اسلام کو ظاہر کیا کرتے تھے بلکہ اسلام کے ساتھ ان کا ایک شاعرانہ رومانس تھا۔ ان کی شاعری میں ہمیں کلام پاک کی کئی آیات کی تفسیریں اور ترجمے ملتے ہیں، اس پر کسی صاحب ذوق ادیب نے سنا ہے کوئی کتاب بھی لکھی ہے اگر مجھے مل گئی تو میں اس سے آپ کا تعارف کرائوں گا۔ میں نہ کمیونسٹ نہ شاعر صرف فیض کا ایک عقیدت مند اور ان کی شاگردی کا دعوے دار۔

عقیدت مند ہی نہیں مجھے ان کی خوبصورت ملائم اور شریفانہ خاندانی شخصیت سے پیار تھا۔ افسوس کہ ان کے پیروکاروں نے ان کے نام پر ناٹک کیے میلے سجائے لیکن فیض کا تعارف کسی نے نہیں کرایا شاید کسی نے کوشش کی ہو مگر میری نظر سے نہیں گزری۔ مجھے اپنا یہ شاعر جو سر تا پا پاکستانی تھا ہمیشہ یاد رہتا ہے اور اس کی شاعری تو خود ہی اپنا تعارف ہے۔ اقبال کے بعد ہمارا یہی بڑا شاعر ہے۔

مقبول خبریں