امریکا میں دہشت گردی کا واقعہ

ایڈیٹوریل  منگل 14 جون 2016
 دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اس کا تعلق مذہب سے جوڑنے کے بجائے عالمی تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے فوٹو: نیویارک پوسٹ

دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اس کا تعلق مذہب سے جوڑنے کے بجائے عالمی تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے فوٹو: نیویارک پوسٹ

امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوبی شہر اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب میں مسلح شخص نے فائرنگ کرکے50افرادکوہلاک اور53 کو زخمی کردیا، پولیس کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور بھی مارا گیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق29سالہ حملہ آور کی شناخت عمرمتین کے نام سے ہوئی جو افغان نژادامریکی شہری اورفلوریڈا کے شہر پورٹ سینٹ لوسی کا رہائشی تھا۔ حملہ آورکے والد کا کہنا ہے عمرمتین نے جو حرکت کی اس کا مذہب سے تعلق نہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے سانحہ فلوریڈا کو امریکی تاریخ میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو میدان نہیں بننے دینگے‘ نفرت اور دہشت گردی کا کوئی اقدام ہمیں بدل نہیں سکتا‘ فلوریڈا میں حملہ ہم سب پر حملہ ہے‘ امریکا اپنی اقدار نہیں بدلے گا۔

امریکا میں جو افسوسناک واقعہ رونما ہوا وہ حقیقتاً امریکی تاریخ میں دہشت گردی کا ایک بدترین واقعہ ہے اس سے قبل بھی امریکا میں ایسے کئی دہشت گردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن ان میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ یہ واقعہ کیوں رونما ہوا اس کے پس پردہ حقائق کیا ہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں ہو سکا البتہ ایف بی آئی اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے لہٰذا اصل حقائق تو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔

امریکا یا یورپ میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہاں کا میڈیا فوراً اس کا تعلق اسلامی انتہا پسندی سے جوڑتے ہوئے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیتا ہے لہٰذا دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد بھی خدشہ یہی ہے کہ وہاں کا میڈیا اس واقعے کو افغانستان‘ پاکستان اور اسلامی انتہا پسندی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرے گا۔

جس طرح مغربی میڈیا نائن الیون کے واقعے کو سعودی عرب سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے مگر  امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جان برینن نے ایک انٹرویو میں واضح کر دیا ہے کہ نائن الیون کے واقعے سے سعودی عرب کا کوئی تعلق نہیں۔ مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا اپنی جگہ لیکن دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

ممکن ہے کہ کسی گروپ کا ایجنڈا افراتفری اور انتشار پیدا کرنا ہو۔ امریکا میں اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے جو واقعات رونما ہوئے ان میں بہت سے واقعات میں امریکی شہری ہی ملوث نکلے اب بھی دہشت گردی کا جو واقعہ رونما ہوا ہے اس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ حملہ آور عمر متین امریکا میں ہی پیدا ہوا تھا اس کا خاندان افغانستان سے یہاں آیا تھا اس طرح عمر متین بھی امریکی شہری تھا جو وہیں پروان چڑھا اور اس نے وہیں تعلیم حاصل کی۔

افغان نژاد امریکی حملہ آور عمر متین نے حملہ کیوں کیا اس کے کیا مقاصد تھے اس کی تحقیقات کی جا رہی ہے البتہ عمر متین کے والد کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے کو مردوں کی غیراخلاقی حرکات انتہائی ناگوار گزرتی تھیں‘ انھوں نے کہا کہ وہ اس افسوسناک واقعہ پر معذرت خواہ ہیں اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ادھر امریکا میں مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی اورلینڈو فائرنگ واقعہ کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ حملہ نفرت پر مبنی اقدام ہے جس کی اسلام کسی طور پر اجازت نہیں دیتا۔ اورلینڈو حملے کے بعد مبصرین مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں‘ ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ حملہ امریکا کے افغانستان پر حملوں کا ردعمل ہو سکتا ہے جب کہ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ یہ واقعہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے کسی منصوبے کا حصہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ خفیہ ایجنسیاں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بہت سے گھناؤنے اور بے رحم کھیل کھیلتی ہیں۔

ممکن ہے کہ امریکی ایجنسیوں کو عمر متین کے ارادوں کا پتہ چل گیا ہو اور انھوں نے ایک خاص منصوبے کے تحت اسے گرفتار کرنے کے بجائے اس واقعہ کو رونما ہونے دیا ہو تاکہ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کو فائدہ پہنچایا جائے کیونکہ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے گا ۔

جس سے اس کے ہمدردوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا‘ یہ واقعہ بھی اسی طرح کا ہو سکتا ہے جیسے صدر بش کی صدارتی مہم کے موقع پر اسامہ بن لادن کی ویڈیو منظرعام پر آ گئی تھی جس کا فائدہ بش کو پہنچا اور وہ صدر منتخب ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ٹرمپ کو بھی یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ اگر صدر اوباما بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کا ذکر نہیں کرتے تو وہ استعفیٰ دے دیں۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اس کا تعلق مذہب سے جوڑنے کے بجائے عالمی تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے اور اس سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کو مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔