صرف کلمے کی ہی تو کمی ہے

قیصر اعوان  ہفتہ 25 جون 2016
جس طرز حکمرانی کی تبلیغ اسلام کرتا ہے اُسی حکمرانی کا عکس ہمیں مسلمان حکمرانوں میں کم اور غیر مسلم حکمرانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ فوٹو: فائل

جس طرز حکمرانی کی تبلیغ اسلام کرتا ہے اُسی حکمرانی کا عکس ہمیں مسلمان حکمرانوں میں کم اور غیر مسلم حکمرانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ فوٹو: فائل

نہ دھاندلی کا شور بلند ہوا، نہ جیت کی خاطر حکومتی مشینری استعمال کی گئی، نہ ملک کے وسیع تر مفاد میں نتائج روکنے کی کوشش کی گئی، نہ اپنی توقع کے مطابق نتائج نہ آنے پر کسی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بس ایک منصفانہ ریفرنڈم کرایا گیا جس میں باعزت طریقے سے عوام سے اُس کی رائے پوچھی گئی اور پھر عوام کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کردیا گیا۔

یاد رہے کہ 23 جون کو برطانیہ میں ہونے والے تاریخی ریفرنڈم کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی رائے یہی تھی کہ یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کو رہنا چاہیے۔ یہ صرف ان کی رائے نہیں تھی بلکہ انہوں نے ایسا کرنے کے لیے بہت محنت بھی کی۔ لیکن چونکہ ریفرنڈم آزادانہ تھا اِس لیے حکومتی اثرورسوخ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس رائے کے خلاف فیصلہ آنے کے کچھ ہی دیر بعد ڈیوڈ کیمرون نے یہ کہتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے مستعٰفی ہونے کا اعلان کر دیا کہ،

’’میرے لیے مناسب نہیں کہ میں ان حالات میں ملک کی قیادت کروں کہ جب عوام نے اس موقف کی حمایت کی ہے جس کا میں مخالف تھا‘‘۔

جمہوریت میں عوام کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور اُس کی خواہشات کا احترام کیسے کیا جاتا ہے اس کی ایک جھلک ڈیوڈ کیمرون کے اس غیرت مندانہ فیصلے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بد قسمتی سے آپ کو مسلم دنیا میں نہ ڈیوڈ کیمرون جیسے ملک و قوم سے مخلص حکمران نظر آئیں گے اور نہ ہی اپنی دولت غریبوں کے لیے وقف کردینے والے بل گیٹس جیسے خدا ترس انسان۔

ہم نے آج تک جن اسلامی تعلیمات کو صرف درس و تدریس تک اہمیت دی ہے اُس پر غیر مسلم سختی سے عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں، گویا کہ صرف کلمہ پڑھ لیں تو اُن سے زیادہ پکا مسلمان کوئی نہ ہو۔ جس طرز حکمرانی کی تبلیغ اسلام کرتا ہے اُسی حکمرانی کا عکس ہمیں مسلمان حکمرانوں میں کم اور غیر مسلم حکمرانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ دن بدن بلندی کی طرف گامزن ہیں اور ہم پستی کی طرف۔

اگرچہ یہاں پاکستان میں بھی میاں نواز شریف سے اپنے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون کی طرح جرات مندی کا تقاضا کیا جارہا ہے مگر مجھے تو اپوزیشن میں بھی کوئی لیڈر ڈیوڈ کیمرون کی طرح ملک و قوم کا بھلا چاہنے والا دکھائی نہیں دیتا۔ سب اقتدار کے حصول کے لئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ میں تو سوچتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ ایسا ریفرنڈم پاکستان میں کرانے کی ضرورت پیش آجائے تو ہمارا کیا بنے گا؟ میں نے تو اپنے ہوش میں پاکستان میں صرف ایک ہی ریفرنڈم دیکھا ہے جو پرویز مشرف صاحب کے دور میں ہوا تھا، اور وہ شاید دنیا کا واحد ریفرنڈم تھا جس میں بچوں کی آواز کو بھی اہمیت دی گئی تھی۔

میں اُس وقت آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس ریفرنڈم میں کم از کم دس بارہ مرتبہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا، مگر نتائج پھر بھی میری توقع کے مطابق نہیں آئے تھے۔

بہرحال، قصہ مختصر یہ کہ ڈیوڈ کیمرون کو دیکھ کر تکلیف ہوئی، اِس لیے نہیں کہ وہ اس قدر بااخلاق کیوں ہیں، بلکہ اِس لیے کہ وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں، اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو جو مسلمان ہیں وہ ایسے کیوں نہیں ہیں۔ اگر دونوں میں کوئی ایک بھی کام ہوجائے تو یقین کریں دنیا میں مسلمانوں کی بڑھتی پستی فوری طور پر رک جائے گی کہ رب کریم بھی انہی لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں جو دنیا کے بگاڑ کے بجائے بناو میں کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہم دعا اور ٹھیک لوگوں کو ووٹ دینے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں؟ اِس لیے اگر آپ بھی ذاتی مفادات کے لیے انہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو نہ زبان کے پکے ہیں اور نہ اخلاق کے تو تھوڑا غور کیجیے، کیونکہ ان کے غلط کام کی سزا صرف انہیں ہی نہیں بلکہ آپ کو بھی ملے گی کیونکہ وہ آپ کے ووٹ سے ہی تو بااختیار بنے ہیں۔

حکمرانوں کے حوالے سے بیان کیے گئے بلاگر کے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔