کیا یہی اندازِ مسلمانی ہے؟

زید عفان  منگل 28 جون 2016
یہ کیسی منافقت ہے کہ جب میرا دل چاہے میں عورت کو چوراہے میں کھڑا دیکھ کر تالیاں پیٹوں اور جب دل نہ ہو تو اسے کوسنے دوں؟

یہ کیسی منافقت ہے کہ جب میرا دل چاہے میں عورت کو چوراہے میں کھڑا دیکھ کر تالیاں پیٹوں اور جب دل نہ ہو تو اسے کوسنے دوں؟

جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور جس نے اللہ کے لیے بغض رکھا اور جس نے اللہ کے لیے کسی کو کچھ دیا اور جس نے اللہ کے لیے کسی کچھ دینے سے روکا اس نے گویا ایمان مکمل کرلیا۔ (سنن ابی داؤد)

ذرا لمحہ بھر کو رک کر سوچیے کہ ہمارے سوشل میڈیا کے اکثر و بیشتر قائدین کا ’’قائدانہ کردار‘‘ کس قدر دوغلا ہے۔ رائٹ ونگ کے دلدادہ بلکہ یوں کہیے رائٹ ونگ کو لیڈ کرنے والے قائدین کیا حقیقتاً دین کی سر بلندی کی جدوجہد میں مصروف ہیں یا ذاتی عناد کے چکر میں یہ کھیل کھیل رہے ہیں؟ یا پھر مشہوری کی خواہش میں وہ سب کچھ کرتے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے۔ آپ چونک گئے ہوں گے کہ یہ میں نے کیا گھڑاک پھیلادیا ہے کہیں میں خود بھی تو لبرل نہیں ہوگیا؟

مشہور کہاوت ہے کہ علم رکھنے والا آدمی ہر موضوع پر سخن نہیں کرتا۔ پھر یہ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ چند مہینے پہلے تک جب خواتین کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں اپنے ’’جوہر‘‘ دکھارہی تھیں تو ان گناہ گار آنکھوں نے اپنے ہی قائدین کو خواتین کی تصویروں کے ساتھ لمبی لمبی تحریریں لکھتے پایا تھا۔ لکھاریوں کے نام تو مجھے سب یاد ہیں جنہوں نے خواتین کی ہمت و استقامت ’’پُرزور‘‘ انداز میں  داد دی تھی اور اپنے قارئین سے خوب داد سمیٹی تھی۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کیسی جنگ تھی جس میں مرد بھارت سے شکست کھاگئے اور خواتین سُرخرو ہوئیں؟ آخر یہ کیسی جنگ تھی جو ’’رائٹ ونگ‘‘ کے مطابق عورتوں کے لیے عین شرعی تھی؟ یہ کیسی جنگ تھی جس سے رائٹ ونگ کے مردوں کی نظروں کی تسکین ہوئی اور خواتین کا جوش بڑھ گیا؟

اب جب موبائل بنانے والی کمپنی نے اشتہار کے ذریعے حقیقت کو آشکار کیا کہ اکثر لڑکیوں کو گھر سے اجازت نہیں ملتی تو ہمارا سوشل میڈیا کا دانشور طبقہ چیخ پڑا۔

یہ کیسی منافقت ہے کہ جب میرا دل چاہے میں عورت کو چوراہے میں کھڑا دیکھ کر تالیاں پیٹوں اور جب دل نہ ہو تو اسے کوسنے دوں؟ یا پھر لبرل سے میری جنگ اللہ کے لیے نہیں بلکہ ذاتی مفاد پر مبنی ہو۔ کیا میں اور آپ نہیں جانتے کہ ہم تاحال مذہب پسند معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اکثر ماں باپ نوجوان نسل کی بے راہ روی سے نالاں رہتے ہیں۔ مجھ ناچیز کی سمجھ کے مطابق ہمارے قائدین کھیل کو کھیل کی حد تک رکھتے ہیں اور اشتہار کو صرف تشہیر سمجھتے ہیں اور پھر یہ تشہیر تو لبرلز کی طرف سے کی گئی تھی اس لیے ان پر ان کا اچھل کودنا بھی فرض تھا۔

عورت ایک معزز ہستی ہے جو بازار کی زینت کھیل کے لیے بنے تب بھی مناسب نہیں اور اشتہاری ہو تب بھی مناسب نہیں۔ یہ میری اور آپ  کی مرضی پر منحصر نہیں کہ صرف لبرل کی مخالفت کے چکر میں عورت کے حیا باختہ مظاہرے پر گرمی کھائی جائے۔ یہ تو بھلا ہو ان چند معزز ہستیوں کا جنہوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اللہ کے لیے لبرلز سے بغض رکھا اور کسی بھی حیا باختہ مظاہرے کی مثبت انداز میں مخالفت کی جن میں اوریا مقبول صاحب سرِ فہرست ہیں۔

رائٹ ونگ یا مذہب پسند اور مجھ جیسے لوگ اگر دین کا کام اللہ کے لیے کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنا قبلہ درست کرنا پڑے گا۔ اوپر مذکور حدیث کے مطابق اپنے ایمان کی تجدید کرنی پڑی گی تبھی ربِ تعالی کی مدد فرشتوں کی صورت قطار اندر قطار باہر اترے گی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم چیخ چیخ کر نفس کو خوش تو کرسکتے ہیں لیکن آخرت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں سمیٹ سکتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
زید عفان

زید عفان

لکھاری سول انجئنیر ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے فارغ شدہ۔ رفاح اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں سائٹ انجئنیر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کرکٹ اور سیاست میں دلچسپی ہے جبکہ لکھنے لکھانے کا شوق بھی بچپن سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔