- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پولیس وردی پہن لی
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
سگریٹ کی غیرقانونی تجارت سے قومی خزانے کو 90 ارب کا نقصان
اسلام آباد: ملک میں موجودہ قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث گزشتہ 5 سالوں میں غیر قانونی سگریٹ کی تجارت کی مد میں نقصان 90 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 17 ارب سے زائد کے سگریٹ غیر قانونی فروخت ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی سگریٹ مارکیٹ کا 33 فیصد حصہ غیر قانونی آپریٹروں پر مشتمل ہے۔ ملک میں تمباکو نوشی اور سگریٹ کے حوالے سے اس وقت 2 درجن سے زائد قوانین موجود ہیں۔
چاہے وہ تمباکو کی فصل ہو یا سگریٹ سازی کی صنعت۔ مثلا سگریٹ پیپر کی درآمد، فلٹر راڈ، ایکسائز ڈیوٹی، سگریٹ پیکٹ پر ہیلتھ وارننگ، ریٹیل قیمت کا پرنٹنگ سے متعلق قانون، گرین لیف تھریشنگ کے حوالے سے قانون، تمباکو کی تشہیر سے متعلق قانون، پبلک سگریٹ نوشی کے حوالے سے قانون، سگریٹ ساز اداروں کے آڈٹ سے متعلق قانون، غیر ڈیوٹی ادا شدہ سگریٹوں سے متعلق قانون، کم عمر افراد کو سگریٹ فروخت کرنے سے متعلق قانون، غیر قانونی سگریٹوں کی ٹرانسپورٹ سے متعلق قانون، پبلک مقامات پر تمباکو نوشی کی ممانعت، ٹی وی اور اخبارات میں اشتہارات پر مکمل پابندی وغیرہ شامل ہیں جبکہ پاکستان کے 13 ادارے ایسے ہیں جو کہ تمباکو نوشی اورغیر قانونی سگریٹ کی روک تھام کیلیے کام کر رہے ہیں۔
جن میں وزارت صحت، کسٹم، ان لینڈ ریونیو، ایف آئی اے، پولیس، پاکستان کوسٹ گارڈ، پاکستان رینجرز، فرنیٹیر کانسٹیبلری، انٹیلکچوئل پڑاپرٹی آرگنائزشن، پاکستان ٹوبیکو بورڈ، ایکسائز ڈپارٹمنٹ، لیویز وغیرہ شامل ہیں لیکن اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد کا نہ ہونا ہے۔ اس وقت ملک میں غیر قانونی سگریٹ کا حجم اگست 2016 میں کل مارکیٹ کا 38.5 فیصد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اب کارپوریشن برائے اکنامک کوپریشن و ڈیولپمنٹ کا بھی ممبر بن چکا ہے۔
جس کے قوانین کے مطابق پاکستان کو موجودہ قوانین کے موثر ہونے کے حوالے سے تیزی سے ان اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ قوانین کے موثر ہونے کا تجزیہ کیا جا سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جو بھی قانون سازی کرے وہ ملکی، معاشی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کرے اور اس سے پہلے موجودہ قوانین پر عملدرآمد کرنے کے اقدامات کرے۔ سینٹر مشاہد حسین سید نے سینٹ میں انسداد تمباکو نوشی کے حوالے سے ایک بل پیش کیا ہے جو کہ سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کے زیر بحث ہے۔ نئے قوانین کے بجائے پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔