حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (پانچویں قسط)

ذیشان الحسن عثمانی  جمعـء 7 اکتوبر 2016
ایک گولڈن بالوں والا 2 سالہ بچہ، ہمارے خیمے کے عین باہر جالیوں سے لگے بس روتا چلا جا رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو، حاجی کیا تیرا اور میرا اللہ الگ ہے؟ کیا تیرا اور میرا حج الگ ہے؟ کیا تیرا اور میرا حساب الگ طرح کی میزان میں ہوگا۔

ایک گولڈن بالوں والا 2 سالہ بچہ، ہمارے خیمے کے عین باہر جالیوں سے لگے بس روتا چلا جا رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو، حاجی کیا تیرا اور میرا اللہ الگ ہے؟ کیا تیرا اور میرا حج الگ ہے؟ کیا تیرا اور میرا حساب الگ طرح کی میزان میں ہوگا۔

شیطان سے مکالمہ

اچانک اسے شیطان کی آواز آئی، ”عبداللہ تُم؟“ تُم یہاں کیسے؟

کیا ٹور پر گھومنے آئے ہو؟

نہیں۔ عبداللہ دھاڑا، میں حج پر آیا ہوں۔

شیطان نے قہقہہ مارا، بہت خوب، یہ بھی خوب رہی۔

تجھ پر تو بڑی محنت کی ہے۔ چل جا! ضد نہ کر، شاباش اگلے کو راستہ دے۔

نہیں، شیطان مردود میں اللہ کو مانتا ہوں۔

لو، تو میں نے کب اللہ کا انکار کیا ہے؟ میں بھی تو مانتا ہوں۔ شیطان نے تعجب سے کہا۔

مجھے اللہ کی رحمت پر پورا بھروسہ ہے۔

لو، مجھ سے زیادہ کسے ہوگا، تبھی تو تمام انسانوں کو بہکا کے بھی یقین ہے کہ بخشا جاؤں گا۔

تو چُپ کر مردود۔ اب تُو مجھے نہ بہکا سکے گا۔

چھوڑ عبداللہ، ایسی باتیں منافقوں کے منہ سے اچھی نہیں لگتیں، میں تو کم از کم منافق نہیں ہوں۔

یہاں آکر پتھر مارتے ہو، جب حج سے باہر ملتا ہوں تو سیلفیاں کھینچواتے ہو۔ آج کسی فلمی ایوارڈ شو میں چلے جاؤ۔ کسی ایکٹر ایکٹرس کے روپ میں ملوں، کسی کھلاڑی یا سیاستدان، حتیٰ کہ ڈانس کرنے والی، گانا گانے والی کے روپ میں ملوں تو تم لوگ اسی طرح لائن لگا کر آٹو گراف لیتے ہو، سیلفیاں بنواتے ہو۔ بڑے آئے کنکریاں مارنے والے۔

میں نے اِک واری حضرت ابراہیم ؑ کو بہکایا۔ اللہ کے لئے کچھ کرنے سے منع کیا تو دیکھ اللہ نے کیسی عبرت کا نشان بنا دیا کہ ساڑھے چھ ہزار سالوں سے لوگ کنکریاں مارتے ہیں اور میں سر پر مٹی ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔

تم خود سوچو، کتنوں کو بہکاتے ہو، رات فون کے نائٹ پیکیجز پر کون کون سی باتیں کرتے ہو، گناہوں کی کیسی کیسی سوچیں پالتے ہوں، کب کب اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہو۔ تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں کنکریاں مارنی چاہئیں؟ یہاں تو ہر شخص اپنی کنکریاں ساتھ لے کر آتا ہے اور خود ہی کو مارتا ہے، چل تو بھی خوش ہو جا۔

چل چھوڑ، آ میرے ساتھ، اِدھر کھڑا ہو جا دیوار سے لگ کے۔ آپس کی بات ہے زیادہ فرق تو ہے نہیں ہم دونوں میں۔ دیکھ پیچھے مڑ کے دیکھ۔

عبداللہ نے گردن گھمائی تو درجنوں لوگ سیلفیاں کھینچ رہے تھے۔

عبداللہ نے باقی کنکریاں ماریں اور بوجھل قدموں سے ہوٹل کی راہ لی۔

حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (پہلی قسط)

حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (تیسری قسط)

حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (چوتھی قسط)

قربانی

گروپ میں موجود ایک صاحب کے سسر کا اپنا مذبح خانہ تھا۔ 500 ریال کا ایک بربری بکرا۔ عبداللہ نے انہیں ہی قربانی کا کہہ دیا تھا۔ ان صاحب نے رمی سے فارغ ہوتے ہی انہیں فون کردیا۔ 8 بجے صبح رمی سے فراغت ہوئی۔ بس اور پھر پیدل مسافت طے کرتے ہوئے ہوٹل 9 بجے تک پہنچے اور تب تک قربانی ہونے کی کنفرمیشن آچکی تھی۔

عبداللہ کا اِرادہ سُرخ اونٹ کرنے کا تھا جو 10 ہزار ریال تک آجاتا ہے مگر جب اس نے اپنے Mentor کو فون کیا تو انہوں نے منع کردیا اور کہا کہ آپ مکہ میں 15 دنوں سے کم ہیں، قربانی گھر پاکستان میں کریں کہ غریبوں کا بھلا ہو۔ یہاں تو کھال اور گوشت دونوں ہی ضائع ہوجانے کا قوی امکان  ہے۔ حجِ قرٰن کے دمِ شکر کی جو قربانی بنتی ہے وہ کریں اور بس، پیسے کسی اور غریب کے کام آجائیں گے اور یوں بکرے کی قربانی کے ساتھ یہ سنت بھی پوری ہوئی۔

حلق / بال کٹوانا

اگر ایک چوتھائی بال کاٹ لئے جائیں تو وہ قصر کہلاتا ہے۔ مکمل طور پر اُسترے سے سر صاف کرلیں تو یہ حدیث میں افضل آیا ہے اور اسے حلق کہتے ہیں۔ عبداللہ سوچا کرتا جو لوگ بال نہیں دے سکتے وہ جان کیسے دیں گے؟

خیر، کیونکہ وہ جلدی فارغ ہوگیا تھا تو رش کم تھا تھوڑی دیر میں 35 ریال میں اس کا حلق ہوگیا۔

برابر والی دکان والا 45 ریال چارج کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں کسی محکمہ والے نے چھاپہ مارا، 20 ریال لینے کا کہا اور بھاری جرمانہ کردیا۔ دکاندار نے بال کاٹنے والے آدھے کر دیئے اور کہا کہ آرام آرام سے کاٹو تاکہ بدلہ غریب حاجیوں سے لیا جاسکے۔

ایک آدمی پریشان حال مِلا۔ کہنے لگا میں نے تو لاکھوں خرچ کرکے مصنوعی بال لگوائے ہیں میری تو انویسٹمنٹ ڈوب جائے گی۔ یہ تو واپس بھی نہیں اُگیں گے۔ اب اس کا جواب تو کوئی مفتی صاحب ہی دیں گے۔ عبداللہ ان کی پریشانی پر صرف تعجب ہی کرسکتا تھا۔ بہت سے لوگ اپنے شیورز اور ریزرز ساتھ لے گئے تھے کہ نرخوں کی گرانی سے بچیں اور حجام کے ہاتھوں سر کا قیمہ نہ بنوائیں۔

اصل میں گرمی کے باعث اور احرام کی حالت میں صابن یا شیمپو کا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے سر میں ڈھیر سارے دانے نکل آتے ہیں جب اُسترا چلتا ہے تو وہ پاپ کارن کی طرح پھٹنے لگتے ہیں۔ لہٰذا تھوڑا بہت خون نکلنا تو روٹین کی بات ہے۔ پریشان نہ ہوں الکوحل وائپس اپنے پاس رکھیں اور اس سے سر صاف کرلیں۔

احرام

رمی، قربانی، حلق، اِسی ترتیب کے ساتھ کرکے آپ اب احرام کھول سکتے ہیں۔ عبداللہ نے نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے۔ تھکن خوب تھی کہ 9 ذی الحجہ کی صبح سے جاگ رہے تھے اور مزدلفہ کی رات تو ویسے بھی سال کے برابر تھی۔ اوپر سے آج گرمی کچھ زیادہ تھی۔ باقی لوگوں کے رش کی وجہ سے یا کوئی اور وجہ۔ حج کا دن ہمیشہ گرم ہوتا ہے۔

عبداللہ نے سوچا، ہاتھ کے ہاتھ طوافِ زیارت کرتا ہوں۔ حج کا آخری فرض بھی پورا ہوجائے گا اور پھر سکون سے سو لوں گا۔ کیونکہ ابھی صرف 10:30 بجے ہیں تو لوگوں کا رش بھی کم ہوگا۔

عبداللہ ہوٹل سے نکل کھڑا ہوا اور ٹیکسی روکی۔ اس نے 300 ریال مانگے جو عبداللہ کے لئے کوئی مسئلہ نہ تھا مگر یکایک کبری خالد کے حاجی نظروں کے سامنے آگئے۔

اس نے ٹیکسی والے سے کہا، حاجی افورڈ نہیں کرسکتا اور پیدل ہی حرم کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستے میں جتنے ٹیکسی ڈرائیور ملے عبداللہ یہی کرتا۔ ریٹ معلوم کرتا، کہتا حاجی افورڈ نہیں کرسکتا اور آگے بڑھ جاتا۔

ہوٹل سے حرم کا راستہ 6 کلو میٹر ہے مگر گرمی اور لوگوں کے ہجوم میں یہ سفر 60 کلو میٹر کا لگ رہا تھا۔ جگہ جگہ روڈ پر لوگ حجامتیں بنوا رہے تھے 10, 5 ریال دے کر۔ یہ بُری بات ہے ایسے نہیں کرنا چاہئے۔ ایک تو سڑک کنارے بال کٹوانا کوئی اچھی بات نہیں اور بال کاٹنے والے ایک ہی گندہ ریزر استعمال کرتے ہیں جس سے میڈیکل کی کتنی پرابلم ہو سکتی ہے۔ اور پھر آپکے گندے بال تمام حاجیوں کی ٹانگوں میں آتے ہیں۔

خیر 2 گھنٹوں کی مسافت کے بعد عبداللہ حرم پہنچ گیا مگر یہاں تو ایسا رش کہ اتنا رش تو عبداللہ نے زندگی میں کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ ہجوم کے ساتھ رینگتا، لوٹتا، سرکتا آگے بڑھتا چلا گیا اور سیکورٹی والوں نے انہیں کعبہ کی چوتھی منزل پر ڈائریکٹ کر دیا۔ یہاں رش صحن کعبہ کے مقابلے میں نسبتاً کم تھا مگر پھر بھی بہت تھا۔ صحنِ کعبہ میں تو ٹریفک جام تھی کہ کوئی انچ بھر بھی حرکت کرتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہاں لوگ اپنے جوتے چپل پہن کر طواف کر رہے تھے کہ چھت کوئی نہیں تھی اور شدید گرمی سے زمین تپ رہی تھی۔

دھوپ اور پیدل چلنے کی تھکن، عبداللہ نڈھال ہو رہا تھا اس نے آبِ زم زم پیا۔ ظہر کی نماز جماعت سے ادا کی اور طواف شروع کردیا۔ چھت سے طواف، صحن کے طواف سے دگنا بڑا ہے۔ عبداللہ بار بار اپنے جسم کو صلواتیں سناتا کہ کچھ شرم کرلے، کچھ حیا کرلے، کئی سالوں سے اچھا کِھلا رہا ہوں، آرام دے رہا ہوں، اس دن کے لئے۔ آج  ناک نہ کٹوا۔ آج تو لاج رکھ لے۔ چل اپنے رب کی راہ میں چل اپنے اللہ کے لئے۔ یہاں بھی لوگوں کی لائیو براڈکاسٹنگ، سیلفی شوز اور موبائل فونز جاری تھے۔ اللہ غارت کرے ان لوگوں کو جن کے فون یہاں بھی بجتے ہیں۔ اے کاش! اُمتِ مسلمہ مسجد الحرام کو سینما جتنی ہی عزت دے دے کہ موبائل بند کرکے خاموشی سے طواف کرلے، نماز پڑھ لے۔

ہجوم میں جب آپ گھِیرے ہوتے ہیں تو صرف ایک بات کی فکر ہوتی ہے اور وہ ہے کہ سانس آتی رہے۔ نہ آپ اپنی مرضی سے چل رہے ہوتے ہیں نہ رک سکتے ہیں۔ بسِ گھسیٹے چلے جاتے ہیں۔

عبداللہ نے بڑی کوشش کی کہ اسکی فوٹو شاپ اِسکلز آج بھی چل جائیں مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ کوئی دعا یاد رہ گئی تو پڑھ لی ورنہ سارے طواف میں زندہ بچ جانے کی ہی دعائیں مانگتا رہا۔

طواف کے بعد مقامِ ابراہیم ؑ کے پیچھے دو نفل پڑھے اور اسی راستے سے واپس۔ چوتھی منزل کے حرم سے باہر کے باقی تمام راستے بند تھے۔ پھر وہی ٹیکسی کے ریٹس جو اب بڑھ کر 500 ریال تک چلے گئے تھے اور عبداللہ کی تکرار کہ حاجی افورڈ نہیں کر سکتا۔

اُس نے واپس پھر پیدل ہی راہ لی۔ حرم کے ساتھ ہی، ایک چھوٹا سا بازار ہے عبداللہ نے وہاں سے پانی کی بوتل لی۔ اس وقت تک وہ شدید پانی کی کمی کا شکار ہوچکا تھا اور فٹ پاتھ پر کچھ دیر کو بیٹھ گیا۔ کپڑے جھاڑ کر صاف کئے کہ وہ تمام حاجی جو حلق کروا کے احرام اتارے بغیر یہاں آ گئے تھے ان کے بال طواف کے دوران تمام حاجیوں میں تبرک کے طور پر بٹ چکے تھے۔

مجسم بددعا

عبداللہ کے سامنے ایک عربی النسل حاجی احرام میں تھا اُس نے ایک عورت کو روکا اور اس کا سر پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔ وہ اسے بوسہ لینا چاہتا تھا۔ عورت نے بمشکل تمام اپنے آپ کو اس ناگہانی سے بچایا کہ اس کے دونوں ہاتھوں میں شاپنگ کے تھیلے تھے۔ آدمی چلا گیا مگر عورت تقریباً سکتے میں چلی گئی۔ اس غریب کے تو آنسو بھی نہ نکل سکے۔ عبداللہ نے زندگی میں پہلی بار مجسم بددعا دیکھی۔

ایسا لگا کہ وہ کہہ رہی ہو کہ یااللہ! یا ان سب کو غرق کردے یا مجھے اُٹھالے۔ عبداللہ نے بارہا کوشش کی کہ وہ اُٹھ کر اسی کے پاس جائے اور تمام انسانیت کی طرف سے اس سے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لے مگر اس عورت کے چہرے پر آنے والی حدت نے اِسے بٹھائے رکھا۔

عبداللہ بہت دیر سوچتا رہا کہ یہ کیا ہوا، کیوں ہوا مگر جواب ندارد۔

فرسٹیشن کے مارے ہوئے لوگ حاجی بن گئے مگر انسان نہ بن سکے۔

انسان

کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایک اچھا اِنسان بننے کا بھی تہیہ کرلیں۔ کوئی ایسا ادارہ بھی ہو جہاں انسان بنائے جائیں اور مخلوقِ خدا کی تربیت پر کام ہو۔

عقل، غصہ اور شہوت (جنس) وہ تین جبلتیں ہیں جو جانداروں میں پائی جاتی ہیں۔ نباتات اور پودوں میں جنس ہوتی ہے مگر عقل اور غصہ نہیں۔ جانوروں میں غصّہ ہوتا ہے اور شہوت بھی مگر عقل نہیں۔ فرشتوں میں عقل ہوتی ہے مگر غصہ اور شہوت نہیں۔ اِنسان و جن میں عقل، غصہ اور شہوت تینوں ہوتی ہیں۔ ان تینوں کو اعتدال پر رکھنے کا نام اِنسانیت ہے۔

یہ اعتدال یوں تو آسان لگتا ہے۔ ہر آدمی دعوی کرتا ہے کہ جناب غصہ تو آتا ہی نہیں ہے، جنس پر مکمل کنڑول ہے اور عقل بھی دیکھ کے اِستعمال کرتے ہیں مگر حقیقت میں اِن کی آفتوں سے بچنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اگر کوئی شخص زندگی بھر کام کرتا رہے اور مرتے دم تک اِسی فکرمیں لگا رہے تو شاید کچھ بہتری کی اُمید ہو۔ جس نے سمجھ لیا کہ وہ اِس اعتدال میں کامیاب ہوگیا، وہ تو ہلاک ہوا۔

عقل کی خرمستیاں تو منہ چڑھ کر بولتی ہیں۔ بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ جب دلیل اور بندہ آمنے سامنے ہوں تو دلیل مار دو بندہ بچا لو۔ مگر آج اِسی عقل اور دلیلوں کو لوگوں کی گردنیں اُتارنے پر استعمال کرتے ہیں۔ کوئی آپ سے چبھتا ہوا سوال پوچھ لے، کوئی سوشل میڈیا پر کوئی بحث چھیڑ دے، کوئی بڑا یا اُستاد کوئی ایسی بات کر بیٹھے جو آپ جناب کے مزاج سے موافق نہ ہو، کوئی ساتھ کام کرنے والا آپ سے آگے بڑھ جائے، کسی رشتے دار کے بچے آپ کے بچوں پر فوقیت لے جائیں، یا کوئی پڑوسی آپ سے اچھا مکان بنا لے یا گاڑی لے آئے، پھر دیکھیں اس عقل کے کرشمے۔ جب تک کمائے ہوئے مال کو حرام، کئے گئے اعمال کو کفر، اور پائی گئی شہرت کو ذلت میں ثابت نہ کر دیں یہ عقل خاموش نہیں ہو پاتی۔ کسی شخص کی ترقی و کامیابی کو نہ ماننا بھی تکبر کی نشانی ہے اور تکبر عقل پر پلتا ہے۔ آپ دماغ چلانا بند کردیں تو یہ بھوکا مرجائے کہ اِسکو غذا کی شکل میں اِنفارمیشن ہی نہ ملے۔ ویسے بھی اِس سال حج پر 16 لاکھ حاجیوں میں سے یہی عقل کے مارے ہوئے 8 لاکھ ”مفتی“ تھے۔

غصّے کو اعتدال پر رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آدمی کو خلافِ مزاج بات پر غصّہ آتا ہی ہے۔ کوئی ظلم دیکھے، ناانصافی کا سامنا ہو، کوئی لوٹ لے، چوری ہوجائے۔ کوشش کرنی چاہئیے کہ اِس آگ کو اچھے کاموں میں لگائے۔ غصّے سے سینک لے اور نیک کام کرے۔ اپنے بیوی بچوں، اہلِ وعیال کے معاملے میں تو ہر کوئی درگزر سے کام لیتا ہی ہے۔ پتہ تو اُس وقت چلتا ہے جب نوکر کا بچہ گلاس توڑ دے۔ سرعام کوئی گالیاں دینا شروع کردے اور کوئی بغیر کسی وجہ کے آپ کی بے عزتی پر تُل جائے۔ ہمارے ملک میں فرسٹریشن اِتنی زیادہ ہے کہ ہر شخص کو تختہِ مشق چاہئیے ہوتا ہے اپنا غصہ نکالنے کے لئے۔

جنس ایک بے لگام گھوڑا ہے۔ اسے سدھانا بہت مشکل ہے۔ یہ موت تک زور لگاتا رہتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کائنات میں جنس کے سوا کچھ نہیں دکھتا۔ باقی تمام گناہ چھوٹے لگنے لگتے ہیں۔ جنس کا ذہانت کے ساتھ بھی کوئی تعلق ضرور ہے جتنا آدمی ذہنی طور پر طاقتور ہوتا ہے اتنا ہی جنسی رجحان اس میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ کڑا امتحان ہوتا ہے کہ حسن اپنے آپ کو پیش کرے، گانوں، فلموں، اِشتہاروں اور روڈ بِل بورڈز کی شکل میں آپ کے سامنے جلوہ گر ہو اور آپ اپنے آپ پر قابو رکھیں اور نظریں جھکا لیں۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ یاداشت بڑھانی ہو تو آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہئیے کہ علم کبھی گندے برتن میں نہیں آتا۔

قدرت نے جو جائز طریقے بتائے ہیں آدمی اس پر چلے۔ ان سے بھی کنارہ کشی کرے گا تو تباہ ہوجائے گا۔ جو بندہ قدرت سے ٹکرایا، قدرت نے اُسے پچھاڑ دِیا۔

جب بندہ اِن تینوں پر قابو پا لیتا ہے کہ اعتدال پر رکھ سکے۔ تب وہ سلیم الفطرت بنتا ہے، تب اُسے حق ہے کہ اِنسان کہلایا جائے۔ اور کسی اُستاد کے بغیر یہ مقام ملنا بہت مشکل ہے۔ آئیے! مل کر کوشش کریں۔ اِنسانیت کو اِنسانوں کی بہت ضرورت ہے۔

بھوک

ابھی عبداللہ پچھلے المیے پر سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے ہوٹل سے ایک موٹا تگڑا آدمی نِکلا۔ اس نے KFC کے ڈبے سے ایک چکن نکالا، چکھا، تھوکا اور پورا ڈبہ روڈ پر پھینک دیا۔ نجانے کہاں سے ایک برقعہ پوش خاتون نکلی، اسے اُٹھایا اور کھانا شروع کردیا۔ نہ اسے کسی کے دیکھنے کی فکر، نہ صفائی اور حفظانِ صحت کا خیال، یااللہ، یہ میں کیسا حج کرکے جا رہا ہوں۔ عبداللہ ریزہ ریزہ ہوتا چلا گیا۔

ہارٹ اٹیک

آج کا دن زیادہ ہی لمبا اور دردناک ہوتا چلا جا رہا تھا۔ سامنے سے ایک بوڑھا بابا چلتا نظر آیا، کوئی 60 سے اوپر کا ہوگا۔ پاکستانی تھا۔ سینے پر بائیں جانب بڑا سا پیج جیسا ہارٹ اٹیک کی صورت میں لگاتے ہیں اور ECG والے ڈھیر سارے اسٹیکرز، احرام کی اُپری چادر غائب تھی۔ عبداللہ فوراً بھاگ کے اس کے پاس پہنچ گیا۔

بزرگو! کیا ہوا؟

پتہ نہیں بیٹا، کوئی دل کا اسٹروک وغیرہ ہوگیا ہے چادر بھی ہجوم میں رہ گئی۔ میں اب طوافِ زیارت کے لئے جا رہا ہوں۔

مگر تھوڑا آرام کرلیں۔ طواف پرسوں کرلیں۔ 12 ذی الحجہ تک کرسکتے ہیں۔

نہ بیٹا، دل نے میرا زندگی بھر کہا نہ مانا آج کے دن تو اسے موت آنی ہی تھی۔ جو اس نے کرنا تھا وہ کر دیا، جو میں نے کرنا ہے وہ میں کر گزروں گا۔

یہ کہہ کر چاچا جوانوں کی سی چال میں چلا گیا، عبداللہ کو اپنی صحت کے رونے پر ماتم کرتا چھوڑتے ہوئے۔

ثواب خان

اب عبداللہ کی بس ہوگئی۔ اس نے سوچا تھوڑا اور بیٹھے گا تو مرجائے گا اس نے اُٹھ کر چلنا شروع کردیا۔ آگے ٹنل کے پاس جو کہ حرم کے روڈ کو عزیزیا سے ملاتی ہے ایک عربی کو روڈ کے بیچ و بیچ کسی شخص پر جھکے ہوئے پایا۔ عبداللہ کو اس نے پاکستانی کہہ کرآواز دی۔ وہاں کوئی 90 سال کا بوڑھا پڑا تھا۔ سرائیکی سے ملتی جلتی کوئی زبان بول رہا تھا۔ گلے میں پڑے کارڈ سے پتہ لگا کہ اس کا نام ثواب خان ہے اور منیٰ میں مکتب نمبر 96 میں جانا ہے وہ بھی منہ سے منیٰ منیٰ ہی کہہ رہا تھا۔ عبداللہ نے اپنی پانی کی بوتل اُسے دی اور اس کو سہارا دیتے ہوئے چلنے لگا۔

ایک ٹیکسی روکی، منہ مانگے پیسے دیئے اور چاچا کو لے کر منیٰ روانہ ہوا۔ وہ چاچا راستے میں پتہ نہیں کیا کیا بولتا رہا مگر عبداللہ کو ایک لفظ سمجھ نہ آیا۔

کُبری خالد پر پولیس نے منیٰ کا راستہ روکا ہوا تھا۔ ٹیکسی والے نے وہاں اُتار دیا۔ وہاں سے جتنا ممکن ہوا چاچا کو راستہ سمجھا کر عبداللہ نے ہوٹل کی راہ لی۔ وہ راستے بھر سوچتا رہا کہ حج ٹریننگ کے دوران کچھ تو اُردو سکھا دینی چاہئے کہ بندہ اپنا مافی الضمیر ہی کسی کو بتا سکے۔

منیٰ روانگی

مغرب کے فوراً بعد عبداللہ نے منیٰ واپسی کی راہ لی۔ پھر پیدل سفر کبری خالد سے اوپر پہنچے تو شُرطوں نے پہلے 3 راستے بند کر رکھے تھے ایک لمبا چکر کاٹ کے آنا پڑا۔ ہمارے گروپ کے کچھ لوگ تو 10, 10 کلومیٹر چل کر خیموں تک واپس پہنچے۔ بے چارے پاکستانی مشن کے رضاکار یہاں بھی موجود تھے اور حتی الامکان مدد کی کوششیں کر رہے تھے۔ راستے کیوں بند تھے کسی کو نہیں پتہ، شُرطہ ”مافی معلوم“ کے علاوہ کچھ نہیں بولتا۔ عبداللہ نے سوچا کہ یہ ایامِ حج بھی لگتا ہے یوم حشر کا ٹریلر ہیں۔ وہاں بھی نفسا نفسی ہوگی، وہاں موجود فرشتے بھی ان پولیس والوں کی طرح سخت مزاج ہوں گے اور کوئی کسی کا مددگار نہ ہوگا۔ وہاں کیا ہوگا؟ عبداللہ کوجُھرجُھری آگئی۔

خیمے میں پہنچ کر پھر وہی حرکۃ یا حاجی، پولیس سائرن، نوکروں پر ظلم اور جالیوں کے باہر انسانیت کی درگت۔

ایک گولڈن بالوں والا 2 سالہ بچہ، ہمارے خیمے کے عین باہر جالیوں سے لگے بس روتا چلا جا رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو، حاجی کیا تیرا اور میرا اللہ الگ ہے؟ کیا تیرا اور میرا حج الگ ہے؟ کیا تیرا اور میرا حساب الگ طرح کی میزان میں ہوگا۔

عبداللہ آج بھی کھانا نہ کھا سکا۔ مزید، اسے شدید فِلو ہوگیا۔ مختلف ممالک سے آئے حاجیوں کے باعث آپ کو کچھ دنوں میں نزلہ، زکام، ہلکا بخار، قے اور اسہال ہو ہی جاتا ہے۔ ضرورت کی گولیاں اور ORS ضرور پاکستان سے ساتھ لے جایا کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔