(پہاڑوں کا دل وادی ناران کا سفر (دوسرا حصہ

ضمیر آفاقی  بدھ 12 اکتوبر 2016
سیاحت کے نقطہ نظر سے یہ وادیاں دنیا کی بہترین وادیاں ہیں لیکن جس بات یا چیز کی کمی محسوس شدت سے ہوئی وہ حفاظتی بندوبست اور راہنمائی کا فقدان ہے۔

سیاحت کے نقطہ نظر سے یہ وادیاں دنیا کی بہترین وادیاں ہیں لیکن جس بات یا چیز کی کمی محسوس شدت سے ہوئی وہ حفاظتی بندوبست اور راہنمائی کا فقدان ہے۔

بالاکوٹ، یہ وادی کا سب سے بڑا اور جدید شہر ہے۔ بالاکوٹ سر سبز پہاڑوں میں گِھرا ہوا ہے اور اس کے درمیان سے دریائے کُنہار گزرتا ہے۔ اوپر پہاڑوں پر دور دور تک آبادی ہے۔ یہاں کے مکین اس سخت زندگی کےعادی ہوچکے ہیں لیکن اپنے گھروں سے باہر بازار جانے اور آنے میں انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ یہی لوگ جانتے ہیں۔ خطرناک اور دشوار گزار راستے ہر قسم کی حفاظتی بندوبست اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں، جبکہ دور دور تک کسی ڈاکٹر یا کلینک کا نام و نشان بھی نہیں جو کسی حادثے کی صورت میں فوری مدد کو پہنچ سکیں۔ 

سیاحت کے نقطہ نظر سے یہ وادیاں دنیا کی بہترین وادیاں ہیں لیکن جس بات یا چیز کی کمی محسوس شدت سے ہوئی وہ حفاظتی بندوبست اور راہنمائی کا فقدان ہے۔ اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو یہ وادیاں سیاحتی صنعت کا درجہ اختیار کرکے زرمبادلہ کا بہترین زریعہ اور روزگار کا باعث بن سکتی ہیں۔ بالاکوٹ سے وادی کی سیر کرنے کے لئے جیپیں اور پِک اپ باآسانی دستیاب ہیں۔

بالاکوٹ سے آگے بلندی کی جانب 24 کلومیٹر سفر کے بعد کیوائی آتا ہے جہاں پہاڑوں سے آبشار کی صورت بہتا پانی اور چشمہ اتنا دلفریب ہے کہ یہاں آنے والے سیاح کچھ دیر یہاں قیام ضرور کرتے ہیں۔ ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ تصاویر بناتے ہیں۔ اسے آپ ایک پکنک پوائنٹ بھی کہہ سکتے ہیں، یہاں سے تھوڑا آگے ایک راستہ مزید بلندی کی جانب پر فضا مقام شوگران کی جانب نکلتا ہے۔

راستہ پکّی سڑک پر مشتمل ہے اور گھنے جنگلات کے درمیان سے سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا گزرتا ہے، یہ ایک خوبصورت اور سرسبز وادی ہے۔ یہاں قیام و طعام کی سہولت موجود ہے۔ سری پائے یہاں کا خوبصورت مقام ہے، جو یہاں سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر مزید 600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہی راستہ مکڑا پہاڑ کے دامن کی طرف جاتا ہے۔ مکڑا پہاڑ کی دوسری طرف وادی کشمیر واقع ہے۔ یہاں ایک صاف و شفاف چشمہ بہتا ہے اور ایک چھوٹی سی جھیل بھی ہے۔

کاغان، کیوائی سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی وادی کاغان واقع ہے، جسے راہ گزر بھی کہا جاسکتا ہے یہ چھوٹی سے وادی کافی معروف ہونے کے ساتھ کچھ دیر کے لئے پڑاؤ کا کام بھی دیتی ہے۔ یوں تو بالاکوٹ سے بابو سرٹاپ تک ساری وادی ہی وادیِ کاغان ہے لیکن یہ ایک گاؤں ہے۔ خوبصورت مناظر مقامی دستکاریوں اور ڈرائی فروٹ کی دکانوں سے سجی یہ وادی اپنے بے مثال حسن کی بدولت ہمیشہ یاد رہتی ہے۔

وادی کاغان، ضلع مانسہرہ خیبر پختونخوا کی ایک حسین وادی ہے جو اپنے قدرتی حسن کے باعث عالمگیر شہرت کی حامل ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع کئی معروف تفریحی و حسین مقامات اسی وادی میں واقع ہیں۔ 8 اکتوبر 2005ء کو آنے والے تباہ کن زلزلے سے اس وادی کو بھی نقصان پہنچا جبکہ بحالی کا کام ابھی تک جاری ہے۔ وادی کاغان کا نام کاغان نامی قصبے سے پڑا۔ یہ وادی 2134 میٹر سے درہ بابوسر تک سطح سمندر سے 4173 میٹر تک بلند ہے اور 155 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کی آبادی پشتو اور اردو بخوبی جانتی ہے۔

یہ علاقہ جنگلات اور چراہ گاہوں سے اٹا ہوا ہے اور خوبصورت نظارے اس کو زمین پر جنت بناتے ہیں۔ یہاں 17 ہزار فٹ تک بلند چوٹیاں بھی واقع ہیں۔ جن میں مکڑا چوٹی اور ملکہ پربت شہرت کی حامل ہیں۔ پہاڑوں، ندی نالوں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور گلیشیئروں کی یہ وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔ مئی میں یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 11 اور کم از کم 3 درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جولائی کے وسط سے ستمبر کے احتتام تک ناران سے درہ بابوسر کا رستہ کھلا رہتا ہے۔ برسات اور موسم سرما میں وادی میں نقل و حمل مشکل ہوجاتی ہے بلکہ یہاں کے مقامی افراد بھی پہاڑوں سے نیچے اتر کر مانسہرہ، ایبٹ آباد اور اپنے آبائی علاقوں و شہروں میں چلے جاتے ہیں۔

اس حسین وادی تک بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے باآسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بالاکوٹ سے باآسانی بسوں یا دیگر ذرائع نقل و حمل سے کاغان یا ناران پہنچا جاسکتا ہے۔ راستے میں کیوائی، پارس، شینو، جرید اور مہانڈری کے حسین قصبات بھی آتے ہیں۔ ناران، کاغان سے 24 کلومیٹر کے فاصلے پر وادی کا سب سے خوبصورت مقام ہے۔ یہ ضلع مانسہرہ خیبر پختونخوا، پاکستان میں دریائے کنہار کے کنارے سطح سمندر سے 8 ہزار 2 سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

جھیل سیف الملوک اور یہاں کا سب سے اونچا پہاڑ ملکہ پربت ناران سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ لوگ بذریعہ جیپ، گھوڑوں یا پیدل ہی جھیل تک پہنچتے ہیں۔ ناران میں سیاحوں کے لیے اچھی آرام گاہیں اور ہوٹل موجود ہیں۔ 2005ء کے خوفناک زلزلے کے بعد سڑک خراب ہونے سے بہت کم سیاح ناران کا رخ کر رہے تھے تاہم اب اسلام آباد سے ناران تک ایک ہموار اور خوبصورت سڑک تعمیر کردی گئی ہے جس کے ذریعے ایبٹ آباد، مانسہرہ اور بالاکوٹ سے با آسانی یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ ناران میں داخل ہوتے ہی ایک گلیشئر سیاحوں کا استقبال کرتا ہے۔

پوری وادی حسین مناظر سے لبریز ہے۔ ڈیڑھ کلومیٹر طویل سڑک کے دونوں اطراف ہر معیار کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیں۔ اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان پیالہ نما وادی کو یہاں کا دل کہا جاسکتا ہے جو سّیاحوں کی اصل منزل ہوتی ہے۔

ناران کے قریب سب سے اہم تفریحی مقام جھیل سیف الملوک ہے جو یہاں سے اگر راستے کھلے ہوں تو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت اور 10 کلومیٹر ہے اور اگر راستہ بند ہو تو اس کے کھلنے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جھیل سیف الملوک ناران سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے10,500 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ آدھا راستہ جیپ میں طے ہوتا ہے پھر ایک گلیشئر سڑک کا راستہ روک لیتا ہے۔ یہاں سے باقی راستہ پیدل یا خچروں کے ذریعے طے ہوتا ہے۔

یہاں کچھ ٹک شاپ اور ایک ریسٹورنٹ بھی موجود ہے۔ جھیل کے اطراف میں سرسبز پہاڑ اور بے شمار چھوٹے چھوٹے گلیشئرز ہیں اور سامنے 17,360 فٹ بلند برف پوش ملکہ پربت کی چوٹی ہے جھیل میں اس چوٹی کا عکس نظرآتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔