ڈاکٹر انیس خورشید ایک روشن ستارہ

زندگی کا ہر لمحہ بہت اہم و قیمتی ہے اسے ضایع نہیں کرنا چاہیے.


Mazher Jameel 1 December 20, 2012

ڈاکٹر انیس خورشید کی وفات کو پانچ سال ہورہے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے، انھوں نے انڈیا کے شہر کامئی کے محلہ وارث پورہ میں 2 ستمبر 1924 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی اور 4 جنوری 2008 بروز جمعہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔

ڈاکٹر انیس خورشید نے 1938 میں پرائمری اسکول کے اسکالرشپ کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 1943 میں کامئی کے ربانی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور فوراً ہی ملازمت شروع کردی، ساتھ ہی تعلیم جاری رکھی اور 1947 میں انٹرمیڈیٹ (آرٹس) کا امتحان اجمیر بورڈ سے بحیثیت پرائیویٹ طالب علم پاس کیا۔ آپ کو ادبی شعور ددھیال اور ننھیال سے وراثت میں ملا۔ دادا اور خصوصاً ماموں کی صحبت نے شاعری اور لکھنے لکھانے کا شوق و ذوق بڑھادیا۔ بچپن ہی سے لائبریری میں بیٹھک رہی اور میٹرک کے بعد 1943 سے 1947 تک وارث پورہ کامئی لائبریری کی بحیثیت سیکریٹری خدمات انجام دیں۔ آپ کے افسانے دہلی اور دوسرے شہروں سے نکلنے والے رسائل میں چھپے۔

پہلا افسانہ ''بابوجی'' مئی 1944 میں''کامیاب'' میں چھپا اور وہ اتنا پسند کیا گیا کہ پھر باقاعدگی سے منزل اور دوسرے رسائل میں لکھتے رہے۔ ''منزل'' کے شمارہ مئی 1944 میں ''خوشۂ محبت'' ...''منزل'' کے شمارہ فروری 1945 میں ''بھگوان کے چرنوں میں''...''آئینہ '' کے شمارہ مارچ 1945 میں ''لوٹے وقت''...''منزل'' کے شمارہ اپریل 1945 میں ''آخری تحفہ'' ...''منزل'' کے شمارہ جولائی 1945 میں ''چھوٹے سرکار'' ...''منزل'' کے شمارہ ستمبر 1945میں ''صبح عید'' ... ''منزل'' کے شمارہ اکتوبر 1945 میں ''ہوس اور محبت''...''الفاروق کے شمارہ جولائی 1946 میں ''اردو بولو تحریک اور صوبہ سقوط و برار''...''ہماری زبان'' کے شمارہ اگست 1946 میں یہی مضمون دوبارہ چھپا...''منزل'' کے شمارہ جولائی 1947 میں ''مجھے تم سے کچھ کہناہے''...''نظام'' کے شمارہ نومبر 1948 میں ''آپ سے ملیے'' میں چھپے۔

پاکستان بننے کے بعد ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنی پوسٹ ماسٹر جنرل آفس کی جاب کو پاکستان میں منتقل کراتے ہوئے ہجرت کرلی اور شہر کراچی میں آباد ہوئے۔ یہاں پر سی پی کے پرانے دوستوں کی بیٹھک الفٹن اسٹریٹ میں کافی پینے کے بہانے شروع ہوئی، ان میں نواب صدیق علی خاں، ڈاکٹر حبیب الرحمن، ریاض الحاق روفی، ایوب صدیقی، شوکت رضوی وغیرہ شامل ہیں۔ پوسٹ آفس میں کلرک کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اسلامیہ کالج سے B.A کیا۔ 1954 میں کراچی لائبریری ایسوسی ایشن کی جانب سے پہلے سرٹیفکیٹ ان لائبریرین شپ کے کورس میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور PMG آفس کی جاب کو خیرباد کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی میں (Classifier) کلاسی فائر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی۔ 1957 میں کراچی یونیورسٹی کے پہلے ڈپلومہ ان لائبریری سائنس کے کورس میں اول پوزیشن کی کراچی یونیورسٹی میں بحیثیت (Classifier / Cataloger) ''کلاسی فائر۔ کیٹلاگر'' بڑی محنت و لگن سے کام کیا۔

جہاں یونیورسٹی کے پروفیسرنے زریفرنس (Reference) کے سلسلے میں ڈاکٹر خورشید کے پاس آنا شروع کیا اور جلد ہی اپنی قابلیت و ذہانت کی وجہ سے مشہور ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ ان کا ادبی حلقہ احباب وسیع ہوتا گیا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر احسان رشید، ڈاکٹر منظور احمد، ڈاکٹر معصوم علی ترمذی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر ابوالیث صدیقی، ڈاکٹر ظفر سعید سیفی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، پروفیسر جمیل اختر، اکرام احمد، سحرانصاری، خاطر غزنوی، ڈاکٹر شریف المجاہد، پروفیسر ذکریا ساجد، ڈاکٹر انعام الرحمن، مشفق خواجہ، ابن انشاء، سرشار صدیقی، شمیم احمد، مولوی عبدالحق اور دیگر ادیب و شعراء حضرات سے ان کا قریبی دوستی کا رشتہ تھا۔ ڈاکٹر انیس خورشید کو صحافت سے بڑا لگاؤ تھا، یہ ان کا ایک رخ تھا، لیکن قسمت لیے لائبریری سائنس کے شعبے کی طرف لے آئی اور اس میں انھوں نے صحافت سے زیادہ نام روشن کیا۔ 1958 میں فل برائیٹ (Full Bright) اسکالرشپ پر Rutger Uni (امریکا) تشریف لے گئے اور 1959 میں MLS مکمل کرنے کے بعد واپس کراچی یونیورسٹی جوائن کیا اور شعبہ لائبریری سائنس میں درس و تدریس کا کام شروع کیا۔ شعبے کے صدر کی ذمے داری سنبھالی۔ یہاں بھی ان کے اہم کاموں کا مختصر جائزہ دوں گا اور بیرون ممالک ان کی شہرت کا ذکر کرنا چاہوں گا۔آپ نے پاکستان میں پہلا ماسٹرز پروگرام شروع کروایا اور اس کو انٹرنیشنل اسٹیٹس دلوایا پبلک لائبریرینزکی اہمیت کو اجاگر کیا۔

لائبریرئنز کو کلرک گریڈ (A-7) سے نکلواکر 17 واں گریڈ دلوایا اور یونیورسٹی لائبریرینز کو پروفیسر یعنی 20 واں گریڈ دلوایا۔ بعدازاں Ph.D پروگرام شروع کروایا، ریسرچ میں قائد اعظم کی Annutated Biblography دو جلدوں میں تیارکی۔ 1965میں دوبارہ امریکا گئے اور پٹسبرگ یونیورسٹی سے Ph.D مکمل کی۔ 1969 میں واپسی ہوئی اور آتے ہی Multiple Selerosis کے مرض کا شکار ہوئے۔ ایک اسٹیج پر ڈاکٹرز بھی ہمت ہار گئے تھے، مگر وہ 40 سال تک اس مرض سے مقابلہ کرتے رہے اور اپنی اسٹرونگ ول پاور کی وجہ سے مرض کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا۔ اس دوران باقاعدہ درس و تدریس کا کام جاری رکھا۔ 25 سے زائد کتابیں اور دو سو سے زیادہ مضامین لکھے جن کی اہمیت کو عالمی سطح پرسراہا گیا۔ان سب کی تفصیل ان کی ویب سائٹ www.aniskhurshid.com پر مل جائے گی۔ تمام حوالات موجود ہیں اور یہاں دہرانا مناسب نہیں ہیں۔

حال ہی میں ان حوالات کو Update بھی کیا گیا ہے البتہ بین الاقوامی شہرت کا ذکر ضرور کروں گا۔ ان کے مداحوں کا تعلق دنیا کے ہر کونے سے ہے، لیکن امریکا، کینیڈا، انگلینڈ، کویت، سعودی عرب، لیبیا، انڈیا، بنگلہ دیش، نائیجیریا وغیرہ کے لیڈنگ لائبریرینز نے بہت کچھ کہا اور لکھا ہے۔ یہ سب ویب سائٹ پر موجود ہے۔ میں ان میں سے چند ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ برطانیہ سے پروفیسر جان فیڈر نے ''عظیم انسان اور ایک اچھے دوست'' سے نوازا ہے، پٹسبرگ یونیورسٹی (امریکا) کے ڈین ران لارسن (Dr. Ron Lorson) اور اسسٹنٹ ڈین کیلورین لوتھر (Dr. Carolign Loether) نے خراج تحسین پیش کیا ہے کہ ''ڈاکٹر انیس خورشید ایک ذہین، محنتی، بلند نظر، پختہ ارادے والے تحقیق کے دیوانے تھے، شریفی فاؤنڈویشن کے وہ سراغ نگار تھے اور وسائل کے لیے مشاورت میں میری مدد کرتے تھے۔ ان کی جدائی ہمیشہ محسوس کی جائے گی''۔ ڈاکٹر شریفی نے پچھلے دنوں فون پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دہرایا کہ ''میں چاہتا تھا ڈاکٹر انیس خورشید، ناصر شریفی فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹر کا عہدہ قبول کریں''۔ کیلیفورنیا امریکا سے ڈاکٹر منظور الدین احمد (سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی) کے خیال میں ان کی غیر موجودگی سے تحقیق و تدریس میں ایک خلاء پیدا ہوا ہے جسے آسانی سے پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے مانے گئے ان اساتذہ میں ڈاکٹر انیس خورشید، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر ریاض اسلام کے نام نمایاں ہیں۔ ان لوگوں نے کراچی یونیورسٹی کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ڈاکٹر انیس خورشید اور ان جیسے بڑے لوگوں پر پی ایچ ڈی پروگرام کیا جائے جس میں ان پر مقالے لکھے جائیں اور ان کے کردار، طریقہ تعلیم اور کام سے نئے اساتذہ مستفید ہوسکیں۔
ڈاکٹر معصوم علی ترمذی (سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی) ورجینیا، امریکا سے لکھتے ہیں کہ ''ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے شعبے میں بڑا نمایاں کردار اور گران قدر خدمات انجام دی ہیں ان سے ہمیشہ حکیم محمد سعید (ہمدرد فاؤنڈیشن) کی ماہانہ مجلس شوریٰ کی نشستوں میں پابندی سے ملاقات ہوتی تھی۔'' ڈاکٹر اتفاق علی (سابق وائس چانسلر) کے مطابق ''علم کی دنیا میں ان کا بڑا Contribution ہے اور انھوں نے علم و ادب کی بڑی خدمت کی ہے۔'' ڈاکٹر ظفر سیفی (سابق وائس چانسلر) کا کہنا تھا کہ ''وہ کتاب کے انسائیکلو پیڈیا تھے۔'' کتاب کا نام لو مصنف اور لائبریری میں فلاں شیلف میں اس نمبر پر رکھا ہے، زبانی بتا دیا کرتے تھے۔'' ظہیر الدین خورشید کنگ فہد یونیورسٹی دہران (سعودی عرب)سے لکھتے ہیں کہ میں ''ان کی محنت، کاوش اورمقام سے جو انھوں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پایا بہت متاثر رہا اور ان کی تقلید کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا۔ ڈاکٹر ممتاز انور کویت یونیورسٹی سے لکھتے ہیں کہ ''وہ لائبریرین کی اول جنریشن میں سے تھے، اپنے کاموں کی بنیاد پر بلاشبہ قدآور شخصیت تھے ان کی قائدانہ تحریر ملک اور بیرون ملک منفرد مقام کی حامل ہیں۔'' محمد خورشید عالم سابق لائبریرین کراچی یونیورسٹی ملٹن کینیڈا سے لکھتے ہیں کہ ''ڈاکٹر انیس خورشید میرے آئیڈیل تھے، لیے دیکھ کر ہی میں نے لائبریری پروفیشن اختیار کیا۔

دورہ جاپان میں IFLA کانفرنس میں میری ملاقات دنیا بھر کے بے شمار لائبریرینز سے ہوئی مجھے یہ جان کر بے حد ہجرت ہوئی کہ ان میں سے زیادہ تر لائبریرینز نہ صرف لیے ذاتی طور سے جانتے تھے بلکہ ان سے مستقل رابطہ میں بھی تھی''ورجینیا امریکا سے ڈاکٹر فصیح الدین، کیلیفورنیا امریکا سے سید ریاض الدین واشنگٹن DC سے فرید احمد۔ پٹسبرگ سے ڈاکٹر احمد، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور دوسرے ممالک کے بہت سارے لائبریرینز نے بہت کچھ کہا اور لکھا ہے فہرست طویل ہے۔ ان کا نظریہ کہ ''زندگی کا ہر لمحہ بہت اہم و قیمتی ہے اسے ضایع نہیں کرنا چاہیے۔'' کبھی اپنا نہ سوچا اور دوسروں کے لیے جیتے رہے اور کام کرتے رہے۔ حقیقت ہے کہ ان کے کاموں کا اندازہ ان کی زندگی میں نہ ہوا بلکہ انتقال کے بعد جب ساری چیزں سامنے آئیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، بیرون ملک شہرت کا بھی اتنا احساس نہ تھا۔ ان کو پاکستان کا رانگاناتھن (Ranganathan) کیا جاتا ہے صدارتی تمغہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک درخشاں روشن ستارہ ہیں جو آج بھی اسی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ توانائی کے ساتھ چمک رہا ہے اور صدیوں چمکتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ لیے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے (آمین ثمہ آمین) اور ان کے کاموں کو لے کر آگے بڑھایا جائے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس آرٹیکل کے حوالے سے میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ تصنیف شدہ آخری کتاب ''سی پی کے موتی'' چھپ چکی ہے اور اب ان کے لکھے گئے خطوط پر مبنی کتاب عنقریب شایع ہوگی، اگر کوئی ان کے خطوط کو Share کرنا چاہے اور چھپوانا چاہے تو فوراً شفیق اجمل (darsequran.com) سے یا email کے ذریعے رابطہ قائم کریں۔

مقبول خبریں