جمہوریت نرغے میں ہے

ایسی ہنگامہ خیز اور تلاطم انگیز صورتحال میں ادیبوں کا بڑی حد تک ایک منتخب اجتماع نہایت اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔


Zahida Hina January 13, 2013
[email protected]

KARACHI: کبھی کبھی عجیب اتفاق ہوتا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے ملک کے مختلف شہروں سے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو 2012ء کے آخری دنوں میں اسلام آباد آنے اور ادب اور جمہوریت پر گفتگو کرنے کی دعوت دی تھی۔ پھر جانے کیوں یہ کانفرنس ملتوی ہوگئی۔ چند دن پہلے ایک بار پھر عاصم بٹ کی طرف سے بلاوا آیا کہ اسلام آباد کا رخ کیجیے اور جمہوریت کا ادب سے کیا رشتہ ناتا ہے، اس پر اپنے خیالات کااظہار کیجیے۔

اب جو اس کی تاریخیں مقرر ہوئی ہیں، وہ حسن اتفاق سے وہی ہیں جب ایک چھاتہ بردار کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے 40 لاکھ کے لشکر سے موجودہ نظام کی بساط لپیٹ دیں گے۔ اور ملک کے آئین، پارلیمانی نظام ، چند مہینوں بعد ہونے والے انتخابات اور نظام عدل سب ہی کو درست کرکے دم لیں گے۔ گویا وہ پارلیمانی جمہوریت کا جھٹکا کرکے اپنا کوئی ایسا نظام مسلط کریں گے جس سے عوامی امنگوں کے مطابق پُرامن انتقال اقتدار کی راہ ایک بار پھر ہنرمندی سے مسدود کردی جائے گی۔ کچھ منتخب روزگار اقتدار میں آئیں گے اور راوی 'اسٹیٹس کو'' کے محافظوں کے لیے چین لکھے گا۔

ایک ایسی ہنگامہ خیز اور تلاطم انگیز صورتحال میں ادیبوں کا بڑی حد تک ایک منتخب اجتماع نہایت اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی کہتی چلوں کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اکادمی ادبیات پاکستان جولائی 1976ء میں فرانس کی ادبی اکیڈمی کی طرز پر قائم کی تھی۔ وقت کی اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اپریل 1977ء میں ان کی آئینی حکومت پر شب خون مارنے کے بعد اپریل 1979ء میں جب ان کا عدالتی قتل ہوا تو اس کے 7 دن کے اندر جنرل ضیاء الحق جن کے ہاتھ بھٹو صاحب کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔

ان کے حکم پر اکادمی ادبیات پاکستان نے اس ملک کے سیکڑوں ادیبوں کو دعوت نامے جاری کیے اور ان میںسے بیشتر ادیب اور شاعر جن میں اکابرین بھی شامل تھے، اسلام آباد تشریف لائے ۔ دستِ قاتل کے چنے ہوئے دسترخوان کے ریزہ چیں ہوئے ۔یہ بھی بھلانے کی بات نہیں کہ یہی جنرل موصوف تھے جنہوں نے ادیبوں کے نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے برسر محفل اعلان کیا کہ ان دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں پر پاکستان کی ہوائیں ، اس کی چاندنی اور اس کا پانی حرام ہے جو سرکار والا تبار کے احکامات پر آمنا و صدقنا نہیں کہتے۔ ہمارے سیکڑوں معتبر اور مستند ادیب جو اس محفل میں موجود تھے۔ انھوںنے سر جھکا کر ان کے یہ ارشادات سنے تھے اور اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔

یہ دل خراش واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد ادیبوں پر جس طرح نرغہ کیا گیا ۔ فیض، منٹو، ہاجرہ مسرور اور دوسرے ادیبوں پر جھوٹے مقدمے بنے۔ پنڈی کانسپریسی کیس میںجس طرح متعدد ادیب اور شاعر ملوث کیے گئے اور اس کے فوراً بعد 1958ء میں نام نہاد جمہوریت بھی لپیٹ دی گئی، اس نے ادیبوں کی اکثریت کو بہت کمزور کردیا۔

ہمارے یہاں ادیبوں کی مزاحمت اس لیے بھی کمزور پڑی کہ 1971ء میں ہماری بنگالی اکثریت، ہم سے الگ ہوگئی اور ہم شعلہ بہ جاں بنگلہ ادیبوں اور دانشوروں سے محروم ہوگئے جنہوں نے 1948ء سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو للکار رکھا تھا۔

ہمارا سماج جس انتشار اور جن تضادات کا شکار ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ادیبوں نے اپنی ذمے داریاں اس طرح ادا نہیں کیں جو ان کا فرض تھا۔ ان معاملات کی روشنی میں اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ سابق مشرق پاکستان میں ستم کے کوہ گراں ٹوٹے لیکن ہمارے ادیبوں کی اکثریت خاموش رہی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو خون بہانے والوں کو داد و تحسین سے نوازتے رہے۔ آج بھی ہمارے اطراف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ بلوچستان زخموں سے نڈھال ہے۔ لوگ لاپتہ ہورہے ہیں۔ ان کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشیں سڑک پر پھینک دی جاتی ہیں۔

ایک طرف ان کے ڈھونڈنے والوں سے نجات ہوجاتی ہے دوسری طرف ادیبوں اور صحافیوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ''خاموش رہو''۔ لیکن کیا ہمیں واقعی خاموش رہنا چاہیے؟ ہندوئوں، عیسا ئیوں اور سکھوں پر عرصۂ حیات تنگ ہے۔ احمدی جس خوف و ہراس کا شکار ہیں اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اول تو اس کی خبر نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ عورتوں کی زندگی عذاب کردی گئی ہے، بچے جبری مشقت کی چکی میں باریک پیسے جاتے ہیں۔ افغان، بنگالی، برمی اور دوسرے پناہ گزین اپنے انسانی حقوق سے محروم ہیں۔

پانی جو قدرت کی عطا ہے ہمارے شہریوں کو نہیں ملتا۔ بھوک ان کی گردنیں چبا رہی ہے۔ مفلسی نے بچیوں کو بازار میں لا بٹھایا ہے اور اسی عذاب سے کم عمر بچے اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے دوچار ہیں۔ زندہ رہنے کے حق سے تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے ہمارے لوگ محروم کردیے گئے ہیں۔ لیکن ہم میں سے بیشتر لکھنے والے ان معاملات سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔

65 برس سے سرچشمہ اقتدار پر قابض قوتیں پاکستان اور بلوچستان کے بدن پرنیابتی جنگیں لڑرہی ہیں۔ تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کے خواب آج بھی دیکھے جارہے ہیں۔ یہ جبر و استبداد کیا رنگ لائے گا؟ اس بارے میں آخری فیصلہ مقتدر قوتیں نہیں کرسکیں گی۔ آخری فیصلہ وقت اور تاریخ کا ہوگااور ہم ادیب یہ اعتراف بھی کرلیں کہ تو مناسب ہوگاکہ ہم میں سے بیشترمظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے اور ان کی ابتلا کو ادب کا حصہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔

آج جب ادیبوں کی مزاحمت کی بات کی جاتی ہے تو ہم منٹو کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ جس کا صد سالہ جشن پیدائش نہایت دھوم دھڑکے سے منایا گیاہے اور جس نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں پاکستانی سماج اور حکمرانوں کے خلاف تندوتیز تحریریں لکھیں اور اس کی سزا بھگتی ۔ منٹو کی کہانیاں، اس کے مضامین پاکستان کے مزاحمتی ادب کا وہ شاندار سرنامہ ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔

ہم جب اپنے مزاحمتی ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو ہاجرہ مسرور کا نام بھول جاتے ہیں جنہوں نے 1949ء میں لکھا تھا کہ '' انسان فطری طورپر امن پسند، انصاف دوست اور صداقت پرست ہے اور جہاں وہ باوجود کوشش اور ریاضت کے امن انصاف اور صداقت نہ پاسکے تو تنگ آکر بغاوت پر اتر آتا ہے۔ امن پسندی، انصاف دوستی اور صداقت پرستی کے جیتے جاگتے اصولوں پر تعمیر کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسان اپنا پیٹ بھر کر بھی دوسرے کا نوالہ چھیننے کی فکر میں رہے اور لباس پہن کر بھی دوسروں کے پیرہن نوچتا رہے۔''

یہ جنرل ایوب خان کا زمانہ تھا جب قرۃ العین حیدر نے ''آگ کا دریا'' اور شوکت صدیقی نے ''خدا کی بستی'' لکھ کر اپنے اپنے رنگ میں اسٹیبشلمنٹ کی مزاحمت کی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اردو کا شاندار مزاحمتی ادب جنرل ضیاء کے زمانے میںلکھا گیا۔ اس دور میں لکھا جانے والا انور سجاد کا ناول ''خوشیوں کا باغ'' عبداللہ حسین کا ''باگھ''۔ انیس ناگی کا ''دیوارکے پیچھے'' کے علاوہ الطاف فاطمہ کا''چلتا مسافر'' جو نہایت نرم لہجے میں مشرقی پاکستان کے آخری دنوں کی صورتحال اور اس سے سفاکانہ بے اعتنائی برتنے والوں کا نقشہ کھینچتا ہے۔ مزاحمت کی ہلکے آبی رنگوں سے بنائی جانے والی ایسی تصویر ہے جو دل دوز ہے۔ خالد حسین، اعجاز راہی، احمد دائود، نعیم آروی، سعیدہ گزدر، افضل توصیف، مسعود اشعر،انور سن رائے اور ایسے دوسرے متعدد لکھنے والے ہیں جنہوں نے تمام خطرات مول لیتے ہوئے اپنے قلم سے مزاحمت کی۔

وقت جس کی قہاری و جباری کے سامنے تمام فرعون ،شداد اورشہنشاہ منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔جس کا بے رحم خنجر حیلہ پرویزی کے تمام بخیے ادھیڑدیتا ہے ۔اس سے بھلا کس کو پناہ ہے اور کس کو نجات۔ہمارے یہ آمران مطلق تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیے گئے لیکن صدمہ اس بات کا ہے کہ اب بھی کچھ لوگوں کو جمہوریت اچھی نہیں لگتی۔

20 ویں صدی کے عظیم شاعرپا بلونرودا نے 1971ء میں ادب کا نوبل انعام قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ'' شاعر اور لکھنے والے کی حیثیت سے ہمیں صرف عام انسانوں تک ہی نہیں پہنچنا بلکہ اس دنیا پر گزری ہوئی صدیوں پرانی روایتوں' ناانصافیوں 'جھوٹ اور افلاس کے خلاف آواز اٹھانی ہے۔ ان پر کڑی تنقید کرنی ہے اور ساتھ ہی ماضی میں اور ہر دور میں دہرائی جانے والی ان خواہشوں' آرزوئوں اور تمنائوں کو اپنے اندر سمونا ہے جن کی تکمیل کا خواب فنکار نے ہر عہد میں دیکھا ہے''۔ ادیب کی مزاحمت اوراس کی باضمیری کو اس سے مختصر الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ آج پاکستان کے شہروں' بستیوں' بازاروں اور سڑکوں پر سچ اور جھوٹ کے درمیان' انصاف اور ناانصافی کے درمیان جو لڑائی لڑی جارہی ہے ۔ اس میں اپنا حصہ ڈالے بغیر ہم اردوکے مزاحمتی ادب کی تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کے دعویدار کس طرح ہوسکتے ہیں۔

آج جس شہر میں ہم کھڑے ہیں اور جس پر یلغار ہونے والی ہے، وہ صرف سیاستدانوں اور جمہوری قوتوںکا ہی نہیں، ہم ادیبوں کا بھی امتحان ہے کہ ہم اپنا وزن جمہوریت، انصاف اور عوامی حقوق کی خاطر مزاحمت کے پلڑے میں ڈالتے ہیں یا خاموش رہنے میںہی عافیت سمجھتے ہیں۔

(پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے سیمینار میں پڑھا گیا)

مقبول خبریں