لاہوری جہاں گرد سلمیٰ اعوان
وہ خوش رہے اور ایسی ہی دل مسوس دینے والی کہانیاں لکھتی رہے۔
بچپن میں سنی جانے والی داستانوں میں اڑن کھٹولے اورکل کے گھوڑے تھے۔ ان داستانوں کے شہزادے، بادشاہ زادے ان پر بیٹھتے اور ہزاروں میل دور کی سیر کرتے، ایک قالیچۂ سلیمانی بھی تھا۔ حضرت سلیمان کا وہ غالیچہ جس پر وہ بیٹھتے اورآن کی آن ''ہیکل سلیمان'' سے ملک خطا وختن جا پہنچتے۔ جیسے آج کے امیرکبیر وزیر سفیر ذاتی طیارے میں اڑے اڑے پھرتے ہیں۔
داستانوں کے طلسم کے ساتھ ہی شوق ہوا کہ سیاحوں اور ان کی سیاحتوں کے قصے پڑھے جائیں۔ یہ دیکھا جائے کہ قالیچۂ سلیمانی جن کے پاس نہ تھا، وہ مہم جو اپنے خچر، گھوڑے یا اونٹ پر کہاں کہاں گئے اور انھوں نے کیا کچھ دیکھا اور لکھا۔ اردو کے رسائل اور جرائد میں چھپے ہوئے سیاحتوں کے قصے، انگریزی میں لکھے ہوئے ٹریو لاگ۔ اندازہ ہوا کہ سفر ناموں کی دنیا 'علم دریائو'ہے جس کا کوئی اور چھور نہیں۔
چوتھی صدی عیسوی میں ایک چینی بدھ بھکشو فاہیان بودھ مدت کے آثار ڈھونڈتا ہوا سری لنکا، ہندوستان، افغانستان اور کشمیر میں پھرتا رہا۔ 13ویں صدی میں مارکوپولو، 14 ویں صدی میں طنجہ کا ابن بطوطہ اوران کے علاوہ بھی سیکڑوں نامور سیاح جنہوں نے اپنی سیاحت کے کیسے کیسے قصے لکھ چھوڑے۔ خواتین کو چار دیواری سے قدم باہر رکھنے کی اجازت نہ تھی، تو وہ سیاحت بھلا کیا خاک کرتیں۔ لیکن ادھر یورپ میں عورت نے پڑھنا لکھنا سیکھا اور ادھر وہ بارہ بور کی بندوق سے نکلنے والی گولی کی طرح نکلی اور تمام براعظموں میں گھوم آئی۔ یوں توبرطانوی اور آئرش خواتین نے ہندوستان کے بارے میں بہت سے سفر نامے لکھے لیکن ان میں سب سے مستند اور معتبر فینی پارکس کا سفر نامہ 'پکچر سک انڈیا' ہے۔ دو جلدوںپر مشتمل یہ کتاب انیسویں صدی کے ہندوستان کے بارے میں ایک ایسا دلچسپ اور چشم کشا سفر نامہ ہے۔ جسے پڑھتے ہوئے فینی پارکس کی قوت مشاہدہ کو داد دینی پڑتی ہے۔ اس نے ہمارے پہاڑوں کی اونچائی اور دریائوں کی گہرائی جاننے کے لیے کتنی صعوبتیں اٹھائیں۔
ان سفر ناموں کے لکھنے والے مرد اور عورتیں اس لیے یاد آئیں کہ چند دن پہلے ایجنسی فرانس کے حوالے سے چار سطری خبر شایع ہوئی۔ یو این ورلڈ ٹور ازم آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل طالب رفاعی نے یہ اعدادو شمار جاری کیے ہیں کہ 2012کے خاتمے پر ایک ارب سے زیادہ لوگوں نے دنیا کی سیر کی۔اس خبر کو پڑھتے ہوئے اردو کی ایک معروف ادیب اور سیاح سلمیٰ اعوان کا چہرہ نگاہوں میں گھوم گیا۔ یوں تو وہ پاکستان میں چترال، بلتستان، گلگت و ہنزہ گھوم آئیں لیکن جب تک انھوں نے پاسپورٹ ہاتھ میں تھام کر ملک سے باہرقدم نہیںنکالا تھا۔ بھلا کون انھیں مستند سیاح مانتا۔ وہ لاہور سے نکلیں اور مصر، عراق، سری لنکا اور روس جاکر دم لیا۔ ان کے شوق کا عالم دیکھیے کہ ہر سفر انھوں نے اپنی گرہ سے کیا اور اور واپس آتے ہی سفر نامے لکھ لکھ کر لوگوں کو حیران کرتی رہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوکہ ایک عمومی رائے کے مطابق سفر نامہ لکھنا، مردوں کا شعار ہے۔ یہ تصور کرتے ہوئے ہمارے لوگ بیگم اختر ریاض الدین اور قرۃ العین حیدر کو بھول جاتے ہیں۔ بیگم اختر ریاض نے مختلف ملکوں کا سفر کیا اور ان کے بارے میں ایک مختصر سی کتاب لکھ دی۔ قرۃ العین حیدر کا معاملہ دیگر ہے۔ انھوں نے سوویت یونین، ایران ، امریکااور جاپان کے نہایت دلکش اور خیال پرور سفر نامے لکھے۔ جن میں تاریخ، ادب اور تہذیب کی چاشنی اور ان زمینوں کی خوشبو ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی طرف سے جب گزشتہ برس ایک ارب سے زیادہ سیاحوں کے اعداد وشمارآئے تو میرا جی خوش ہوا کہ ان ارب انسانوں میں سے لاہور کی ایک جہاں گرد سلمیٰ اعوان بھی ہے ۔ سلمیٰ اعوان نے مصر اور روس کا سفر نامہ لکھا۔ عراق اور سری لنکا کے سفرنامے چھپنے ہی والے ہیں۔ سلمیٰ سے ملیے تو یوں محسوس ہوگا کہ ایک نیک بی بی ہے جو چولہا چکی کرتی ہوگی اور صبح شام کئی سیر آٹے کی روٹیاں ڈالتی ہو گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ نہ پرات کو ہاتھ لگائے، نہ چولہا جھونکے۔ لاہور گیرژن اسکول چلاتی ہے اور اس سے ہونے والی یافت سے ہر سال دوسال بعد دنیا کی سیر کو نکل جاتی ہے۔ عورتیں اپنی جمع جتھا سے زیور خریدتی ہیں۔ مخمل وکمخواب کے تھان اٹھا لاتی ہیں۔ لیکن ہماری سلمیٰ ہر سفر سے یادداشتوں کے پلندے لاتی ہے اور کیسے کیسے خوبصورت زاویوں سے اس ملک اور ملک والوں کا احوال لکھتی چلی جاتی ہے۔
سلمیٰ نے اپنا سفر کہانیوں سے شروع کیا تھا۔ ایسے میں وہ محض سفر ناموں پر اکتفا کیوں کرتی۔ اس نے اپنے سفر ناموں سے کہانیاں کشید کی ہیں۔ اور ''کہانیاں دنیا کی'' ہمارے سامنے رکھ دی ہیں۔ ان کہانیوں کی اینا اور عبیر اپنے دل دوز انجام سے ہمیں لرزہ بہ اندام کرتی ہیں۔ ان پر جو کچھ بھی گزری وہ ان کے فرعون صفت حکمرانوں کی بدکاریوں کا نتیجہ ہیں۔ ''آسمان چپ رہا'' کی عبیر جب چیخ کر کہتی ہے:۔
''جدی میرا تو جی چاہتا ہے شہدا برج پر کھڑے ہوکر صدام کو آواز دوں اور پوچھوں کہ اس بدمعاش امریکا کی حرامزدگیوں کا رونا تو اپنی جگہ۔ صرف اتنا بتائو کہ تمہاری اور تمہارے حکمران ٹولے پر اس پٹھو تنظیم کہ نام جس کا یو این او ہے، اس کی عائد کردہ پابندیوں کا کیوں اثر نہیں۔ تمہارے بچے ان بیماریوں سے کیوں نہیں مررہے ہیں۔ تمہاری عورتیں راشن کے لیے قطاروں میں کیوںنہیں کھڑی ہوتی ہیں؟ تمہارے گھروں میں لوڈ شیڈنگ کیوں نہیں؟ تمہارا پینے کا پانی کیوں گدلا نہیں؟جواب دو صدام!امریکا ظالم ہے تو تم اس سے بھی بڑے ظالم ہو جو اپنی کرسی کا سودا معصوم بچوں کی بیماریوں اور موت سے کررہے ہو۔ تم امریکا کے آلہ کارہو۔''
ہماری اکثریت اپنی بربادیوں کی ذمے داری دوسروں پر ڈال کر اپنی ذمے داریوں سے ادا ہوجاتی ہے لیکن سلمیٰ ایک سہل انگار لکھنے والی نہیں ہیں۔ نہ وہ یہود ونصاریٰ کو مسلم امہ کی تمام خرابیوں کی ذمے دار ٹھہراتی ہیں۔ وہ تاریخ کی کھتونی سے کسی دانشور کی طرح ان معاملات کو سامنے لاتی ہیں جن سے ہمارے جذباتی لکھنے والے اپنی تمام خرابیوں کی ذمے داری دوسروں پر ڈال کر چین کی نیند سوتے ہیں۔ سلمیٰ کی مشکل یہ ہے کہ وہ لکھنے کا یہ آسان نسخہ اختیار نہیں کرتی اور سوال اٹھاتی ہے۔ ایسے سوال جن میں بہت سے جواب چھپے ہوئے ہیں۔
اینا اور ہیشم کے عشق کا قصہ ہم میں سے اکثر کو حیران کرے گا کیونکہ اس میں رومان سے زیادہ تاریخ اور دانش کے معاملات بیان ہوئے ہیں۔
نااہل اور خود غرض حکمران کہیں کے ہوں، دائیں بازو سے تعلق رکھیں یا بائیں بازو سے گھن کی طرح اپنے سماج کو چاٹ جاتے ہیں۔ زوال کا یہ بنیادی نکتہ سلمیٰ کی بیشتر کہانیوں میںنظر آتا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور اس کے بعد گزرنے والے ماہ وسال میں سے 70 برس کی تاریخ کو بہ یک جنبش قلم مسترد کردینے والے لوگوں کو سلمیٰ نے کس دانشورانہ انداز میں بیان کیا ہے۔
''دونوں گھنٹوں لائبریری میں بیٹھتے۔ پرانے اخبارات، رسائل اور کتابیں پڑھتے، لینن، اسٹالن اور ٹراٹسکی کا موازنہ کرتے۔ اسٹالن کے ظلم وبربریت پر باتیں کرتے۔ پھر اس رائے کا اظہار بھی ہوجاتاکہ روس نے اسٹالن دور میں ہی چھلانگیں مار کر ترقی کی ہے۔ کبھی خروشیف کبھی برژنیف ادوار کا مقابلہ ہوتا۔ بیوروکریسی کے کردار زیر بحث آتے اور ماضی کی غلطیوں کو حال کے واقعات سے جوڑتے ہوئے نوے کی دہائی میں ہر سمت پھیلی ہوئی بدعنوانیوں اور جرائم کے لامتناہی سلسلوں کو جو سوویت یونین سوسائٹی کو گھن کی طرح کھارہے تھے انھی کا نتیجہ قرار دیتے۔''
یہاںیہ بتانا لازم ہے کہ سلمیٰ کا فکری تعلق نہ دائیں بازو سے ہے اور نہ بائیں بازو سے، وہ سچی اور کھری وقایع نگار ہیں۔ ایسی وقایع نگار جو معاملات کو گہرائی سے دیکھتی ہے تب ہی یہ لکھ سکتی ہے کہ '' فوجی بغاوت کی ناکامی پر مسرت و شادمانی کا اظہار تھا۔ ہتھوڑا اور درانتی سرخ جھنڈے سے یوں کاٹ پھینکی گئی تھی جیسے وہ کسی تحریک کا سمبل نہیں کوئی اچھوت شے تھی۔ ہر گزرتے دن ایک نیا شوشہ جنم لیتا۔ ایک نیا روح فرسا منظر سامنے آتا۔ یہ بھی کتنا بڑا المیہ تھا کہ جنگ عظیم دوم کے جرنیل اپنے تمغوں کو سینوں پر سجائے ریڈ اسکوائر میں کھڑے روٹی اور روبل کے طلبگار تھے۔زار شاہی دور کی طرف واپسی کرتے ہوئے ستر اسی سالہ وقت کو منہا کرنے کی حماقتیں زورو شور سے کی جارہی تھیں۔ بڑے ظالمانہ دن تھے۔''
یہ کہانیاں ظالمانہ دنوں کی کہانیاں ہیں۔ صعوبتوں کے یہ موسم دنیا کے بیشتر ملکوں پر سے گزر رہے ہیں اوران موسموں کو سہنے والے کبھی اینا، کبھی عبیر اور کبھی ایسے لکھنے والے بن جاتے ہیں جن کا لکھا ہوا لفظ بند کمروں سے سفر کرتا ہے اور حکمرانوں کی سماعتوں تک جا پہنچتا ہے اور اس کی سزا سہتا ہے۔سلمیٰ نے ''کہانیاں دنیا کی'' لکھیں۔ کیسی پُر اثر اور جاں گداز، سوچنے پر مجبور کرتی اور دانش کی گٹھری کھولتی ہوئی کہانیاں۔ سلمیٰ کی یہ کہانیاں ہمارے افسانوی ادب میں شاندار اضافہ ہیں۔ وہ خوش رہے اور ایسی ہی دل مسوس دینے والی کہانیاں لکھتی رہے۔