وہ جو میرے ترقی پسند دوست اور استاد تھے
سبط کہا کرتے تھے کہ فیض صاحب کی شاعری اپنی جگہ ان کی نثر کا بھی جواب نہیں اور یہ بالکل درست تھا۔
ISLAMABAD:
کچھ لوگوں کے لیے واہگہ کی کسی غیر مرئی سرحد یا لکیر کے آر پار دیکھنے اور آمد و رفت والے، میرے خیال میں گزشتہ دنوں پریشان ہوئے تھے، جب بھارت سے ایک غیر سیاسی اور خالص فلمی اداکار سمیت کئی آوازیں گلا پھاڑ پھاڑ کر بلند ہونی شروع ہوئیں لیکن میں نے تو ان لوگوں کو ایک تقریب میں خوب چہکتے مہکتے اس حال میں دیکھا کہ ان پر بھارت کی نامناسب اور غیر سیکولر متعصبانہ باتوں کا ذرہ بھر اثر نہیں تھا جب کہ میں احمق یہ سمجھ رہا تھا کہ محبوب کی اس قدر برسر عام بے حیایانہ اور سنگ دلانہ بے رخی دیکھ کر وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہوں گے۔
خصوصاً ہمارے جیسے اپنے مہربانوں سے لیکن ایسے ڈھیٹ لوگوں کی اس حالت کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ میں نقل کر کے خود شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔ میری ان سب سے نہیں لیکن اس گروہ کے کئی نمائندوں کے ساتھ زندگی کی ناقابل فراموش اور بڑی ہی عزیز یادیں وابستہ ہیں۔ یہ لوگ اس کلچر سے متصف تھے جس میں بے حیائی نہیں رکھ رکھائو ہے اور اختلاف رائے کی حدیں مقرر ہیں جن کو پھلانگنا ان کے لیے ممکن نہیں کیونکہ ان کے اندر ایک ایسی احتسابی کیفیت بیدار رہتی ہے جو ان کو کسی غیر شریفانہ حرکت سے فوراً روک لیتی ہے۔ اب تو ان بچے کھچے محترم لوگوں سے میرا دور کا رابطہ ہے، مختلف اداروں میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور یہ یاد کر کے بڑا ہی دکھ ہوتا ہے کہ امتداد زمانہ سے چڑیوں کے اس چمبے کے وہ ادارے ہی ختم ہو گئے ہیں جہاں میں نے ان کی چہکار میں اپنی صحافت کی جوان آنکھ کھولی تھی اور ایک کھلی صحافت کی تربیت پائی تھی، ایک ایسی صحافتی تہذیب جو ان مہذب لوگوں کے ساتھ ہی کہیں چلی گئی اور ہمارے جیسے لوگوں کے لیے صرف اپنی یادیں ہی چھوڑ گئی۔
میں نے نوائے وقت کو چھوڑ کر ہفت روزہ لیل و نہار میں شمولیت اختیار کر لی یعنی دو متضاد اور مخالف اداروں میں بٹ گیا۔ حمید نظامی کے نوائے وقت اور میاں افتخار الدین کے پی پی ایل میں پنجابی محاورے کے مطابق بہت پرانا بیر تھا۔ میرے بزرگ اور امروز کے ایڈیٹر مرحوم احمد ندیم قاسمی صاحب نے سبط صاحب ایڈیٹر لیل و نہار سے میری بڑی زبردست سفارش کی اور نوائے وقت سے آنے والا ایک کارکن یہاں جلد ہی ہضم کر لیا گیا، ہفت روزہ لیل و نہار کے چیف ایڈیٹر جناب فیض احمد فیض تھے اور ایڈیٹر سید سبط حسن۔ دونوں کبھی ہندو پاک کی کمیونسٹ پارٹی کے ستون تھے۔ اب پاکستان میں پارٹی لیبل کے بغیر صحافت کر رہے تھے۔
میں ان کے برعکس ایک مولوی تھا لیکن بے پناہ وضع دار سید سبط حسن نے اپنی کٹر مارکسیت کے باوجود مجھے کبھی یہ فرق محسوس نہ ہونے دیا۔ سبط حسن ایک عالم و فاضل شخصیت تھے۔ جدید علوم میں ایسے کہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں انگریزی بھی پڑھاتے رہے اور جب پاکستان میں وہ اپنی جیل کے زمانے میں دوسرے قیدی سید مودودی سے ملتے رہے تو ان کا ایک ساتھی قیدی ملک غلام علی مرحوم جو مولانا مودودی کے سیکریٹری تھے، ایک بار کہنے لگے کہ دونوں میں علم و فضل کا کوئی خاص فرق نہیں تھا، بس دونوں کے موضوع ذرا الگ الگ تھے۔ ان کے علمی میدان مختلف تھے۔ بات میں لیل و نہار کے ماحول کی کر رہا تھا جس کا دفتر نکلسن روڈ سے پی پی ایل کے صدر دفتر میں آ گیا تھا اور اس طرح میں سوویت یونین کے باہر کمیونسٹ خیالات و نظریات کے حامل سب سے بڑے عالمی سطح پر مسلمہ ادارے میں شامل ہو گیا جسے آپ اس ادارے میں اجنبی بھی کہہ سکتے ہیں۔ فیض صاحب اگرچہ اس ادارے کے تمام اخبارات امروز پاکستان ٹائمز وغیرہ کے چیف تھے لیکن سبط صاحب سے دوستی کی وجہ سے وہ بیٹھتے لیل و نہار میں تھے، یوں میرا ان سے اور سبط صاحب جیسے عالم فاضل صحافیوں سے مسلسل رابطہ رہتا۔کیا خوش نصیبی تھی۔ ایک بہت بڑے صحافی اور ایڈیٹر جناب حمید نظامی کی نگرانی میں صحافت کا آغاز کیا اور ناپختگی میں ہی ایک دوسرے ادارے کے اتنے ہی بڑے صحافیوں کی نگرانی اور رہنمائی کی نعمت مل گئی۔ اب لگتا ہے کہ میں ان دونوں اداروں کے عظیم اساتذہ کے لائق نہیں تھا کہ پیشہ ورانہ طور پر ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکا۔
جب کوئی چیز لکھ کر ایڈیٹر کے پاس لے جاتے تو فیض صاحب جو وہاں بڑی کرسی پر بیٹھے ہوتے کبھی ہاتھ بڑھا کر کہتے کہ لائو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں اور پھر وہ کہیں کہیں کوئی لفظ یا جملہ اپنی طرف سے ڈال دیتے، تحریر کا رنگ ہی بدل جاتا۔ سبط کہا کرتے تھے کہ فیض صاحب کی شاعری اپنی جگہ ان کی نثر کا بھی جواب نہیں اور یہ بالکل درست تھا، کبھی سبط صاحب کراچی چلے جاتے تو فیض صاحب ہی پورے ایڈیٹر بن جاتے۔کوئی فیچر پیش کرتے تو وہ اس سلسلے میں کچھ ضروری مشورے دے دیتے اور تھوڑی بہت ترمیم بھی کر دیتے۔ ایک بار بازار کی گرانی پر فیچر تیار کیا تھا تو فیض صاحب نے کہا ،گھر والوں سے تعلقات بہتر رکھو تو آٹے دال کے بھائو کا پتہ چلتا رہے۔ میں نے عرض کیا کہ لاہور میں اکیلا رہتا ہوں تو میری طرف دیکھ کر کہا ''اس'' کے گھر والوں سے پوچھ لینا تھا اور یہ بات انھوں نے ایک خاص مسکراہٹ کے ساتھ کہی کہ میں شرما گیا، لیل و نہار میں مجھے پاک و ہند کے صحیح اور جینوئن کمیونسٹوں سے رابطہ کا موقع ملا جو نرم دل شریف با اخلاق اور انسانی ہمدردی سے مالا مال تھے۔ مجھے کبھی محسوس ہوتا کہ یہ لوگ ماسکو والوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے، میں اس ادارے کے ساتھیوں کا ذکر کرنا چاہتا تھا۔
ایک دو روز پہلے ایک تقریب میں جناب آئی اے رحمٰن میری ساتھ والی سیٹ پر تشریف فرما تھے۔ جب میں لیل و نہار میں تھا تو رحمٰن صاحب پاکستان ٹائمز میں فلمی موضوعات پر لکھتے تھے مگر وہی رحمٰن صاحب تھے جو آج ہیں۔ دوست اور بہت ہی ملنسار۔ یہ تقریب بائیں بازو والے یا روشن خیال ترقی پسند لوگوں کی تھی۔ اس میں تقریر کے دوران رحمٰن صاحب نے شاید میرا ذکر بھی کیا جو ناگوار ہر گز نہیں تھا مگر پھر بھی جب وہ سیٹ پر تشریف لائے تو پیار کے ساتھ میرا ہاتھ دبایا۔ میں آج کے ترقی پسندوں اور پہلے والے جید ترقی پسندوں کا موازنہ کرتا ہوں تو گھبرا جاتا ہوں۔ حمید اختر امروز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے، ان کا کمرہ صلائے عام والا تھا۔ ایوب خان نے اس ادارے کو نیشنل پریس ٹرسٹ کی شکل دے دی تو یہ سب لوگ تتر بتر ہو گئے۔
ان کی زندگیاں بکھر گئیں اور روزی روز گار کی تلاش میں یہ کہیں ادھر ادھر نکل گئے۔ میں واپس نوائے وقت میں آ گیا جو اس شہر کی صحافت اور اس سے متعلق لوگوں کے لیے ایک حیرت انگیز واقعہ تھا کہ پہلا جرم تو نوائے وقت چھوڑ کر اس کے دشمنوں کی صف میں شامل ہونا تھا پھر مجبور ہو کر دوبارہ آنے کی جسارت اور درخواست جس کے بارے میں پورے لاہور شہر کو یقین تھا کہ اس درخواست کی منظوری ممکن نہیں لیکن مرحوم حمید نظامی نے مجھ سے صرف اتنا پوچھا کہ آپ کمیونسٹ تو نہیں ہو گئے اور جب میں نے کہا کہ نہیں تو انھوں نے مجھے دفتر بھجوا دیا اور کوئی بات نہیں ہوئی۔ پی پی ایل کے ترقی پسند دوستوں سے جب بھی ملاقات ہوئی ذرا سی چھیڑ چھاڑ ہوئی لیکن ذاتی تعلق جوں کا توں رہا، یہ سب پرانے زمانے کی باتیں ہیں، اب دنیا بہت ہی بدل گئی ہے، شاید اس لیے کہ اب کوئی ترقی پسند نہیں رہا۔ صرف ترقی کرنے والے رہ گئے ہیں۔ یہ سطریں اصلی اور حقیقی ترقی پسندوں کی یاد میں لکھی گئی ہیں۔