نظامی صاحب کی نیاز مندی میں

یہ پہلا اخبار تھا جس کے اداریے خبروں پر سبقت لے گئے۔


Abdul Qadir Hassan March 04, 2013
[email protected]

پاکستان کے اپنے وقت کے سب سے زیادہ باوقار اور بااثر اخبار نوائے وقت کے بانی مرحوم و مغفور حمید نظامی کی یاد میں گزشتہ ہفتہ گزرا۔

جہاں تک میرا ذاتی تعلق ہے، میری صحافت کا ہر لفظ ان کے نام سے شروع ہوتا ہے اور ان کی نیاز مندی اور شکریہ پر ختم ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کے لیے نظامی صاحب کے نام کے ساتھ سیاست اور تحریک پاکستان اور اس کے نظریات نتھی ہو چکے ہیں اور ان کے ذکر کے بغیر نظامی صاحب کا ذکر ایک گستاخی سمجھی جاتی ہے اور حقیقت بھی ایسی ہی ہے لیکن میرا ان کے ساتھ ذاتی تعلق یعنی میری صحافت کا ان کے ساتھ تعلق میری ذات تک جدا اور ہر دوسرے تعلق سے بڑھ کر ہے، میں اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

مرحوم کے ساتھ قائداعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کا تعلق اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ اس میں ان کی صحافیانہ عظمت چھپ گئی ہے جب کہ انھوں نے ایک صحافی مکتب فکر کی بنیاد رکھی۔ یہ نظریاتی مکتب تو تھا ہی ایک مدرسہ بھی تھا جس کے فارغ التحصیل طلبہ میں سے شاید ایک میں ہی زندہ ہوں۔ مجید صاحب کا ذکر میں اس لیے نہیں کر رہا کہ ان کے تعلق کی نوعیت دوسری تھی۔ ایک بڑا بھائی اور اتالیق دوسرا برخوردار اور شاگرد۔ میں ایک اجنبی ان کی شاگردی میں آ گیا جس کی تربیت کا آغاز مرحوم نے کیا مگر اسے صیقل ان کے بھائی اور جانشین مجید نظامی صاحب نے کیا۔

لاہور میں ایک کافی ہاؤس ہوا کرتا تھا جس میں سیاسی کارکن اور صحافی بیٹھا کرتے تھے جیسے ٹی ہاؤس ادیبوں کے لیے مخصوص تھا۔ میں ایک سیاسی جماعت کے کارکن کی حیثیت سے کافی ہاؤس میں جایا کرتا تھا جہاں مرحوم حمید نظامی، شورش کاشمیری اور ان کے دوست جمع ہوتے تھے۔ حمید نظامی صاحب کا اس قدر رعب اور دبدبہ تھا کہ ہر کسی کو ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی لیکن وہ مجھے جانتے تھے۔ میں اپنی مصروفیات کے چکر میں لاہور سے جوہر آباد چلا گیا لیکن وہاں بیزار ہو گیا چنانچہ میں نے ایک دن حمید صاحب کو خط لکھا کہ میں صحافت میں آنا چاہتا ہوں۔

ان کی حسب عادت دوسری ڈاک سے جواب موصول ہوا جس میں میری صحافت سے دل شکنی کی گئی اور لکھا کہ یہ پیشہ اور شعبہ باہر سے جیسا نظر آتا ہے اندر سے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہر طرح کی آزمائشوں سے بھرا ہوا۔ اس پیشے کو بہت سوچ سمجھ کر اختیار کرنا چاہیے۔ میں نے اس خط کو یک گو نہ اپنی پذیرائی سمجھا اور دوسری ڈاک سے خود ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ وہ میری اس حرکت سے یا میری سیاست کے ساتھ وابستگی اور کسی حد تک تعارف سے متاثر ہو کر، وہ باہر لان میں بیٹھے تھے ڈھلتی سہ پہر کا وقت تھا۔ بچے بھی قریب ہی کھیل رہے تھے، انھوں نے عارف کو آواز دی کہ اندر چائے کے لیے کہہ دو۔

اس دوران انھوں نے مجھے ہدایت کی کہ کل میں دفتر میں شیخ حامد محمود صاحب سے مل لوں جو نوائے وقت کے حصہ دار اور مینجنگ ایڈیٹر تھے۔ شیخ صاحب جو حسب معمول صبح دفترآنے سے پہلے نظامی صاحب سے مل چکے تھے، مجھ سے ایک مالک کا نہیں بزرگ کا سلوک کیا اور میرے اخراجات کی پوری تفصیل معلوم کی جب کہ میں مال روڈ پر وائی ایم سی اے ہوٹل میں رہتا تھا اور ہوٹلوں سے کھاتا تھا لیکن اس زمانے میں حجامت دھوبی وغیرہ کے ماہانہ اخراجات کوئی ایک سو روپے سے کم تھے۔ چنانچہ انھوں نے بیس روپے میرا جیب خرچ اور ایک سو تنخواہ کا مقرر کر دیا۔ دفتر والوں کو تعجب ہوا کہ اپرنٹس کو تو ستر اسی روپے ملا کرتے تھے، اسے ایک سو سے بھی اوپر کیسے مل گئے، اس پر میرے کچھ سینئر کا ماتھا ٹھنکا۔

انھوں نے اپنے اس انتہائی جونیئر کی نا اہلی کا کیس بنا کر پیش کیا لیکن نظامی صاحب نے مسترد کر دیا اور کہا کہ اسے تربیت تو حاصل کرنے دیں۔ یہاں میں یہ ذکر کر دوں کہ نوائے وقت کا ادارہ محض ایک کاروباری ادارہ نہیں تھا۔ یہ صحافت کی تربیت گاہ تھی۔ یہاں جو نامور صحافی پیدا ہوئے وہ اپنے میدان میں آج تک حوالے کے لیے مستند سمجھے جاتے ہیں۔ تعجب ہے کہ اس ادارے کے معلم اعلیٰ خود باقاعدہ کسی صحافتی تربیت سے نہیں گزرے تھے بلکہ انھوں نے صحافت میں کئی نئی طرحیں ایجاد کیں۔ تاریخ میں پہلی اردو صحافت کو انگریزی کے ہم پلہ بنا دیا بلکہ نوائے وقت کے اداریے قومی رہنمائی کا بہت بڑا ذریعہ بن گئے سیاستدان اور حکمران ان اداریوں کی مخالفت یا حمایت میں سیاست کرتے تھے۔

یہ پہلا اخبار تھا جس کے اداریے خبروں پر سبقت لے گئے۔ آسان ترین زبان 'چونکہ چنانچہ' کے بغیر صاف انداز میں اظہار خیال۔ ٹھونک بجا کر بات کرنے کا سلیقہ نوائے وقت نے ایجاد کیا۔ جن لوگوں نے نظامی صاحب کے تحت کام کیا وہ ان کاغذی چٹوں سے ہی تربیت پاتے رہے جو ہر ایک کو اس کی کسی غلطی پر بھیجی جاتی تھی کیونکہ وہ خود دفتر نہیں آتے تھے۔ نظامی صاحب اخبار کے اشتہاروں کی غلطیاں بھی نکالتے تھے۔ میری ڈیوٹی ادارتی صفحے پر لگ گئی تو میں نے موقع پا کر اپنا ایک مضمون ادارتی صفحہ پر لگا دیا۔ دوسرے دن مشورہ با نواز ڈانٹ موصول ہوا کہ یہ ایک روزنامہ اخبار کا مضمون نہیں تھا جو کسی بھی دن چھاپا جا سکتا تھا۔ روزنامہ اخبار کے مضامین تازہ حالات کے بارے میں ہوا کرتے ہیں۔ ایک بنیادی اصول سمجھا دیا گیا۔

میں آج تک یہ الجھن حل نہیں کر سکا کہ وہ مجھ پر اس قدر مہربان کیوں تھے۔ میں نے ایک انتہائی گستاخی کی اور نا تجربہ کاری میں نظامی صاحب کے سخت دشمن صحافتی ادارے میں چلا گیا اور ہفت روزہ لیل و نہار میں کام کرنے لگا جس کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور سید سبط حسن تھے۔ جب چند برس بعد اس ادارے پر ایوب خان نے قبضہ کر لیا اور اس کے اخبارات کو نیشنل پریس ٹرسٹ میں ضم کر دیا تو استعفیٰ دینے والوں میں جو لوگ شامل تھے میں بھی ان میں شامل تھا، میرے استعفے کی وجہ نظریاتی نہیں بلکہ یہ تھی کہ میں سرکاری ملازمت نہیں کرنا چاہتا تھا۔

میں نے واپسی کے لیے نظامی صاحب کو خط لکھنے کا پروگرام بنایا۔ ہر صحافی نے مجھ سے حتمی طور پر کہا کہ حمید نظامی تمہیں واپس لے لے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن میں نے پھر بھی خط لکھ دیا، دوسرے دن ان کے دفتر سے فون آیا کہ میں نظامی صاحب سے مل لوں۔ میں زندگی میں دوسری بار ان کے گھر گیا تو انھوں نے مجھ سے صرف اتنا پوچھا کہ تم کہیں کمیونسٹ تو نہیں ہو گئے۔ میں نے نفی میں جواب دیا اور انھوں نے مجھے نوائے وقت کے دفتر اس تنخواہ پر بھجوا دیا جو میں لیل و نہار سے لیتا تھا یعنی کوئی پونے چار سو روپے ماہوار جو اس ادارے کے اصول کے مطابق ایک سی ایس پی کی تنخواہ ہوتی تھی۔

میری نوائے وقت واپسی کے کچھ بعد نظامی صاحب چل بسے۔ ان کی جگہ مجید صاحب نے لے لی اور موقع پا کر مجھے میرے سینئر نے نکلوا دیا۔ کئی ماہ بعد مال روڈ پر سیر کرتے ہوئے نظامی صاحب مل گئے اور پوچھا کیا کر رہے ہو، میں نے بتا دیا، انھوں نے کہا کہ کل مجھے مل لو۔ ان دنوں میں ایک نیوز ایجنسی چلا رہا تھا، اس کی جتنی آمدنی ہوتی تھی، اتنی تنخواہ پر مجھے رکھ لیا گیا۔ میں نے رپورٹنگ شروع کر دی تو اس دوران کبھی کبھار کالم بھی لکھ دیا جو باتیں اداریہ یا خبریں نہیں آتی تھیں، ان کو کالم میں درج کر دیا۔

حمید صاحب نے میرے کالموں میں دلچسپی لی اور ان کی نوک پلک درست کرنے لگے۔ طنز نگاری میں مجید صاحب کا مدمقابل میں نے نہیں دیکھا، وہ میرے کالم کو کیا سے کیا بنا دیتے تھے، بس ذرا سی ترمیم کے ساتھ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوائے وقت کے کالموں کو بھی اہمیت دی جاتی تھی۔ میں آج کی روائت میں اپنی مداح اور تعریف کی جرات کیے بغیر عرض کرتا ہوں کہ میں اس طرح ایک کالم نگار بن گیا۔ نظامی برادران کے صدقے میں اپنے آپ کو ایک صحافی سمجھتا ہوں لیکن میری صحافتی زندگی میں جناب مجید نظامی کا بڑا حصہ ہے اور توجہ ہے۔ انھوں نے اپنے بڑے بھائی کے بعد نوائے وقت کو کس طرح سنبھالا کہ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن ان کے مکتب صحافت نے میرے جیسے شاگردوں کو بھی سنبھال لیا اور ان کی تحریروں کو صیقل کر کے انھیں کامیاب صحافیوں کی صف میں شامل کر دیا۔

مقبول خبریں