امرسندھو فقط ببول اگتے دیکھے ہیں

نثری نظموں کے اس مجموعے کو پڑھتے ہوئے راحت محسوس ہوتی ہے۔


Zahida Hina March 05, 2013
[email protected]

3 مارچ کو اتوار تھا لیکن آنکھ منہ اندھیرے کھل گئی اورتادیر نیند کرنے کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ دھوپ کے سنہری پن سے بھری ہوئی بالکنی میں رکھے ہوئے گملوں میں چند پھول جھومتے ہیں۔ پتوں کی سرسبزی اور پھولوں کے رنگ آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں۔ کبوتروں کا جوڑا ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کررہا ہے، ان کی آواز کانوںکو بھلی لگ رہی ہے۔آرام اور آلکس کے مزے لوٹتے ہوئے مجھے یاد آتا ہے کہ شام کو مجھے آرٹس کونسل جانا ہے اور سندھی کی ابھرتی ہوئی شاعرہ امر سندھو کے مجموعے 'جاگتی آنکھوں کے سپنے' پر کچھ کہنا ہے۔ میں اٹھ بیٹھتی ہوں۔

کافی کے مگ سے اٹھتی ہوئی خوشبو مجھے اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ نثری نظموں کے اس مجموعے کو پڑھتے ہوئے راحت محسوس ہوتی ہے۔ اس سے پُرامید بات اورکیا ہوگی کہ ہمارے بعد کی نسل ہم سے زیادہ بلند حوصلہ اور بلند آہنگ ہے۔ شاعری اور نثری ادب کا دامن تھام کر وہ لڑنے پر کمر بستہ ہے۔

امر سندھو کو میں نے پہلی مرتبہ کسی جلسے میں تقریر کرتے سنا تھا۔ لبوں سے انگاروں کے پھول برس رہے تھے۔ وہ مجھے اچھی لگی۔ پھر ایک محفل میں نیشنلزم ، مارکسزم اورفیمینیزم کے حوالے سے اس کی باتیں سنیں۔ جی خوش ہوا۔ جلسہ ختم ہوا تو میں نے اسے گلے سے لگا لیا۔ ایسی لڑکیاں کم کم ہوتی ہیں جو اپنے غموں کی نمائش کے بجائے دوسروں کے دکھوں کا پشتارہ اپنی پیٹھ پر لاد کر ببول بھرے راستوں پرچلتی ہیں۔ اپنے تلوئوں کی تپش کو مسکرا کر سہتی ہوئی۔ اپنی پنڈلیوں کی تھکن کو اپنا انعام سمجھتی ہوئی۔

چند ہفتوں پہلے گیارہ فروری کو میں نے لاہور میں اسے دلّی کی کملا بھسین کے نغمے پر رقص کرتے دیکھا تھا:

توڑ توڑ کے بندھنوںکو بہنیں آتی ہیں

دیکھو لوگو بہنیں آتی ہیں

آئیں گی۔ ظلم مٹائیں گی۔ وہ تو نیا زمانہ لائیں گی۔

امر کا چہرہ اس گیت کے ساتھ اپنی آواز ملاتے ہوئے لال گلال ہورہا تھا۔

اس وقت میں یہ تو جانتی تھی کہ وہ شعر کہتی ہے لیکن اس کے اشعار کبھی سنے نہیں تھے۔ اس سے ان ادھوری ملاقاتوں کے بعد پوری ملاقات اس کی نظموں کے مجموعے 'جاگتی آنکھوں کے سپنے' کے صفحوں پر ہوئی۔ مختصر سی کتاب جس میں زمانے بھر کے انسانوں کے غم جاگتے ہیں۔ سندھی میں لکھی جانے والی نظمیں جنھیں سندھ کی دوسری شاعرہ اور ادیب عطیہ دائود نے اردو کا جامہ پہنایا اور جسے ہمارے ایک کامیاب آرٹسٹ خدا بخش ابڑو نے آراستہ کیا۔اس کی کتاب کھولتے ہوئے میں نے سوچا کہ تمام لڑکیاں سوتی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہیں۔

ہتھیلیوں پر نقش ونگار بناتی ہوئی مہندی کے، کلائیوں میں کھنکتی ہوئی چوڑیوں اور مانگ میں چُنی ہوئی افشاں کے سنہرے خواب۔ لیکن جب میں نے اس کی نظمیں پڑھنی شروع کیں تو معلوم ہوا کہ اس کے نعروں کی بازگشت اس کی نظموں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ اس کے خوابوں میں کڑوی حقیقتوں کے بھورے اور سیاہ رنگ پھیلے ہوئے ہیں۔ تب ہی وہ یہ کہہ سکی ہے کہ:میں آدھی ہوتے ہوئے بھی...سزائوں کا حصہ تو پورا لیتی ہوں...کیونکہ جنس کی ترازو میں...میرا گناہ پورا...اور سچ کی گواہی آدھی تولی گئی ہے!

مزاحمت اس کی رگوں میں زندہ لہو بن کر دوڑتی ہے۔اس کا اسے ادراک ہے، تب ہی وہ لکھتی ہے: بغاوت...میری رگوںمیںدوڑتی...میری آنکھوں میں بھر جاتی ہے...بغاوتوں سے بوسہ...اور راستوں سے چھالے لے کر...میرے ہونٹ اور پیر...اجنبی زبان میں لکھی ہوئی تاریخ کی کتاب کے...خالی اوراق میں بغیر عنوان ہی ... چھپ جاتے ہیں

اپنی عمر اور اپنے جذبوں کے جھولے میں جھولتے ہوئے وہ گیت گنگتاتی ہے لیکن یہ کوشش اس کے لفظوں کو مٹی اور موت سے بدل دیتی ہے۔ اس کے بعد اس کی سسکیاں نعروں کو جنم دیتی ہیں اور وہ پکار اٹھتی ہے:

میں نے ایک نعرے کو جنم دیا ہے...نعرہ... جس کے مستقبل میں سیکڑوں کائناتیں اور ...حال میں گندھک کی گولیاں اور...پھانسی کے پھندے لٹک رہے ہیں...پھندوں میں لٹکتی ہوئی گردنوں سے... میں خوابوں کا مطلب پوچھتی ہوں!

اس شاعرہ کی معصومیت کا عالم دیکھیے کہ وہ خوابوں کا مطلب سولی پر جھولتی ہوئی گردنوں سے پوچھتی ہے۔ اس کی شاعری میں گھروں کی دیواریں بھی گریہ کرتی ہیں اور یہ سوال کرتی ہیں کہ دار پر پھول بن کر کھل جانے والوں کا خون کیا کبھی بھوکوں کو روٹیاں دے سکے گا۔؟

امر کے خوابوں کا رشتہ ذات سے نہیں، کائنات سے جڑا ہوا ہے، تب ہی اس کے خواب کسی خانہ بدوش کی جھگی کی بے سروسامانی اور سمندری طوفان میں تنہا کشتی کے بادبان میں اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔اس کے اشعار میںبزرگ کی لاٹھی آنکھوں کے خواب دیکھتی ہے اور خواب دیکھنے والی آنکھیں جب مٹی میں ملادی جاتی ہیں، دھرتی میں سلادی جاتی ہیں، تب تاریخ اپنے آنسوئوں سے خوابوں کا نوحہ لکھتی ہے۔اس کی نظم ''نیلام سپنے'' کی سطریں خنجر کی طرح دل میں اترتی ہیں:تاریخ کے چوراہے پر...... نیلام شدہ سپنے...درد کے مرثیوں سے...ختم شدہ زندگیوں کا مقدر بنتے ہیں...اور پھر وہ اس غم کا ماتم کرتی ہے کہ...بچھڑے ہوئے ساتھیوں کے لیے...کوئی بھی نظم نہیں لکھتا...پھر بھی روندے ہوئے وجود...جیون کی تمام اداسیوں میں...مقدرکی مایوسیوں کے ساتھ... سرخ تاریخ کے باب بنتے ہیں۔

اس نظم کو پڑھتے ہوئے مجھے گولڈ امان کی یاد آئی جو ذاتی اور اجتماعی غموں کے بوجھ سے تھک کر یاد فراموشیوں کی بھول بھلیوں میں نکل گئی تھی۔ روزا لکسمبرگ، ایتھل روز نبرگ اور دوسری بہت سی عورتیں یاد آئیں جنہوں نے پوری زندگی سرخ خواب دیکھنے میں گزار دی اور جن کا اختتام کسی دریا کی تہ میں، کسی اداس شام دست قاتل کے خنجر کی دھار سے اور امریکی سرکار کی بچھائی ہوئی برقی کرسی پر ہوا۔

امر کی شاعری میں عشق کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ لیکن ان پرچھائیوں پر تاریخ میں مزاحمت اور مقاومت کرنے والوں کے نقوش ثبت ہیں اور یہی اس کو دوسری بہت سی شاعرات سے ممیز کرتے ہیں۔ اس شام امر کی شاعری پر بات کرتے ہوئے میں نے اس سے کہا کہ خواب کی کوئی جنس، کوئی صنف نہیں ہوتی۔ مزاحمت کرنے والی عورتیں اور بغاوت کرنے والے مرد، سب ہی خواب دیکھتے ہیں۔ باغی عورتوں اور منحرف مردوں کی جدوجہد سے ہی ادب اور شاعری کی توقیر میں اضافہ ہوا۔

سیفو سے سلویا پلاتھ اور سیمین بہبہانی سے سبھدرا کماری چوہان تک سب کی جاگتی آنکھوں نے آزادی اور عشق کے سپنے دیکھے اور اپنے بعد آنے والیوں کی آنکھوں میں ان خوابوں کو کاشت کیا۔ یہ روایت امر سندھو تک آئی ہے۔ یہ مبارکباد کی بات ہے کہ وہ منحرفوں اور باغیوں کی صف میں ہے۔ اسے ابھی شاعری اور عملی جدوجہد میں بڑے معرکے سرکرنے ہیں۔ میں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے اس سے کہا کہ ڈھائی سو برس پہلے اردو کا ایک شاعر سراج اورنگ آبادی یہ کہاگیا تھا کہ:

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا

کہ کتاب عقل کی طاق پر جیوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

میں نے کہا کہ امر سندھو تم بھی عشق کا وہ درس لے چکیں اور تم نے بھی کتابِ عقل طاق میں دھر دی۔ تب ہی تم امر سندھو ہو'

شام گہری ہورہی ہے عطیہ اور ابڑو کی بیٹی سہائی راگ یمن کلیان پر رقص کرتے ہوئے امر کو عقیدت کے پھول پیش کررہی ہے۔ نور الہدیٰ شاہ ، عرفانہ ملاح، تنویر انجم، سلطانہ وقاصی، تاج جویو، نور ناز آغا، راحت سعید، غازی صلاح الدین اور ان گنت سندھی اور اردو کے ادیب اور شاعر محفل میں موجود ہیں۔ سب ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔ ہنس بول رہے ہیں۔ میرے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے۔

دبئی سے کامران عباس کا فون ہے۔ 'آپ کہاں ہیں؟' میں پوچھتی ہوں 'یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟ ' جہاں بھی ہیں فوراً گھر پہنچیں۔ آپ کے علاقے میں بہت بڑا دھماکا ہوا ہے، میرا دل کوئی مٹھی میں لے لیتا ہے۔ کون رہا، کون گیا؟ راستے میں روشنیاں ہیں، ایمبولینسوں کا شور ہے۔ میں تھکی ہوئی نگاہوں سے سڑک کو دیکھتی ہوں جو تیزی سے ویران ہورہی ہے۔ لوگ گھروں کی طرف، جائے امان کی طرف لپک رہے ہیں۔ لیکن گھر بھی قبر ہوگئے۔ مجھے امر کی تین سطریں یاد آتی ہیں:

میںنے اپنی بوئی ہوئی

دعائوں کے کھیت میں

فقط ببول اگتے دیکھے ہیں

مقبول خبریں