ورلڈ کپ میں شریک فٹبالرز بھی توہم پرستی کا شکار

خبر ایجنسی  جمعـء 22 جون 2018
1998میں فرنچ پلیئرز میچ سے قبل گول کیپرکے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ فوٹو: فائل

1998میں فرنچ پلیئرز میچ سے قبل گول کیپرکے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ فوٹو: فائل

ماسکو:  ورلڈ کپ میں شریک فٹبالرز بھی توہم پرستی کا شکار نکلے۔

عام طور پر ورلڈ کپ میں کامیابی کا دارومدار سخت محنت، فٹنس اور ٹریننگ کو قرار دیا جاتا ہے، مگر کچھ ایسے بھی کھلاڑی ہیں جو محنت سے زیادہ قسمت پر یقین رکھتے اور اسے اپنے حق میں رکھنے کیلیے الٹی سیدھی توہمات کا شکار ہیں۔

سابق کولمبیئن گول کیپر رینی ہیگیوٹا کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہمیشہ ہی نیلے رنگ کی انڈرویئر پہنا کرتے تھے، موجودہ جرمن اسٹرائیکر ماریو گومیز تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، وہ میچ سے قبل  آخری لمحات تک یورین روک کر رکھتے اور آخری لمحات میں واش روم جاتے ہیں ، گومیز کے جرمن ٹیم میٹ جولین ڈریکسلر بڑے میچ سے قبل خود کو ایک طرح سے پرفیوم میں نہلا دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہر پلیئر میچ سے قبل دعائیں اور دوسری رسمیں کرتا ہے مگر میں عام طور پر خود پر بہت زیادہ پرفیوم اسپرے کرتا ہوں۔ انگلینڈ کے ڈیل ایلی اپنی پنڈلی کو چوٹ سے بچانے کیلیے جو شن گارڈ بچپن میں پہنا کرتے تھے وہ یہاں روس میں بھی استعمال کررہے ہیں،ان کو یقین ہے کہ یہ ان کیلیے خوش قسمتی کا باعث ثابت ہوں گے۔

انگلینڈ کے ہی فل جونز جیسے کچھ کھلاڑی فیلڈ کی سفید لائنز پر پاؤں نہیں رکھتے، اسی طرح برازیل کے ڈیفینڈر مارسیلو ہمیشہ ہی فیلڈ میں پہلے سیدھا پاؤں رکھتے ہیں۔ اگر غلطی سے بایاں پاؤں رکھ دیں تو پھر باہر جاتے اور سیدھا پاؤں رکھ کر اندر داخل ہوتے ہیں۔

پلیئرز ہی نہیں بلکہ کوچز بھی توہم پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں، مراکش کے کوچ ہیروے رینارڈ کئی برس سے میچ کے موقع پر سفید رنگ کی شرٹ پہن کر پچ سائیڈ پر منڈلاتے رہتے ہیں۔

1998 کے ورلڈ کپ میں تو پوری فرنچ ٹیم ہی توہم پرستی کا شکار تھی، پلیئرز میچ شروع ہونے سے قبل اپنے گول کیپر فابیین بارتھیز کے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے، ٹیم میگا ٹرافی جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔